حکومت کی طرف سے عوام کوعیدکا تحفہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی حالات کے مطابق ردوبدل عمومی طور پرہمارے یہاں ہر ماہ میں دوبار یعنی یکم اورپندرہ تاریخ کو کیاجاتاہے لیکن اس بار 28مارچ کی شام کو ہی پٹرول کی قیمت میں ایک روپے کا خطیر ریلیف دے کر عوام کی عید کی خوشیوں کودوبالا کردیا ۔
گزشتہ پندرواڑے کو یعنی پہلی مارچ کو جب دنیا میں پٹرول کی قیمتیں کم اورسستی ہوگئی تھیں تو اس نے یہ ریلیف عوام کو منتقل کرنے کے بجائے اپنے خزانے میں منتقل کردیا تھا۔ جو دس روپے کا ریلیف عوام کو ملناچاہیے تھا وہ لیوی کی مد میں اضافہ کرکے اپنی جھولی میں ڈال دیا۔یہ لیوی جو پہلے ہی بہت زیادہ تھی یعنی 60 روپے فی لٹر اسے 70روپے فی لٹر کردیا۔ویسے تو جب جب عوام کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے تو ہماری حکومت IMF کی ہدایتوں کا بہانہ بنا کراسے عوام تک پہنچانے سے معذرت کردیتی ہے۔256 روپے فی لٹر پٹرول کی قیمت میں سے ایک روپیہ کم سے بہتر تھا کہ وہ یہ ریلیف خود ہی رکھ لیتی اورعوام کو منتقل نہ کرتی۔
اس طرح اسے کم ازکم پارلیمنٹرین کی تنخواہوں میں غیر ضروری اضافے کے بوجھ میںکچھ کمی مل جاتی۔عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کے لیے IMF کی کڑی شرطیں یاد آجاتی ہیں اورجب اپنا مفاد ہوتو تمام شرائط نظر انداز کرکے ایک طرف رکھدی جاتی ہیں۔کہنے کو ہماری حکومت ہرروز یہ دعویٰ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اس ایک سال میں مہنگائی کی شرح میں بہت کمی واقع ہوئی ہے ۔جو شرح ایک سال پہلے تک تیس بتیس فیصد تھی وہ کم ہوکرپانچ یا ساڑھے پانچ فیصد ہوچکی ہے۔حالانکہ اس کمی کا فائدہ عوام کو ابھی تک محسوس نہیں ہوا ہے۔جو مہنگائی اسی حکومت یعنی PDM کی سولہ ماہ کی حکومت نے کی تھی وہی اگر کم ہوجاتی تو شاید عوام خوش ہوجاتے ۔
مہنگائی کی شرح نمود میں کمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمارے یہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس شرح نمود میں کمی کا مطلب مہنگائی بڑھنے کی شرح میں پہلے نسبت کچھ کمی ہوئی ۔یعنی مہنگائی تو ہنوز جاری ہے۔جو خوردنی تیل پہلے 550 روپے فی لٹر مل رہا تھا وہ اب بھی اسی قیمت بلکہ کچھ مہنگاہی مل رہا ہے۔
اسی طرح چینی کی قیمت کو لے لیجیے جوایکسپورٹ کی اجازت سے پہلے 130روپے فی کلو ہرجگہ دستیاب تھی چھ ماہ میں وہ 170 روپے فی کلوتک جاپہنچی۔وزیراعظم ایکسپورٹ کی اجازت دینے سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر ایکسپورٹ کرنے سے یہ مہنگی ہوگی تو ہم برآمد کرنے کی یہ اجازت واپس لے لیں گے۔مگر اب اسی قیمت کو سرکاری قیمت کے طور پرعوام پرلاگو کردیاگیا ہے۔یعنی عوام کو صرف زبانی وکلامی دلاسے اور لارے لپے دیکر کام چلالیاگیا ہے۔ چینی کے کارخانے داروں کو بھی فائدہ پہنچادیاگیا اوراضافی چینی ایکسپورٹ بھی کردی گئی ۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ چینی مافیا میں کون کون سے لوگ شامل ہیں۔چینی کے کارخانے دار ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں نقصان کا احتمال بہت ہی کم ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں بہت سے لوگ اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔جب جب ان کے منافع میں کمی ہونے لگتی ہے یہ چینی کابحران پیداکرکے اس کی قیمت میں من مانا اضافہ کروالیتے ہیں۔ پہلے اضافی چینی کا بہانہ بناکراور اسے ایکسپورٹ کرکے اور پہلے مصنوعی قلت پیداکرکے اسے امپورٹ بھی کرواکے اورپھرعالمی ریٹس پراس کی قیمت بڑھواکراپنا منافع دگنا کرلیتے ہیں۔
اس طرح چٹ بھی میری اورپٹ بھی میری کی مصداق یہ کبھی بھی خسارے میں نہیں رہتے۔یہ سلسلہ کوئی آج کا نہیں ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پرویز مشرف دور میں بھی اوران کے بعد کے ادوارمیں بھی یہی کچھ ہوتا آیاہے۔انھیں معلوم ہے کہ یہ گیم کس طرح کھیلی جانی ہے اورکس طرح حکومت سے اپنے مطالبے منوالینے ہیں۔ہم اگر کارخانے داروں کے مالکان کاجائزہ لیں تو پتاچل جائے گا کہ ان کے اکثریت کن سیاستدانوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حالات کیسے بھی ہوں انھیں نقصان ہرگز نہیں پہنچتا۔
ہمار ی مہربان اس حکومت نے چینی اورپٹرول کی طرح اب بجلی کے نرخ بھی کم کرنے کا دعویٰ کیا ہواہے اورشاید عید بعد کوئی پیکیج بھی سامنے آنے والاہے۔مگر ہمیں اس پیکیج سے بھی کوئی آس واُمید نہیں ہے۔
یہ پیکیج بھی پہلے پیکیجز کی طرح عوام کی آنکھوں میں دھول تو ضرور پھونکے گا مگر براہ راست کوئی ریلیف نہیں پہنچائے گا، بس صرف حکومت کی کارکردگی میں اضافے کے طور پرشمار اوراس کی تشہیری مہم کا ذریعہ ضرور بنے گا۔گزشتہ دسمبرمیں بھی حکومت نے ایک ایسا ہی پیکیج دیاتھا جس کا فائدہ نجانے کس مخلوق کو پہنچا، غریبوں کو تو بجلی اسی نرخ پرملتی رہی جو پہلے مل رہی تھی۔ہاں صرف کاغذوں اورحکومتی اعدادوشمار میں اس کااندراج ضرور ہوگیا ہے۔
موجودہ وزیراعظم اس حقیقت سے انکار ہرگز نہیں کرسکتے ہیں کہ اُن کے سابقہ 16 ماہ کے دور اقتدارمیں جو مہنگائی ہوئی تھی ، اس کا خمیازہ مسلم لیگ نون کو فروری 2024 کے الیکشنوں میں بھگتنابھی پڑا تھا۔ ملک کا معاشی بحران ابھی مکمل طور پرٹلا نہیں ہے، صرف مؤخرہواہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بھی مصنوعی ہے، اِن ذخائر میں سے آٹھ نو ارب ڈالرز جو قرض خواہوں کو واپس کردیے جائیں تو ہمیں زمین بوس ہو جانے میںلمحہ بھرکی دیر نہیں لگے گی۔
شاندار کارکردگی کا سارا بھرم کھل کرعیاں ہوجائے گا۔ دوست ممالک کی مہربانیوں کی وجہ سے معاشی طور پرکچھ دیر کے لیے ہمیں سانس لینے کاموقعہ ملا ہے ورنہ تو ہم وینٹی لیٹر پر پہنچ چکے تھے۔آج اگر یہ سرپرستی واپس لے لی جائے تو لگ پتاجائے گا کہ کارکردگی کیاہوتی ہے۔ایک طرف 26ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے اس خطرے سے نجات ملی جو اگر مسلط ہوجاتا توشاید یہ حکومت ہی نہ رہتی۔ دوسری جانب وفاقی وزیرخزانہ اورآرمی چیف کی مدد نے IMFسے ملنے والے قرض کو ممکن بنایا ۔
حکومت کومعلوم ہوناچاہیے کہ اس کا مینڈیٹ ابھی خطرات سے باہر نہیں نکلا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی جب چاہے اپنا کام کرسکتی ہے ، وہ اگر فی الحال حمایت پرمجبور ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی بڑا ہاتھ کارفرماہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس اقتدار کو نعمت غیرمترقبہ جان کرملک کی ترقی دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف پہنچانے کے جتن کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روپے فی لٹر عوام کو کی قیمت نہیں ہے
پڑھیں:
نیلا سیارہ سمندر کے ذریعے مختلف جزیروں میں تقسیم نہیں ہے، چینی نائب صدر
نیلا سیارہ سمندر کے ذریعے مختلف جزیروں میں تقسیم نہیں ہے، چینی نائب صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 10 June, 2025 سب نیوز
پیرس : چین کے نائب صدر ہان جنگ نے فرانس میں منعقدہ اقوام متحدہ کی تیسری اوشین کانفرنس میں شرکت کی اور عام مباحثے سے خطاب کیا۔ منگل کے روز ہان جنگ نے کہا کہ سمندر سمیت مختلف شعبوں میں پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے مختلف فریقوں کو مشترکہ طور پر اس ذمہ داری کو سنبھالنا ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ یہ نیلا سیارہ جہاں ہم بنی نوع انسان رہتے ہیں سمندر کے ذریعے مختلف جزیروں میں تقسیم نہیں ہے ، بلکہ سمندر کے ذریعے ایک ہم نصیب معاشرے میں جڑا ہوا ہے۔ہمیں اقوام متحدہ کی موجودہ اوشین کانفرنس کے موقع سے فائدہ اٹھا کر وسائل کی حفاظت اور پائیدار استعمال کو ہم آہنگ کرنا ہے، سمندر کی پائیدار ترقی کو آگے بڑھانا ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی مشترکہ تعمیر کو فروغ دینا ہے۔سب سے پہلے،ایک پرامن اور محفوظ سمندر بنانے کی ضرورت ہے.
دوسرا یہ کہ سب کے لئے خوشحالی کا سمندر مشترکہ طور پر تعمیر کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ تہذیبوں کے انضمام کا سمندر تعمیر کیا جائے۔ چوتھا، ہمیں ایک صاف اور خوبصورت سمندر بنانے کی ضرورت ہے.کانفرنس میں شرکت کے دوران ہان جنگ نےفرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے الگ الگ ملاقات کی۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون سے ملاقات کے موقع پر ہان جنگ نے کہا کہ چین اسٹریٹجک خود مختاری پر قائم رہنے میں فرانس کی حمایت کرتا ہے اور فرانس کے ساتھ مل کر دو طرفہ اسٹریٹجک مشاورت کرنا چاہتا ہے اور یورپی فریق کے ساتھ مل کر تعاون کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمران خان اور بشری بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر پاکستان بزنس فورم کا اگلے مالی سال میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ چین کے غیرملکی تجارتی حجم میں سال بہ سال 2.5 فیصد کا اضافہ چین اور برطانیہ کو اقتصادی ڈائیلاگ کے نتائج کو مزید گہرا کرنےکی کوشش کرنی چاہیئے، چینی نائب وزیر اعظم قومی اقتصادی سروے آج پیش کیا جائے گا، حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل میں ناکام چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے، چینی میڈیا کمزوری کا ڈرامہ اور رونے کی اداکاری”: بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کی بلیک میلنگ کی حکمت عملی ۔ سی ایم جی کا تبصرہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم