تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا جرم پر اکسانے کے لئے پروپیگنڈا سماجی و سیاسی پیغام رسانی تک پھیل گیا ہے۔تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک کمزور اتحاد کے بعد 2024ء تک 42 دھڑوں کے ساتھ ایک مرکزی فورس میں تبدیل ہوگئی۔ٹی ٹی پی نے 2017 سے نور ولی محسود کی قیادت میں سخت ضابطہ اخلاق کے ساتھ وزارتوں، صوبوں میں ایک شیڈو حکومت کی شکل اختیار کر لی۔گروپ کا مالیاتی نظام انتہائی منظم ہے، بھتہ خوری (پانچ سے بیس فیصد آمدنی کا حصہ)، اسمگلنگ، اور اغوا پر انحصار کرتا ہے۔ جرم پر اکسانے کے لئے پروپیگنڈا سماجی و سیاسی پیغام رسانی تک پھیل گیا ہے.

جس میں میگزین، پوڈ کاسٹ، اور ویڈیو سیریز شامل ہیں۔2021 میں افغان طالبان کے قبضے نے ٹی ٹی پی کو مضبوط کیا، جو اب افغانستان سے کام کرتی ہے .لیکن پاکستان میں سرحد پار حملوں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔امن مذاکرات (2021-2022) فاٹا کے انضمام کو منسوخ کرنے اور ڈیورنڈ لائن کو مسترد کرنے کے مطالبات پر ناکام رہے. جس کے نتیجے میں تشدد میں اضافہ ہوا۔ٹی ٹی پی علیحدگی پسند بیان بازی سے گریز کرتی ہے لیکن خود کو ایک متبادل گورننس ماڈل کے طور پر پیش کرتی ہے، جو پشتون شکایات اور ریاست مخالف بیانیے سے ہم آہنگ ہے۔فوجی کریک ڈاؤن کے باوجود، ٹی ٹی پی سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور کمزور سرحدی کنٹرول کا فائدہ اٹھا کر پروان چڑھ رہی ہے.ٹی ٹی پی کے بکھرے ہوئے دھڑے نور ولی محسود کی قیادت میں ایک ہوگئے اور طالبان جیسے حکومتی ڈھانچے میں تبدیل ہو کر آپریشنل کارکردگی کو یقینی بنایا۔ایک باضابطہ مالیاتی نظام گروپ کو غیر قانونی آمدنی کے ذریعے برقرار رکھتا ہے، جس میں اندرونی استحصال کو روکنے کے لئے سخت شرعی قوانین موجود ہیں۔ٹی ٹی پی نے میڈیا حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے خود کو عسکریت پسندی سے سیاسی وابستگی کی طرف منتقل کیا اور انہوں نے خود کو پاکستان کی حکومت کے قابل عمل متبادل کے طور پر پیش کیا۔2021 کے بعد ٹی ٹی پی نے کابل کے مفادات کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ سے گریز کرتے ہوئے افغانستان کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے افغان طالبان کی حمایت کا فائدہ اٹھایا۔پاکستان کی امن معاہدوں کی کوششیں ٹی ٹی پی کے ناقابل مصلحت مطالبات کی وجہ سے ناکام ہو گئیں، جس نے ٹی ٹی پی کو شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا۔یہ گروہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے نسلی، سیاسی اور اقتصادی عدم اطمینان کا فائدہ اٹھاتا ہے،اگر بنیادی وجوہات کا حل نہ نکالا گیا تو ٹی ٹی پی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو غیر مستحکم کرنا جاری رکھے گی۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ٹی ٹی پی

پڑھیں:

جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان

جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان taliban WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہے لیکن پاکستانی فوج تعلقات کو بہتر بنانے کی ان کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔پاکستانی فوج نے طالبان حکومت کے ترجمان کے اس الزام پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔

ایک نجی پاکستانی ٹیلی ویژن چینل خیبر نیوز کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں مجاہد نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں دو طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے قطر اور ترکی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کے دوران پاکستانی وزیر دفاع کے سخت بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے دوران ایسا کرنے سے مذاکرات میں کسی اور کو فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن جب کوئی افغانوں سے بات کرنے بیٹھتا ہے اور پھر پیچھے سے دھمکی دیتا ہے تو اس سے مذاکرات کے ماحول پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان کے گذشتہ سال کے اواخر میں دورہ کابل کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے دعوی کیا کہ پاکستانی فوجیوں نے پکتیکا پر اس وقت فضائی حملہ کیا جب صادق خان کابل میں طالبان حکومت کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات میں مصروف تھے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا کہ: جس رات صادق خان کابل میں مہمان تھے پکتیکا پر حملہ ہوا، فضائی حملے کیے گئے۔ پاکستان کی طرف دو نظریات ہیں: سویلین حکومت کچھ کرتی ہے، تعلقات بنانا چاہتی ہے، فوج آ کر اسے دوبارہ خراب کرنا چاہتی ہے اور اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح ہمارے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔

طالبان حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ انھیں پاکستان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن انھوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں شک ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت اور خاص طور پر فوج پر ہمیں شک ہے کیونکہ وہ جنگ کسی اور کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے کسی مخصوص ملک کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا کہ شاید یہ کسی اور کی طرف سے کہا جا رہا ہو، شاید وہ اس جنگ کے ذریعے کسی کے قریب جانا چاہتے ہیں۔ مجاہد نے الزام عائد کیا کہ ان کی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج میں ماحول کو خراب کرنے کا کام جاری ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق شاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق استنبول مذاکرات بارے حقائق کو ترجمان افغان طالبان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا: پاکستان افغان مہاجرین کی وطن واپسی: صرف ایک دن میں 10 ہزار افراد افغانستان روانہ شہباز شریف کی جاتی امرا آمد، سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات،سیاسی صورتحال پر مشاورت تیسرا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا جنوبی افریقا کیخلاف ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ اسلام آباد میں ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس کیلیے نئے ایس او پیز جاری TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  • پاکستان دشمنی میں مبتلا بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹ بے نقاب، وزارتِ اطلاعات نے “انڈیا ٹوڈے” کا گمراہ کن پروپیگنڈا بےنقاب کر دیا
  • طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف لکھ کر مان لیا گیا ہے، طلال چوہدری
  • افغانستان کے موجودہ نظام میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ موجود ہیں، وزیرِ دفاع
  • افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے،پاکستان
  • پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی برقرار رکھنے پر متفق