زرعی اجناس بنانے اور بیچنے والی 392 کمپنیز پر پابندی کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
وفاق اور سندھ نے زرعی اجناس بنانے اور بیچنے والی 392 کمپنیز پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا۔
ذرائع کے مطابق زرعی اجناس بنانے اور بیچنے والی کمپنیز پر پابندی کا فیصلہ حکومت نے 2 ماہ کے سروے کے بعد دی گئی رپورٹ کے بعد کیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 392 کمپنیز جعلی زرعی بیج فروخت کرنے میں ملوث تھیں۔
حکومتی ترجمان کے مطابق وفاقی وزارت فوڈ سیکیورٹی نے صوبوں کے ساتھ زرعی سیکٹر پر اہم اجلاس کیا۔
اجلاس میں دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ چاولوں میں ایم آر ایل اشو آنے پر 12پیسٹی سائیڈ پراڈکٹس پر مکمل پابندی لگادی گئی، چاول کا بیج بنانے کی 1030 کمپنیاں موجود ہیں، جن میں جعلی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
حکومتی ترجمان کے مطابق ہائبرڈ بیج امپورٹ کرنے والی کمپنیز کو سیڈ کے تمام بیگز پر کیو آر کوڈ لگانے کا حکم دیا ہے، جس بھی چاول کے بیج کے بیگ پر کیو آر کوڈ نہیں ہوگا، وہ بیج جعلی تصور ہوگا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کیو آر کوڈ کے بغیر فروخت میں ملوث دکانداروں کے خلاف محکمہ زراعت اور ایف آئی اے کارروائی کریں گے۔
اجلاس میں ہدایت دی گئی کہ کاشتکار زرعی اجناس کا بیج خریدنے سے پہلے تصدیق ضرور کروائیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
لاہور:پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے صوبائی حکومت کی جانب سے کسانوں پر زرعی ٹیکس اسمبلی سے منظوری کے بغیر نافذ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسپیکر ملک محمد احمد خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ پنجاب کے کسان پر کتنا ٹیکس لگے گا یہ کسی دفتر میں بیٹھ کر خود سے طے نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس کا نفاذ صرف اور صرف پنجاب اسمبلی کے دائرہ اختیار میں ہے، کوئی بھی ٹیکس اسمبلی کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے زور دے کر کہا کہ قانون اور آئین کے تحت ٹیکس لگانے کا اختیار ایوان کے پاس ہے، اس سے انحراف برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اجلاس میں رکن اسمبلی ذوالفقار شاہ کی جانب سے اس معاملے پر تحریک استحقاق پیش کی گئی، اسپیکر نے تحریک استحقاق منظور کرتے ہوئے اسے پریولیج کمیٹی کے سپرد کر دیا، کمیٹی معاملے کی مزید چھان بین کر کے اپنی سفارشات ایوان میں پیش کرے گی۔
ایوان میں اس موقع پر پارلیمانی سیکریٹری خالد محمود رانجھا نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی تاہم اسپیکر نے واضح کیا کہ اس معاملے پر قانون سازی اور حتمی فیصلہ صرف اسمبلی کا حق ہے۔