زندگی میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم صرف زبان سے ادا کرتے ہیں، مگر ان کی اصل روح اور حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ انسان ہمیشہ سے ظاہری چیزوں سے متاثر ہوتا آیا ہے۔ جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو سب سے پہلے اس کا چہرہ، لباس، اندازِ گفتگو اور رویہ دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی میٹھی بات کرے، خوش اخلاق ہو، اور مذہبی نظر آئے تو ہم اسے نیک تصور کر لیتے ہیں، اور اگر کوئی بے تکلف ہو، جدید لباس پہنے یا دنیاوی باتیں کرے، تو ہم اسے عام دنیا دار سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا ظاہر ہمیشہ حقیقت کی درست عکاسی کرتا ہے؟
ہمارے ہاں دینداری کا جو تصور عام ہے، وہ زیادہ تر ظاہری عبادات سے جڑا ہوا ہے۔ اگر کوئی پانچ وقت کا نمازی ہو، نفلی عبادات کرے، رمضان میں اعتکاف بیٹھے، حج اور عمرے کرتا رہے، تو اسے "نیک" سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ اپنے ملازمین کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہو، رشوت دیتا یا لیتا ہو، یا دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہو۔
یہ سوچ اس وجہ سے عام ہوئی کہ ہمیں دین کی جو روایات سنائی جاتی ہیں، ان میں زیادہ تر بزرگانِ دین کی عبادات پر زور دیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ روزانہ ہزاروں نوافل پڑھتے تھے، مہینوں تک روزے رکھتے تھے، اور ساری رات عبادت میں گزارتے تھے۔ لیکن ان کے کردار، انصاف اور معاملات پر کم بات کی جاتی ہے۔ نتیجتاً، ہمارا ذہن بھی یہی سمجھتا ہے کہ "اصل دین" یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھے جائیں، اور دنیاوی معاملات جیسے رزقِ حلال کمانا، لوگوں کی مدد کرنا، اور عدل و انصاف کو قائم کرنا، ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
دین عبادات کا نام ضرور ہے، لیکن یہ صرف ظاہری اعمال تک محدود نہیں۔ نماز، روزہ، حج، عمرہ—یہ سب بہت اہم ہیں، مگر اگر ان کا اثر ہمارے کردار پر نہیں پڑتا، تو یہ صرف ایک رسم بن کر رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"بے شک اللہ انصاف اور نیکی کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کاموں اور ظلم سے روکتا ہے۔" (سورہ النحل: 90)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔" (بخاری)
اگر کوئی شخص عبادت تو کرے، مگر جھوٹ بولے، وعدہ خلافی کرے، یا دوسروں کو تکلیف پہنچائے، تو وہ دین کے اصل پیغام سے دور ہے۔
ہم نے کئی دینی اصطلاحات کو صرف ظاہری اعمال تک محدود کر دیا ہے، حالانکہ ان کی اصل روح کہیں زیادہ گہری ہے۔
شکر: صرف "الحمدللہ" کہہ دینے کا نام نہیں، بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا اور اس کا حق ادا کرنا اصل شکر ہے۔ اگر کوئی شخص دولت مند ہو لیکن وہی دولت دوسروں کا حق مار کر کمائی ہو، تو اس کا زبانی شکر کسی کام کا نہیں۔
ذکر: ہاتھ میں تسبیح گھمانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمارے عمل بھی اللہ کی یاد کے مطابق ہوں۔ نماز کے بعد چند تسبیحات پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اللہ کی نافرمانی سے بچیں۔ اگر کوئی شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے مگر کاروبار میں بے ایمانی، جھوٹ یا سود سے نہیں بچتا، تو وہ اصل ذکر کی روح سے محروم ہے۔
صبر: صرف مشکلات میں خاموش رہنے کا نام نہیں، بلکہ آزمائش کے وقت ہمت نہ ہارنے اور گناہ کے موقع پر اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" (سورہ البقرہ: 153)
توکل: یہ نہیں کہ انسان بس اللہ پر بھروسا کر کے بیٹھ جائے، بلکہ سچی توکل یہ ہے کہ انسان اپنے حصے کا کام بھی کرے اور پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "پہلے اونٹ باندھو، پھر اللہ پر بھروسا کرو۔" (ترمذی)
توبہ: صرف استغفار کے الفاظ پڑھنا کافی نہیں، بلکہ گناہ چھوڑنے اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرنے کا نام توبہ ہے۔ قرآن میں ہے:
"بے شک اللہ انہیں پسند کرتا ہے جو گناہ کے بعد توبہ کرتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں۔" (سورہ البقرہ: 222)
ہم نے تقویٰ کو بھی ایک خاص ظاہری شکل دے دی ہے۔ لمبی داڑھی، اسلامی لباس، پیشانی پر سجدے کا نشان—یہ سب اچھی چیزیں ہیں، مگر تقویٰ کی اصل روح اللہ کا خوف اور ہر معاملے میں انصاف پسندی ہے۔
اگر ایک شخص ظاہری طور پر بہت مذہبی نظر آئے، مگر اس کا رویہ دوسروں کے ساتھ ظالمانہ ہو، تو کیا وہ واقعی متقی ہے؟
یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہم نے شیطان کو صرف چند مخصوص چیزوں میں محدود کر دیا ہے۔ ہمارے نزدیک شیطانی کام صرف فلمیں دیکھنا یا موسیقی سننا ہے۔ مگر کوئی دھوکہ دے، جھوٹ بولے، رشوت لے، ظلم کرے، حقوق غصب کرے—یہ سب بھی شیطانی اعمال ہیں، مگر ہم ان کو عام سمجھتے ہیں!
