اسلام ٹائمز: دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے باوجود، ٹی ٹی پی ابھی بھی ایک مضبوط اور مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، جو سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور کمزور سرحدی کنٹرول کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بنیادی وجوہات جیسے حکومتی ناکامیاں، حل طلب سرحدی مسائل اور سیاسی بیگانگی کو حل نہ کیا گیا تو یہ بغاوت مزید بڑھے گی، جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دے گی۔ خصوصی رپورٹ: 

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد، کالعدم ٹی ٹی پی سمیت متعدد تکفیری اور نسلی علیحدگی پسند پاکستان مخالف نے اپنی کارروائیوں اور تنظیمی ساخت میں اہم تبدیلیاں کرنے کی وجہ سے سنگین سیکیورٹی چیلنج بن گئے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو اس قدر مضبوط کیا گیا ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ 2024 تک ایک انتہائی منظم اور مرکزی کمان کے تحت کام کرنے والی جنگجو تنظیموں کا اتحاد بن چکا ہے، جس میں 42 مختلف گروپوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کی قیادت 2017 سے نور ولی محسود کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے اسے طالبان کے طرز پر ایک گورننس ماڈل میں تبدیل کر دیا ہے، جس میں وزارتیں، انتظامی صوبے (ولایات) اور ایک سخت ضابطہ اخلاق شامل ہیں تاکہ داخلی معاملات کو منظم کیا جا سکے۔

غیر قانونی فنڈنگ
خفیہ رپورٹس کے مطابق، ٹی ٹی پی کا مالی نظام بہت منظم ہے، جو غیر قانونی ذرائع جیسے بھتہ خوری (جو کہ کل آمدنی کا 5-20 فیصد تک ہو سکتا ہے)، اسمگلنگ اور اغوا سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے اندرونی مالی بدعنوانی کو روکنے کے لیے سخت ضابطہ نافذ کیا ہے، جس سے اس کے مالی وسائل مسلسل فراہم ہوتے رہتے ہیں۔

پروپیگنڈا
دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے پروپیگنڈہ کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے، جس میں اب محض جنگجوؤں کو ہیرو بنانے کی بجائے سماجی و سیاسی پیغامات کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ گروپ اب رسالوں، پوڈکاسٹ اور ویڈیو مواد تیار کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ عوامی شکایات کا فائدہ اٹھا کر خود کو پاکستانی حکومت کا متبادل ظاہر کرتا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد ٹی ٹی پی کے اثر و رسوخ اور بھرتی کی کوششوں کو بڑھانا ہے۔

افغان طالبان کی پشت پناہی
افغانستان میں طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد، انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، ٹی ٹی پی نے افغان علاقے کو اپنا آپریشنل بیس بناتے ہوئے پاکستان پر حملوں کو بڑھا دیا ہے۔ سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹی ٹی پی کابل حکومت کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچتی ہے، تاہم افغانستان میں اس کی موجودگی خطے کی سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

تشدد میں اضافہ
انسداد دہشت گردی کے حکام کا کہنا ہے کہ 2021-2022 کے دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات میں ناکامی کی بڑی وجہ گروپ کا ایف اے ٹی اے کی ضم ہونے کی مخالفت اور درانداز لائن (ڈیورنڈ لائن) کو مسترد کرنا تھا۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ناکامی کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

نسلی تقسیم سے سو استفادہ
خفیہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پشتونوں کی شکایات، فوج کے خلاف بیانیہ اور سرحدی علاقوں میں معاشی مسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہے تاکہ مقامی حمایت حاصل کی جا سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹی ٹی پی علیحدگی پسند بیانیہ اختیار کرنے سے گریز کرتی ہے اور خود کو ایک متبادل حکومتی ماڈل کے طور پر پیش کرتی ہے۔

سیکیورٹی چیلنج
دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے باوجود، ٹی ٹی پی ابھی بھی ایک مضبوط اور مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، جو سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور کمزور سرحدی کنٹرول کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بنیادی وجوہات جیسے حکومتی ناکامیاں، حل طلب سرحدی مسائل اور سیاسی بیگانگی کو حل نہ کیا گیا تو یہ بغاوت مزید بڑھے گی، جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دے گی۔

ٹی ٹی پی کا مزید منظم اور سیاسی طور پر حکمت عملی اختیار کرنا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ اس کی مالی اور سیاسی استحکام، افغان طالبان سے تعلقات اور سرحدی سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حکام کا کہنا ہے کہ تجزیہ کاروں اور سیاسی ٹی ٹی پی کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد:(نیوز ڈیسک)
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں۔

سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی ،بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔

ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہد ہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آباد ی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے وہاں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لے کرجاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔

گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔

غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کامعاملہ ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے بڑے پیمانے پر منشیات وادی تیراہ اسمگل ہونے کا انکشاف
  • افغانستان سے دراندازی ناکام، سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 3 خوارج ہلاک، افغان بارڈر فورس کا اہلکار بھی شامل
  • افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام، افغان سرحدی فورس کے اہلکار سمیت تین خوارج ہلاک
  • طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا،  ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • افغانستان سے حملہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی ذمے داری کابل پر ہے،عطا تارڑ
  • سرحد پار دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • پاکستان سرحد پار دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • پاکستان نے افغان ترجمان کا گمراہ کن بیان مسترد کردیا، وزارت اطلاعات
  • طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں