ٹرمپ کی دھمکی اور ایران کا دفاعی پروگرام
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران کے میزائل سسٹم اور ڈرون ٹیکنالوجی نے امریکیوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ امریکی و اسرائیلی دفاعی نظام بھی ایران کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ اگر ایران پر حملے کی حماقت کرتا ہے تو جوابی وار برداشت نہیں کر پائے گا، کیونکہ ایرانیوں کیساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ ایک ایسی چیز بھی ہے، جو امریکہ و اسرائیل کے پاس نہیں، وہ ہے، جذبہ شہادت، ایرانیوں میں یہ جذبہ بدرجہ اُتم موجود ہے اور اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں کرسکتی۔ تحریر: تصور حسین شہزاد
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام بند نہ کیا تو مارچ میں ایران پر بمباری کرکے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے گا۔ حیرت ہے ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف ایران کیساتھ ’’بات چیت‘‘ کے ذریعے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے تو دوسری جانب دھمکیاں بھی دے رہا ہے، بلکہ کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کسی بھی خود مختار ملک، جس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے، اُسے اس انداز میں دھمکیاں نہیں دی جا سکتیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ان ممالک کیلئے جو امریکہ سے کوئی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی دوستی اُس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ امریکہ دوستی کی آڑ میں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، چہ جائیکہ وہ کھلا دشمن ہو۔
ایران کی جانب سے چاہیئے تو یہ تھا کہ ایرانی صدر ہی اپنے امریکی ہم منصب کو دھمکی کا جواب دیتے، یا وزارت خارجہ اس پر ردعمل دیتی، مگر صدر یا ایرانی وزارت خارجہ کی بجائے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا امریکہ کو جواب دینا کہ ’’ایران پر حملے کی حماقت کی تو امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران ’’بھرپور اور تباہ کن‘‘ جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے محمد بن سلمان کیساتھ گفتگو میں واضح پیغام دیا ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، مگر اپنے دفاع کیلئے سب کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
امریکی صدر کی یہ دھمکیاں، صرف ایران کو نہیں ہیں، بلکہ ان کا نشانہ دیگر مسلم ممالک بھی بنیں گے، ایران پر اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو بہت سے مسلم ممالک بے ساختہ اس جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گے، کچھ امریکہ کی دشمنی تو کچھ امریکہ کی دوستی میں اس آگ کا ایندھن بنیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہ دھمکی کیوں دی ہے؟ تو مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی اس دھمکی کا مقصد نیتن یاہو کا اقتدار بچانا ہے، کیونکہ اسرائیل میں نیتن یاہو کا اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے۔ اب نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ اسرائیل کیخلاف کوئی جنگی محاذ کھلے اور اسرائیل کے جو عوام دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، وہ ایک پیج پر آجائیں۔
اسرائیل میں ایک طبقہ سیکولر ہے، دوسرا بنیاد پرست، سیکولر طبقہ وہ ہے، جو بیرونی ممالک سے لا کر اسرائیل میں بسائے گئے تھے، انہیں بڑے بڑے سبز باغ دکھائے گئے تھے، مگر اب اسرائیل کا دفاع تارِعنکبوت ثابت ہونے پر یہ لوگ خوفزدہ ہیں اور کئی تو اسرائیل چھوڑ کر اپنے اپنے آبائی ممالک جا چکے ہیں، جو اسرائیل میں موجود ہیں، وہ حکومت پر مسلسل دباو ڈال رہے ہیں کہ حماس کی قید سے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروایا جائے، جنگ بند کی جائے اور غزہ پر حملے روکے جائیں، تاکہ اسرائیل پر جوابی وار نہ ہو، اسرائیلیوں کا یہ دھڑا نیتن یاہو کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔
دوسرا دھڑا بنیاد پرست یہودی ہیں، یہ وہ اسرائیلی ہیں، جو عرب ہیں اور مقامی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل ہو اور اس کیلئے جنگ کو جنتا وسیع کیا جائے، اسے وسعت دی جائے۔ یوں ان دونوں دھڑوں کے درمیان بھی کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی اور دباو کے باعث سارا پریشر نیتن یاہو پر ہے۔ اس لئے نتین یاہو کی خواہش ہے کہ اسرائیل پر جنگ مسلط کروا دی جائے۔ یہ دنیا بھر کا اصول ہے کہ جب کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے، تو اس کے عوام خود بخود اپنی لڑائی اور اختلافات چھوڑ کر ایک پیج پر متحد ہو جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کی بھی یہی خواہش ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کا جو دھڑا اس کے اقتدار کیلئے خطرہ بن رہا ہے، وہ اسرائیل پر جنگ مسلط ہونے سے حکومت کی مخالفت چھوڑ کر حمایت میں آ جائے گا۔ اس سے تھوڑا بہت نقصان تو ہوگا، لیکن نیتن یاہو کا اقتدار بچ جائے گا۔
اس لئے نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک محدود پیمانے پر جنگ ہوسکتی ہے کہ امریکہ ایران پر کوئی میزائل داغ دے اور جواب میں ایران اسرائیل کو نشانہ بنا دے، تو یوں اسرائیلی عوام متحد ہو جائیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ایران واقعی جنگ نہیں چاہتا، ایرانی صدر نے بھی یہی پیغام دیا ہے، لیکن اب ایران کی دفاعی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط ہے، اسے دفاعی میدان میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔ ایران کو دفاعی میدان میں چین اور روس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ چین اور روس نے جو جدید ہتھیار بنائے ہیں، ایران کیساتھ امریکی جنگ کی صورت میں انہیں بھی آزمایا جا سکتا ہے اور اس صورتحال سے امریکہ و اسرائیل دونوں اچھی طرح آگاہ ہیں۔
ایران کے میزائل سسٹم اور ڈرون ٹیکنالوجی نے امریکیوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ امریکی و اسرائیلی دفاعی نظام بھی ایران کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ اگر ایران پر حملے کی حماقت کرتا ہے تو جوابی وار برداشت نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ ایرانیوں کیساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ ایک ایسی چیز بھی ہے، جو امریکہ و اسرائیل کے پاس نہیں، وہ ہے، جذبہ شہادت، ایرانیوں میں یہ جذبہ بدرجہ اُتم موجود ہے اور اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں کرسکتی۔ ایرانی فوجی، شہادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں، جہاں موت کا خوف ختم ہو جائے وہاں، ٹیکنالوجی کو بھی شکست ہو جاتی ہے۔
ایران نے اپنے میزائلوں کا رُخ امریکی اڈوں کی طرف کر دیا ہے۔ یمن میں بھی حملوں کو ’’وقتی طور پر‘‘ روک دیا گیا ہے، جس کا مقصد ایران کا یو ٹرن نہیں، بلکہ یمن کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانا ہوسکتا ہے۔ اس لئے جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایران نے یمن سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے، وہ یہ یاد رکھیں کہ یمن ایران کا دفاع ہے اور ایرانی اپنے دفاع سے غافل نہیں، بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور بیدار ہیں اور اس صورتحال میں ایران پر حملے کی حماقت امریکہ و اسرائیل کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران پر حملے کی حماقت امریکہ و اسرائیل اسرائیل میں اسرائیل کے کہ اسرائیل اس صورتحال نیتن یاہو ایران کے ایران کی کہ ایران جائے گا نہیں کر یاہو کی ہیں کہ اور اس ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے: سیاست، معیشت اور خلائی پروگرام پر لرزہ طاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیکنالوجی ارب پتی ایلون مسک کے درمیان حالیہ تنازع نے امریکا کی سیاست، معیشت اور خلائی میدان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ یہ محض دو طاقتور شخصیات کی آپسی لڑائی نہیں بلکہ ایسا تصادم ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق تنازع کا آغاز 3 جون کو اس وقت ہوا جب ایلون مسک، جو اس وقت ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے سربراہ ہیں، نے ٹرمپ کے مجوزہ “بگ بیوٹیفل بل” کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، اس بل میں ٹیکس کٹوتیاں، امیگریشن اصلاحات، اور سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی شامل تھی ، کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق یہ بل آئندہ 10 برسوں میں 2.4 ٹریلین ڈالر کے خسارے اور 10.9 ملین افراد کو صحت کی سہولت سے محروم کر سکتا ہے۔
ایلون مسک کی تنقید کے بعد صدر ٹرمپ نے 5 جون کو مسک کو کہاکہ “ایک شخص جو اپنا دماغ کھو چکا ، ٹرمپ نے دھمکی دی کہ وہ اسپیس ایکس کو دیے گئے 38 ارب ڈالر کے سرکاری معاہدے منسوخ کر سکتے ہیں، اسپیس ایکس ناسا کے خلائی مشنز کے لیے ڈریگن کپسول فراہم کرتی ہے اور امریکی خلائی پروگرام کا بنیادی ستون تصور کی جاتی ہے۔
مسک نے بھی بھرپور ردعمل دیتے ہوئے ٹرمپ پر جیفری ایپسٹین سے متعلق خفیہ فائلز چھپانے کا الزام عائد کیا اور صدر کے مواخذے کا مطالبہ کر دیا، اس کے بعد مسک نے 1992 کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ٹرمپ ایپسٹین کے ساتھ ایک پارٹی میں موجود نظر آ رہے تھے۔
خیال رہےکہ 5 جون کو ٹیسلا کے حصص میں 14.2 فیصد کی زبردست کمی واقع ہوئی، جس سے کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں 152 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایلون مسک کی ذاتی دولت میں بھی 33 ارب ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ البتہ اگلے دن جب سرمایہ کاروں نے کشیدگی میں کمی کی امید کی تو حصص دوبارہ 6 فیصد بڑھ گئے۔
ٹرمپ کی جانب سے اسپیس ایکس معاہدوں کی منسوخی کی دھمکی نے ناسا کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ایک موقع پر مسک نے ردعمل میں ڈریگن کپسول کو عارضی طور پر غیر فعال کرنے کی دھمکی دی، تاہم بعد میں وہ اس سے پیچھے ہٹ گئے۔
یہ تنازع ایک ڈیجیٹل جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور ٹروتھ سوشل پر دونوں فریقین کے حامیوں نے میمز، بیانات اور الزامات کی بارش کر دی ہے۔ مسک کی بیٹی ویوین جینا ولسن نے اسے ایک “ڈرامہ” قرار دیا، جب کہ ایشلی سینٹ کلیئر — جو مسک کے ایک بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں — نے ٹرمپ کو “بریک اپ ایڈوائس” دینے کی پیشکش کی۔
صدر ٹرمپ نے بھی طنز کے طور پر مارچ 2025 میں خریدی گئی اپنی سرخ ٹیسلا ماڈل ایس فروخت یا عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