یورک ایسڈ میں کمی لانے والی مفید غذائیں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
یورک ایسڈ ایک فضلہ پیداوار ہے جو جسم میں پیورائنز کو توڑنے کے دوران بنتا ہے، جو کہ سرخ گوشت، سمندری غذا اور الکوحل میں پایا جاتا ہے۔ عام طور پر، گردے یورک ایسڈ کو فلٹر کرکے پیشاب کے ذریعے خارج کر دیتے ہیں۔
تاہم، جب جسم زیادہ یورک ایسڈ پیدا کرتا ہے یا گردے اسے صحیح طریقے سے خارج نہیں کر پاتے، تو یورک ایسڈ کی سطح بڑھ جاتی ہے جس سے جوڑوں کا درد، گردے کی پتھری، گردوں کا نقصان، سوزش، جوڑوں کی اکڑن، ذیابیطس، موٹاپا اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صحت مند طرز زندگی اختیار کرنا اور صحیح غذائیں کھانا قدرتی طور پر یورک ایسڈ کو کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ کے مطابق، وٹامن سی یورک ایسڈ کی سطح کو کم کر سکتا ہے۔
مزید یہ کہ جوڑوں کے مریضوں کو اپنی غذا میں سنترے اور دیگر وٹامن سی سے بھرپور غذائیں (جیسے اسٹرابیری اور مرچ) شامل کرنے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ کچھ شواہد یہ تجویز کرتے ہیں کہ چیریاں گاؤٹ کے حملوں کو کم کرتی ہیں اور درد میں بہتری لا سکتی ہیں۔ یہاں ہم نے کچھ غذاؤں کی فہرست دی ہے جو قدرتی طور پر اس عمل میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
چیری
چیری اینتھوسیانن سے بھرپور ہوتی ہیں، جو یورک ایسڈ کی پیداوار کو روک کر جسم کو اضافی یورک ایسڈ کو نکالنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ مرکبات جوڑوں میں سوزش کو کم کرتے ہیں، درد اور سوجن کو روکتے ہیں۔ چیریاں ایک قدرتی ڈائیورٹک کا کام بھی کرتی ہیں، جو گردوں کے یورک ایسڈ کو مؤثر طریقے سے فلٹر اور خارج کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ چیری میں موجود وٹامن سی یورک ایسڈ کو توڑنے اور اسے جسم سے نکالنے میں مدد دیتی ہیں۔
سنترے اور دیگر ترش پھل
ترش پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں، جو گردوں کی فعالیت کو بہتر بنا کر یورک ایسڈ کی سطح کو کم کرتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جوڑوں میں یورک ایسڈ کے کرسٹل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں، جس سے جوڑوں کے درد کو روکا جا سکتا ہے۔
بہترین ترش پھل سنترہ، لیموں اور سویٹ لائم ہیں۔ لیموں جسم کو الکلائن بنانے میں بہت مؤثر ہوتے ہیں، جبکہ سنترہ وٹامن سی سے بھرپور اور ہائیڈریٹنگ ہوتا ہے۔ سویٹ لائم ہاضمے کو بہتر کرتا ہے اور یورک ایسڈ کو کم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، ترش پھل قدرتی سٹریٹس پر مشتمل ہوتے ہیں جو گردوں میں یورک ایسڈ کے جمع ہونے کو روکتے ہیں۔ یہ اضافی یورک ایسڈ کو پیشاب کے ذریعے خارج کرنے میں مدد کرتے ہیں، جس سے گردے کی پتھری کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ہائیڈریٹنگ سبزیاں
ہائیڈریٹنگ سبزیاں جیسے کھیرا پانی کی زیادہ مقدار اور ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے جو اضافی یورک ایسڈ کو خارج کرنے میں مؤثر ہوتا ہے۔ سبزیاں جیسے ٹماٹر یورک ایسڈ کے جمع ہونے کو روکنے میں مدد دیتا ہے، جس سے جوڑوں کے درد اور گردے کی پتھری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہائیڈریٹنگ سبزیاں جسم کو الکلائن بنانے میں مدد دیتی ہیں، اور یورک ایسڈ کو مزید نیوٹرلائز کرتی ہیں۔ ان سبزیوں میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹس سوزش کو کم کرتے اور یورک ایسڈ کے کرسٹل کی تشکیل کو روکتے ہیں۔ ٹماٹر اور شملہ مرچ میں پایا جانے والا وٹامن سی قدرتی طور پر یورک ایسڈ کی سطح کو کم کرتا ہے۔ شملہ مرچ جیسی غذائیں، جن میں فائبر کافی مقدار میں پایا جاتا ہے، خون میں شوگر جذب ہونے کے عمل کو سست کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ شملہ مرچ میں پایا جانے والا وٹامن سی ذیابیطس کے شکار افراد میں بلڈ شوگر لیول کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں مدد دیتی ہیں یورک ایسڈ کی سطح یورک ایسڈ کے یورک ایسڈ کو سے بھرپور میں پایا وٹامن سی کو کم کر سکتا ہے ترش پھل ہوتا ہے جاتا ہے کرتا ہے
پڑھیں:
بارش اور کرپٹ سسٹم
بارش برس گئی، ہر طرف پانی ہی پانی تھا مگرکراچی شہر میں پانی کی نایابی برقرار رہی۔ کراچی کے میئر مرتضی وہاب نے جب سے یہ عہدہ سنبھالا ہے، وہ دن رات کام کر رہے ہیں۔ میئر نے کوشش کی کہ کراچی میں پانی کی فراہمی برقرار رہے۔
کراچی کے لیے پانی کی سپلائی کا ایک بڑا ذریعہ حب ڈیم ہے۔ حب ڈیم میں بلوچستان کے پہاڑوں اورکاریز سے بہہ کر آنے والا پانی جمع ہوتا ہے، حب ڈیم کی تعمیرکو عرصہ ہوگیا۔ حب ڈیم سے ایک کینال کے ذریعے کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ کینال طویل عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔
اس کی مرمت کی فوری ضرور ت تھی، یوں کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے 12 ارب روپے کی گرانٹ سے حب ڈیم سے آنے والی کینال کی مرمت کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ منصوبہ کئی برس التواء کا شکار ہوا۔ بہرحال اس سال 13 اگست کا دن آگیا، جب مرتضیٰ وہاب نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو حب ڈیم کینال کے افتتاح کے لیے مدعو کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پرجوش تقریر میں اس کینال کو اپنی حکومت کا بڑا کارنامہ قرار دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ صرف پیپلزپارٹی کی حکومت ہی کراچی کے عوام کی خیرخواہ ہے۔
جن صحافیوں نے حب ڈیم کی اس کینال کا دورہ کیا، ان کا اندازہ تھا کہ کام ناقص ہوا تھا۔ میئر صاحب نے حزب اختلاف کے شور غوغا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کام اور صرف کام پریقین رکھتے ہیں۔ مخالفین صرف تنقید کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ اگرچہ کراچی میں بارش ہوئی اور بارش کی مقدار اوسطاِ 40 ملی میٹر کے قریب تھی اور مسلسل بارش کی بناء پر برساتی نالوں میں طغیانی آگئی۔ یہ نہرنادرن بائی پاس سے گزرتی ہے اس بناء پر ناردرن بائی پاس کے قریب کینال کا ایک حصہ سیلابی پانی اپنے ساتھ لے گیا جس سے دونوں کناروں کو نقصان ہوا۔
واٹر کارپوریشن کے ترجمان نے اس نقصان کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا کہ حب ڈیم سے آنے والی کینال کے اوپر سوئی گیس کی پائپ لائن گزر رہی ہے۔ سیلابی پانی سے گیس پائپ لائن زمین میں دھنس گئی جس سے اس کینال کا صرف 20 میٹرکا حصہ متاثر ہوا ہے۔
اس توقع ظاہر کی تھی کہ اگلے 36 گھنٹوں میں کینال کی مرمت کا کام مکمل ہوجائے گا۔ اس ہنگامی صورتحال کی بناء پر ضلع غربی، ضلع کیماڑی اور وسطی کے مکین پینے کے پانی سے محروم ہوگئے۔
کراچی کا قدیم علاقہ لیاقت آباد جس کا اصل نام لالو کھیت ہے وہ تین ہٹی اور جہانگیر روڈ کے ذریعے گرومندر سے منسلک ہوتا ہے اور پھر یہ سڑک ایم اے جناح روڈ سے مل جاتی ہے۔ ایم اے جناح روڈ ٹاور تک جاتی ہے۔
جہانگیر روڈ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہے۔ جہانگیر روڈ کے اطراف جہانگیر روڈ اور مارٹن روڈ کے سرکاری مکانات ہیں اور گرومندر کے قریب بلوچوں کا قدیم گوٹھ ہے۔ جہانگیر روڈ پر ٹریفک کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔
پھر اطراف کی آبادیوں کا سیوریج کا پانی اس سڑک کی بنیادوں کو کمزورکرتا ہے۔ اس ٹوٹی ہوئی سڑک کی تصاویر اور خبریں پورا سال کئی دفعہ اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی یہ تصاویر وائرل ہوتی ہیں۔
بلدیہ کراچی نے چند ماہ قبل جہانگیر روڈ کی مرمت کے عزم کا اظہارکیا تھا اوراس کی مرمت کا کام ہوا بھی تھا مگر 19 اگست کی طوفانی بارش نے اس سڑک کو پھر برباد دیا تھا۔ ایک دفعہ پھر اس سڑک کی مرمت ہوئی مگر گزشتہ ہفتے تین دن تک ہونے والی بارش کی وجہ سڑک پھر ٹوٹ گئی۔
10 ستمبر کی رات تک جہانگیر روڈ پر صورتحال خاصی خراب ہوگئی اور ٹریفک کی روانی معطل ہوگئی۔ کراچی کی ٹریفک پولیس اپنی ہیلپ لائن پر شہریوں کو کراچی کے ٹریفک کی صورتحال سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
10 ستمبر کی رات پولیس اہلکار ہیلپ لائن 1915 پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ جہانگیر روڈ ایک دفعہ پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے شہریوں کی سہولت کے لیے اپنا پیغام جاری کیا کہ ’’جہانگیر روڈ ڈاک خانہ پر تین ہٹی کے ایم سی والوں نے سیوریج گٹر لائن کا ناقص کام کیا جس کی بناء پر جہانگیر روڈ کا فرسٹ اور سیکنڈ ٹریک بیٹھ گیا ہے مگر تھرڈ ٹریک سے ٹریفک گزارا جا رہا ہے، ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہیں۔
شہریوں سے گزارش ہے کہ احتیاط برتیں۔‘‘ پولیس حکام عمومی طور پر اپنے ماتحت عملے کے خلا ف کارروائی سے گریز کرتے ہیں مگر سچائی بیان کرنے والے ان اہلکاروں کو معطلی کے پروانے جاری کردیے گئے۔
ملیر جام گوٹھ کے قریب ملیر ندی میں آنے والے سیلابی ریلہ کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ زیرِ تعمیر شاہراہِ بھٹوکوکاٹتا ہوا، دوسری طرف نکل گیا جس کے باعث شاہراہِ بھٹو میں کئی فٹ چوڑا اورکئی فٹ گہرا شگاف پڑ گیا۔
روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ 10 اور 11 ستمبر کی درمیانی شب کو ملیر ندی کے پانی سے یہ شگاف پڑگیا کیونکہ شاہراہِ بھٹو پر جام گوٹھ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر جاری ہے اور ڈیم کے فرش کو توڑے بغیر سڑک ڈیم کے فرش پر تعمیرکی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملیر ندی میں آنے والے سیلابی پانی کے ریلے کو یہ سٹرک برداشت نہیں کرسکی اور پانی میں بہہ گئی۔
علاقہ مکینوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سڑک کی تعمیر میں ملیر ندی کی ہی بجری استعمال کی گئی۔ بجری نکالنے کی بناء پر ملیر ندی میں بڑے اور گہرے گڑھے پڑگئے۔ بعض مکینوں کا کہنا ہے کہ شاہراہِ بھٹو اور نئے بند تعمیر ہونے سے ملیر ندی کا قدرتی راستہ تنگ ہوگیا ہے۔
حکومت سندھ نے شاہراہِ بھٹو کے بہہ جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ منہدم ہونے والا شاہراہِ بھٹو کا وہ حصہ ہے جو زیرِ تعمیر ہے۔ یہ ملیر سیکشن کا حصہ ہے جس پر کام جاری ہے اور ٹریفک کے لیے ابھی کھلا نہیں ہے۔ ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی رپورٹ کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہراہِ بھٹو کا حصہ پانی میں بہہ گیا ہے۔ اس کے ملبے کا سامان بعض افراد اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے شاہراہِ بھٹوکی تعمیر پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ اس شاہراہ کی تعمیر سے ملیر اور گڈاپ کے علاقوں کا ماحولیاتی نظام متاثر ہوگا۔
ملیر اورگڈاپ میں بارش کے پانی سے بہنے والے جھیلوں میں موسم سرما میں سائبیریا سے آنے والے پرندے قیام کرتے ہیں اور اس سیزن میں ہزاروں قسم کے پرندے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یہاں پہنچتے ہیں مگر اس شاہراہ کی تعمیر سے پرندوں کے لیے بہنے والی جھیلیں ختم ہوجائیں گی۔ ملیر اورگڈاپ کے علاقے میں پائے جانے والے آثارِ قدیمہ کے اثرات کو بھی نقصان پہنچے گا مگر سندھ کی حکومت نے ان اعتراضات کو مسترد کردیا تھا۔
ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ اس نے زندگی میں پہلی دفعہ ملیر ندی میں پانی کا اتنا بہاؤ دیکھا ہے اور ملیر ندی کے گرد ہونے والی تعمیرات کی بناء پر ندی کا سائزکم ہوا ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
اگرچہ 19 اگست کی شب کراچی میں اوسط کم بارش ہوئی مگر کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں اور تین دن تک مسلسل ہونے والی بارشوں کی بناء پر ملیر اور لیاری ندی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی اور ان ندیوں کے کناروں سے بہنے والے پانی سے 35 آبادیوں سیلابی پانی داخل ہوگیا۔
ان بستیوں کے مکین ندیوں کے پانی کے ابلنے کی رفتار سے آگاہ نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ بہت سی آبادیوں میں رات گئے پانی داخل ہوگیا۔ بہت سے افراد بے گھر ہوگئے۔ بعض علاقوں میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریلیف کیمپ قائم کیے۔
ملیر اور لیاری ندی کے کناروں کے ساتھ یہ بستیاں آباد ہوئی تھیں۔ شاہ فیصل کالونی کے نزدیک بعض لوگوں نے ملیر ندی میں سبزیاں اگائی ہوئی تھیں اور مویشی پال رکھے تھے۔ پانی نے ان سب کو رگڑ ڈالا۔ ملیر ندی میں ایک کار اور رکشہ ڈوبنے سے 7افراد لاپتہ ہوگئے۔ 19 اگست کی بارش میں سڑکیں دریا، ندی اور جھیلوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔
9 اور 10 ستمبر کو ہونے والی مسلسل بارشوں میں 19 اگست والی صورتحال تو رونما نہیں ہوئی البتہ پورے شہر میں سیوریج کا نظام پھر مفلوج ہوگیا۔ شہرکے ہر علاقے میں سیوریج کا پانی بڑی سڑکوں سے لے کرگلیوں اور محلوں تک میں جمع ہوگیا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ پیپلز پارٹی کی اتحادی تنظیم مسلم لیگ ن اور حزب اختلاف کی جماعتوں جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اکابرین اس ساری صورتحال کو سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی اور کرپشن کے نظام سے جوڑ رہے ہیں۔
ان جماعتوں کے بیانیے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سسٹم میں موجودکرپشن اور حکومت کی ناقص کارکردگی بناء پرکراچی تباہی کا شکار ہے۔ حکومتِ سندھ ان الزامات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ کراچی کے عوام مایوسی کا شکار ہیں۔