اصل میں شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار انسان کے کردار کو خراب کرنا ہے، نہ کہ صرف کچھ خاص چیزوں سے بہکانا۔ اگر کوئی ظاہری طور پر نیک نظر آ رہا ہو، مگر اس کے اعمال میں دھوکہ دہی اور ظلم ہو، تو وہ بھی شیطان کے بہکاوے میں ہے، چاہے وہ کتنا ہی مذہبی نظر آئے۔
ہمیں سب سے پہلے الفاظ کے اصل معانی کو سمجھنا ہوگا۔ عبادات صرف رسم نہیں، بلکہ کردار سنوارنے کا ذریعہ ہیں۔ ذکر صرف زبان کا وظیفہ نہیں، بلکہ اللہ کی یاد میں جینا ہے۔ شکر صرف "الحمدللہ" کہنا نہیں، بلکہ اللہ کی نعمتوں کا صحیح استعمال ہے۔ اخلاق صرف اچھی بات چیت نہیں، بلکہ دیانت داری اور سچائی ہے۔ تقویٰ صرف داڑھی یا لباس نہیں، بلکہ ہر حال میں انصاف کرنا ہے۔
جب تک ہم دین کو اس کے اصل مفہوم میں نہیں سمجھیں گے، ہمارا مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ ہمیں اپنے ذہنوں کو وسیع کرنا ہوگا اور ظاہری دینداری سے آگے بڑھ کر اصل روح کو اپنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک بہتر اور حقیقی اسلامی معاشرہ بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اگر کوئی کے ساتھ اللہ کی کا نام
پڑھیں:
دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے، اسکی بلیک میلنگ و جارحیت میں کسی بھی قسم کی کمی نہ ہوگی بلکہ اس امر کے باعث دشمن مزید طلبگار ہو گا اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے ساتھ وابستہ اتحاد "الوفاء للمقاومۃ" کے سربراہ محمد رعد نے اعلان کیا ہے کہ گو کہ ہم اسلامی مزاحمت میں، اِس وقت مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور دشمن کی ایذا رسانی و خلاف ورزیوں کے سامنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین پر پائیدار ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے موقف و انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ اپنے اور اپنے وطن کے وقار کا دفاع کر سکیں۔ عرب ای مجلے العہد کے مطابق محمد رعد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک لبنان کی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں اور خون تک کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور مزاحمت کے انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ دشمن؛ ہم سے ہتھیار ڈلوانے یا ہمیں اپنے معاندانہ منصوبے کے سامنے جھکانے کو آسان نہ سمجھے۔
سربراہ الوفاء للمقاومہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب بھی لبنان کے اندر سے کچھ ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو قابض دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور لبنان کی خودمختاری سے ہاتھ اٹھا لینے پر اُکسا رہی ہیں درحالیکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں گے! انہوں نے کہا کہ ان افراد نے انتہائی بے شرمی اور ذلت کے ساتھ ملک کو غیروں کی سرپرستی میں دے دیا ہے جبکہ یہ لوگ، خودمختاری کے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں۔
محمد رعد نے تاکید کی کہ انتخاباتی قوانین کے خلاف حملوں کا مقصد مزاحمت اور اس کے حامیوں کی نمائندگی کو کمزور بنانا ہے تاکہ ملک پر قبضہ کرنا مزید آسان بنایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود، اسلامی مزاحمت اب بھی جنگ بندی پر پوری طرح سے کاربند ہے تاہم دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا، "لبنان پر حملے" کے بہانے کے لئے تشہیری مہم کا سبب ہے اور یہ اقدام، دشمن کی بلیک میلنگ اور جارحیت کو کسی صورت روک نہیں سکتا بلکہ یہ الٹا، اس کی مزید حوصلہ افزائی ہی کرے گا کہ وہ مزید آگے بڑھے اور بالآخر پورے وطن کو ہی ہم سے چھین لے جائے۔ محمد رعد نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے وہ کم از کم کام کہ جو ہمیں انجام دیا جانا چاہیئے؛ اس دشمن کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت اور اپنے حق خود مختاری کی پاسداری ہے!!