امریکہ اور اسرائیل غزہ کی مزاحمت کے سامنے بے بس
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یقینی طور پر یہ امریکہ اور اسکی ناجائز اولاد اسرائیل کی بے بسی ہے کہ وہ میدان اور مذاکرات میں شکست کے بعد اب میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین کاز کیخلاف منفی اور من گھڑت خبروں کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس سے زیادہ امریکی حکومت کی بے بسی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہی بات خود فلسطینی عوام، غزہ کے باسیوں اور فلسطینی مزاحمت کی تنظیموں کیلئے مضبوط دلیل ہے کہ وہ پہلے دن سے کامیاب ہیں اور آگے بھی کامیاب ہو رہے ہیں، یعنی فلسطینی کامیاب ہیں اور فلسطین کی مزاحمت کامیاب ہے، حماس زندہ ہے، جہاد اسلامی زندہ ہے اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نابودی کی طرف گامزن ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ کی بے مثال مزاحمت کے ساتھ ساتھ غزہ کے باسیوں کے بے مثال صبر اور استقامت نے اپنوں اور پرائے سب حیرت میں مبتلا کر رکھے ہیں۔ دشمن تو کچھ زیادہ ہی سرپرائزڈ ہوچکا ہے۔ سات اکتوبر سنہ 2023ء کو شروع ہونے والے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے امریکہ اور مغربی حکومتوں کی مدد سے غزہ میں نسل کشی کا گھنائونا کھیل شروع کیا، جو تاحال جاری ہے۔ اگرچہ درمیان میں جنوری کے مہینہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا، لیکن اس کے بعد بھی غاصب صہیونی حکومت مسلسل جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے باسیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت دونوں ہی مل کر غزہ کے لوگوں کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ یہاں تک کہ غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا، ہزاروں انسانوں کو قتل کر دیا گیا، گھر، اسکول، مدارس، مساجد، اسپتال سب کچھ تباہ و بربا دکر دیا گیا۔
یہاں تک کہ ملبہ کے ڈھیروں پر لگائے گئے عارضی خیموں میں بسنے والے فلسطینی بے یار و مدد گار لوگوں پر بھی بم برسا دیئے گئے، لیکن اس سب کے باوجود جو چیز امریکہ اور اسرائیل کو مقاصد حاصل نہیں ہوئے، کیونکہ ان سب مظالم کے باوجود غزہ والوں نے اپنے صبر اور استقامت کا مظاہرہ جاری رکھا اور اعلان کیا کہ ہر قسم کی قربانی دیں گے، لیکن غزہ سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب غزہ میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کا صبر اور جہاد ہے کہ جن میں حماس، جہاد اسلامی سرفہرست ہیں۔ ان مزاحمتی گروہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی سے امریکہ اور اسرائیل کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ مزاحمتی گروہوں کی اصل کامیابیوں میں بھی غزہ کے لوگوں کی استقامت سرفہرست ہے۔ یعنی غزہ کے عوام اور مزاحمتی گروہ سب کے سب ایک نقطہ پر متفق ہیں، یعنی دشمن کے سامنے نہیں جھکیں گے اور اپنے حق اور وطن سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
مزاحمتی گروہوں نے بہترین حکمت عملی کے ساتھ سولہ مہینوں تک امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردانہ جنگ اور حملوں کا سامنا کیا اور جنگ بندی کے معاہدے کو اپنی شرائط پر تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ جنگ بندی کا معاہدہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی شرائط پر ہونا یقینی طور پر فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد میڈیا پر ہونے والا پراپیگنڈا بھی مزاحمتی گروہوں نے بہترین میڈیا حکمت عملی کے ذریعہ ناکام کیا اور میڈیا کے میدان میں بھی دنیا کی نام نہاد سپر پاور امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کو چاروں شانے چت کر دیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا کی حکومتیں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔
مسلح جنگ کے میدان میں تو پہلے ہی ثابت ہوچکا تھا کہ سب مل کر بھی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود نہ تو فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو ختم کرسکے ہیں اور نہ ہی غزہ پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوئے، لیکن دوسری طرف دنیا بھر کی رائے عامہ بھی امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی دنیا کے خلاف ہوتی جا رہی ہے، جس کے باعث امریکی اور صیہونی غاصب حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خود تل ابیب میں بھی غاصب صیہونی حکومت کے خلاف احتجاج شدت پکڑ چکا ہے۔ ایسے حالات میں امریکی و صیہونی دشمن کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اب کچھ ایجنٹوں کے ذریعے غزہ اور گرد و نواح میں احتجاجی مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ان مظاہروں میں فلسطینی مزاحمت کے گروہوں حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف نعرے بازی کی جا رہی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش ہو رہی ہے کہ غزہ کے باسیوں نے فلسطینی مزاحمت کے ساتھ لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے، حالانکہ اس بات میں ایک فیصد بھی صداقت موجود نہیں ہے۔
غزہ والوں کا صبر اور استقامت پہلے دن کی طرح آج بھی چٹانوں سے زیادی بلند اور سخت ہے۔ غزہ والے آج بھی فلسطینی مزاحمت کے پشت پناہ ہیں۔ البتہ امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ پر ایسی کہانیاں نشر کی جا رہی ہیں، جن میں فلسطینیوں کی مایوسی کو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ غزہ کے لوگ اب فلسطینی مزاحمت سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں کروایا جا رہا ہے کہ جب امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت اسرائیل قیدیوں کو حاصل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، حماس اور جہاد اسلامی جیسی مزاحمتی تنظیموں کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، دہشتگردی اور قتل و غارت گری کے باوجود غزہ کے لوگوں کے غزہ سے نکالنے میں ناکام ہوچکے ہیں، یعنی ہر غرض کے ہر طرف ناکامی اور شکست ان کا مقدر بن چکی ہے۔ ایسے حالات میں مغربی ذرائع ابلاغ پر ایسے من گھڑت واقعات رپورٹ کئے جا رہے ہیں کہ جس میں یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ غزہ میں مزاحمت کاروں کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ دراصل احتجاج جو شدت اختیار کر رہا ہے، وہ تل ابیب میں خود غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور نیتن یاہو جیسے جنگی مجرم کے خلاف ہو رہا ہے۔
یہ اوچھے ہتھکنڈے اس بات کی مضبوط دلیل ہیں کہ امریکی حکومت دنیا کی طاقت رکھنے کے باوجود غزہ میں چھوٹے سے مزاحمتی گروہوں کے سامنے بے بس ہوچکی ہے اور منفی ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے دنیا میں فلسطینیوں کی حمایت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یقینی طور پر یہ امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کی بے بسی ہے کہ وہ میدان اور مذاکرات میں شکست کے بعد اب میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین کاز کے خلاف منفی اور من گھڑت خبروں کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس سے زیادہ امریکی حکومت کی بے بسی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہی بات خود فلسطینی عوام، غزہ کے باسیوں اور فلسطینی مزاحمت کی تنظیموں کے لئے مضبوط دلیل ہے کہ وہ پہلے دن سے کامیاب ہیں اور آگے بھی کامیاب ہو رہے ہیں، یعنی فلسطینی کامیاب ہیں اور فلسطین کی مزاحمت کامیاب ہے، حماس زندہ ہے، جہاد اسلامی زندہ ہے اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نابودی کی طرف گامزن ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ اور اسرائیل غاصب صیہونی حکومت مزاحمتی گروہوں فلسطینی مزاحمت امریکہ اور اس غزہ کے باسیوں جہاد اسلامی کامیاب ہیں اور فلسطین میں ناکام مزاحمت کے کی مزاحمت کے باوجود کی جا رہی جا رہی ہے کی بے بسی اور غاصب ہے کہ وہ کے خلاف کی کوشش زندہ ہے صبر اور رہے ہیں ہیں اور کر دیا ہے اور کے بعد رہا ہے کہ غزہ
پڑھیں:
فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ
صدر میکرون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا:
’مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے فرانس کی تاریخی وابستگی کے تحت، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا‘۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب یورپ اور دنیا بھر میں اسرائیل کے غزہ پر حملے، انسانی بحران اور بھوک کی شدت پر شدید ردعمل پایا جا رہا ہے۔
فرانس اس اقدام کا اعلان کرنے والا یورپ کا سب سے بڑا اور بااثر ملک بن گیا ہے، جب کہ اس سے قبل ناروے، اسپین اور آئرلینڈ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
فلسطینی قیادت کا خیر مقدمفلسطینی صدر محمود عباس کو لکھے گئے خط میں میکرون نے اس فیصلے کی وضاحت کی، جس پر عباس کے نائب حسین الشیخ نے فرانس کے اقدام کو بین الاقوامی قانون اور فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اہم قدم قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دے دیا
حماس نے بھی اس فیصلے کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک، خصوصاً یورپی اقوام، سے اپیل کی کہ وہ بھی فرانس کی پیروی کریں۔
اسرائیل کا سخت ردعملدوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ اقدام دہشتگردی کے لیے انعام ہے اور ایک اور ایرانی ایجنٹ ریاست قائم کرنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اسے ’دہشتگردی کے سامنے جھکنے‘ کے مترادف قرار دیا۔
عالمی منظرنامہاقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 142 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں یا اس کا ارادہ رکھتے ہیں، مگر امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے بااثر مغربی ممالک نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا۔
فرانس کی طرف سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 59,587 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، اور امداد کی شدید پابندیوں کی وجہ سے قحط جیسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
پس منظرفلسطینی رہنما یاسر عرفات نے 1988 میں یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد الجزائر سب سے پہلا ملک تھا جس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ تب سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے درجنوں ممالک اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔
تاہم فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں کئی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، جن میں اسرائیلی قبضہ، غیر قانونی یہودی آبادکاریوں کی توسیع اور مشرقی یروشلم کی حیثیت جیسے تنازعات شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل حماس غزہ فرانس فلسطین یاسر عرفات