لندن: برطانیہ میں اتوار کے روز گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئیں، جس کے ساتھ ہی برٹش سمر ٹائم (BST) کا آغاز ہو گیا۔ تاہم، ماہرین صحت نے ایک بار پھر اس پر خدشات کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس پرانی روایت کو ختم کیا جائے۔

گھڑیوں کا یہ تغیر رات 1 بجے (GMT) پر نافذ ہوا، جس سے برطانوی عوام ایک گھنٹہ کم سوئے مگر لمبے دنوں کا آغاز ہو گیا۔ یہ روایت 100 سال سے زائد عرصے سے چلی آ رہی ہے اور اکثر "اسپرنگ فارورڈ، فال بیک" کے جملے سے یاد رکھی جاتی ہے۔

برٹش سلیپ سوسائٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہ دو بارہ وقت کی تبدیلی ختم کی جائے کیونکہ اس سے نیند کے معمولات، دماغی صحت اور جسمانی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

ماہر نیند چارلی مورلی کے مطابق، "تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ صرف ایک گھنٹہ نیند کم ہونے سے بھی دل کی بیماریوں اور فالج کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔"

امریکن ہارٹ فاؤنڈیشن کے ایک مطالعے کے مطابق، ڈیلی لائٹ سیونگ کے بعد پہلے دن میں دل کے دوروں میں 24 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح، فن لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں فالج کے کیسز میں 8 فیصد اضافہ رپورٹ کیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی دماغ کے خوف کے مرکز کو متحرک کرتی ہے، جس سے معمولی مسائل بھی زیادہ دباؤ والے محسوس ہوتے ہیں۔

دنیا کے صرف ایک تہائی ممالک اب بھی ڈیلی لائٹ سیونگ پر عمل کر رہے ہیں۔ یورپ میں یورپی پارلیمنٹ نے اس کو ختم کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا، لیکن یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔

ماہرین نیند کو بہتر بنانے کے لیے سونے کے اوقات کو تدریجی طور پر ایڈجسٹ کرنے، صبح کے وقت سورج کی روشنی لینے اور کیفین کے استعمال کو کم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

برطانیہ میں ابھی تک حکومت نے اس پالیسی پر نظر ثانی کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا، جس سے یہ بحث فی الحال برقرار ہے کہ ڈیلی لائٹ سیونگ کا خاتمہ ہونا چاہیے یا نہیں۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک گھنٹہ

پڑھیں:

مستقبل کی بیماریوں کی پیشگی شناخت کے لیے نیا اے آئی ماڈل تیار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بین الاقوامی سائنسدانوں نے ایک ایسا جدید مصنوعی ذہانت (AI) ماڈل تیار کیا ہے جو مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کی بنیاد پر مستقبل میں لاحق ہونے والی بیماریوں کا برسوں پہلے اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس ماڈل کو **ڈلفی-2M** کا نام دیا گیا ہے، اور یہ ایک ہزار سے زائد امراض کے امکانات کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ تحقیق برطانیہ، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے مشترکہ طور پر مکمل کی اور اسے معروف سائنسی جریدے **نیچر** میں شائع کیا۔ ماہرین کے مطابق ڈلفی-2M کو برطانیہ کے **یوکے بایو بینک** کے وسیع بایومیڈیکل ڈیٹا پر تربیت دی گئی۔ یہ ماڈل نیورل نیٹ ورکس اور ٹرانسفارمر ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جو وہی نظام ہے جس پر چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جدید زبان سیکھنے والے چیٹ بوٹس کام کرتے ہیں۔

جرمنی کے کینسر ریسرچ سینٹر کے مصنوعی ذہانت کے ماہر مورٹز گرسٹنگ نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیماریوں کے ارتقائی عمل کو سمجھنا بالکل ایسے ہے جیسے کسی زبان کی گرائمر سیکھنا۔ ان کے مطابق ڈلفی-2M مریضوں کے ڈیٹا میں موجود پیٹرنز کو سیکھتا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کون سی بیماری کب اور کس دوسری بیماری کے ساتھ ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس طریقۂ کار سے ماڈل انتہائی درست اور بامعنی پیش گوئیاں کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ جدید ماڈل مستقبل میں طبی میدان میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے ڈاکٹرز اور ماہرین قبل از وقت بیماریوں کے خطرات کا اندازہ لگا کر بروقت علاج یا حفاظتی اقدامات کرسکیں گے۔ محققین کے نزدیک ڈلفی-2M دراصل صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کی وسعت اور صلاحیتوں کا ایک نمایاں مظاہرہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت کا عارضی بنیادوں پر طبی ماہرین بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • بےقاعدہ نیند سے جُڑے خطرناک مسائل
  • مستقبل کی بیماریوں کی پیشگی شناخت کے لیے نیا اے آئی ماڈل تیار
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے ممکنہ اثرات پر توجہ مرکوز ہے، بھارتی وزارت خارجہ
  • مشاورتی عمل جاری ہے میچ کا وقت ایک گھنٹہ آگے بڑھادیا، پی سی بی
  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع پر ڈیڈ لاک برقرار، پاکستان اور یو اے ای کے درمیان میچ ایک گھنٹہ ملتوی، مشاورت جاری
  • غفلت اور لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیورز ہوجہائیں خبردار
  • زائد پالیسی ریٹ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے،امان پراچہ
  • ایف آئی اے ٹیم کی اڈیالہ جیل آمد، بانی پی ٹی آئی سے ایک گھنٹہ پوچھ گچھ
  • پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی