Juraat:
2025-06-09@20:28:19 GMT

''را'' پر امریکی پابندیاں

اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT

''را'' پر امریکی پابندیاں

ریاض احمدچودھری

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے سکھ کارکنوں کے خلاف قتل کی سازشوں میں ملوث ہونے پر بھارت کی خفیہ ایجنسی”را ” پر مخصوص پابندیوں کی سفارش کرتے ہوئے کہاہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو ناروا سلوک کا سامنا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ طویل عرصے سے بھارت کو ایشیا اور دیگر جگہوں پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے والے ملک کے طور پر دیکھتا رہا ہے اور اسی وجہ سے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔
2023کے بعد سے بھارت کی طرف سے امریکہ اور کینیڈا میں سکھ رہنمائوں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے پر امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں سرد مہری سی پیدا ہوگئی اور واشنگٹن نے ایک سابق بھارتی انٹیلی جنس افسر وکاس یادو پر امریکہ میں سازش کا الزام عائد کیاجسے ناکام بنادیاگیا۔ امریکی کمیشن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہاکہ2024 میں بھارت میں مذہبی آزادی کی صورتحال مزید ابتر ہو گئی کیونکہ مذہبی اقلیتوں پر حملوں اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ سال انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کی اورجھوٹی خبریں پھیلائیں۔مودی نے گزشتہ سال اپریل میں مسلمانوں کو”درانداز” قراردیکر کہاتھا کہ ان کے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹوں میں بھارت میں حالیہ برسوں میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔کمیشن نے امریکی حکومت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو ”خصوصی تشویش والے ممالک ”کی فہرست میں شامل کرنے اور وکاس یادو اور ”را ”پر مخصوص پابندیاں لگانے کی سفارش کی ہے۔انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بھارت میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز تقاریر، اقوام متحدہ کی طرف سے امتیازی قراردیے گئے شہریت ترمیمی قانون کے نفاذاورتبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی اقلیتوں کی حالت زارکو اجاگر کیاہے۔ ناقدین نے مذہبی آزادی پر پابندیوں، مسلم اکثریتی جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور مسلمانوں کی جائیدادوں کی مسماری پر تشویش کااظہارکیاہے۔امریکہ کمیشن برائے مذہبی آزادی امریکی حکومت کا ایک غیرجانبدارمشاورتی ادارہ ہے جو بیرون ملک مذہبی آزادی پر نظر رکھتا ہے اوراس حوالے سے حکومت کو سفارشات پیش کرتا ہے۔
مودی سرکار اور بھارتی را کی دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور جاسوسی ایک کھلی حقیقت ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ الیکشن 2024 میں ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی نے مسلمانوں اور اقلیتیوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کر کے ووٹ بٹورنے کی کوشش کی۔بھارت میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز تقاریر، امتیازی شہریت اور تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی، کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور مسلم املاک کی مسماری اقلیتوں کے حقوق پر حملہ ہیں۔امریکی ادارے کا کہنا ہے بھارتی خفیہ ایجنسی "متعصبانہ اور سیاسی طور پر محرک سرگرمیوں” میں مصروف ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بہت ہی خراب سلوک کیا جا رہا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی امور کو منظم اور کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں اس لیے اسے، "خاص تشویش کا ملک” قرار دیا جائے۔ادارے نے الزام لگایا ہے کہ سن 2023 کے بعد سے بھارتی ایجنسی را امریکہ اور کینیڈا میں خالصتانی کارکنان کو نشانہ بنانے کی سازشوں میں ملوث رہی ہے۔
پینل نے امریکی حکومت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے لیے "بھارت کو خاص تشویش کا حامل ملک” کے طور پر نامزد کرنے اور را نیز اس ادارے سے وابستہ بعض افراد کے خلاف "ٹارگٹڈ پابندیاں لگانے” کی سفارش کی۔واضح رہے کہ یہ کمیشن ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں کے اراکین پر مشتمل امریکی حکومت کا مشاورتی ادارہ ہے، جو بیرون ملک مذہبی آزادی پر نظر رکھتا ہے اور پالیسی سازی سے متعلق اپنی سفارشات پیش کرتا ہے۔
امریکی ادارے نے یہ بھی سفارش کی کہ امریکی حکومت "اس بات کا جائزہ لے کہ آیا آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے سیکشن 36 کے تحت بھارت کو ایم کیو 9 بی ڈرون، کی فروخت کہیں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ تر نہیں کر سکتی ہے۔”گزشتہ اکتوبر میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ تقریباً چار بلین ڈالر کی لاگت سے 31 پریڈیٹر ڈرون حاصل کرنے کے لیے ایک بڑے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔یو ایس سی آئی آر ایف ماضی میں اقلیتوں کے حقوق اور ان پر مظالم کے حوالے سے بھارت پر نکتہ چینی کرتا رہا اور اس نے بھارت پر پابندی کی سفارش بھی کی ہے، جنہیں بھارت حسب معمول مسترد کر دیتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن نے مذہبی اقلیتوں پر مبینہ جبر اور مظالم کے معاملے میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی کا نام لیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘انڈیا کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص سکھ برادری اور ان کی حمایت کرنے والوں کو ہدف بنانے کے لیے اپنے جبر کا دائرہ غیر ممالک تک پھیلا دیا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹنگ اور کینیڈا حکومت کی خفیہ اطلاعات سے ان الزامات کی تصدیق ہوئی تھی کہ انڈیا کی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ، یعنی را اور چھ سفارتکار نیویارک میں سنہ 2023 میں ایک امریکی سکھ علیحدگی پسند لیڈر کے قتل کی کوشش سے منسلک تھے۔’اس نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ امریکی کانگریس ‘مذہبی آزادی کو مسلسل نقصان پہنچانے اور اس کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے لیے انڈیا کو خاص تشویش ملکوں کے زمرے میں شامل کرے۔’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کی خلاف ورزیوں مذہبی آزادی کی مذہبی اقلیتوں رپورٹ میں کہا امریکی حکومت میں اقلیتوں اقلیتوں کے نفرت انگیز بھارت میں سفارش کی کی حکومت کی سفارش سے بھارت بھارت کو کے خلاف کہا گیا گیا ہے

پڑھیں:

ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 

اسلام ٹائمز: ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اسکی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کیلئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کریگا، کیونکہ اسکے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیشرفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتماد آلۂ کار تھا، جس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا، جس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیا اور آج پوری دنیا اگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔

خطے میں موجود مزاحتمی محاذ کی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے۔ البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبکدوش نہیں کیا جاسکتا، جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیا گیا۔ مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جا رہے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے، اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور عمان کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ظاہری طور پر ٹرمپ ایران کو دھمکا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ باطنی طور پر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتا اور سفارتی طور پر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا رہی ہے۔ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایران کو دھمکایا نہیں جاسکتا اور اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جبکہ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔

جبکہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچنا پڑے گا، کیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کا باعث بنے گا، جس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ ایران پر حملے سے دنیا کو ناقابل بیان اقتصادی نقصان پہنچے گا، کیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیس فیصد تیل گذرتا ہے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی، جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی۔ عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعے ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئے حملے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، جس کی تیاری اسرائیل کر رہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں، جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے۔ گو کہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد چھیڑ دی گئی تھی۔ لہذا ایران کو استعماری طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریح موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے۔

امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے۔ امریکہ کون ہوتا ہے، جو ہماری خود مختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کر رہا ہے۔ آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے۔؟ اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیا ہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے۔؟ انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتا ہے، جبکہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کو سب سے بڑا جنم دینے والا وہ خود ہے۔"

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ "ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیئے؟ کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے۔؟" ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنی خود مختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا۔ ان کا یہ کہنا کہ "ایرانی قوم کی خود مختاری ان کے ہاتھ میں ہے" امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ ایران کی خود مختاری پر ضرب لگانا چاہتا ہے، جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کر دیا، جس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔

جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا، جبکہ امریکہ نے حالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعے ایران کو موصول ہوچکی ہے، کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تجویز، جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کر دیا ہے، اس کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہو جائے گا۔

گویا کہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خود کفیل بننے سے روکنا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے۔ اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنا نہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خود کفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے، جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اس کی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو تعصب اور ظلم کا سامنا ہے: آصف علی زرداری
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • نئی پابندیاں ایرانی عوام کے ساتھ امریکی دشمنی کو ظاہر کرتی ہیں، اسماعیل بقائی
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ کردیئے
  • امریکا کی ایران پر نئی پابندیاں، ایران کا ردعمل بھی آگیا
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول