ٹرمپ اور ٹیرف…ورلڈآرڈر میں بھونچال
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران کیے ہوئے ایک اہم وعدے کو وفا کر دیا۔ ان کے بقول امریکا کے بڑے تجارتی پارٹنرز امریکا سے بہت زیادہ تجارتی فوائد سمیٹ رہے ہیں جب کہ امریکا کے حصے میں تجارتی خسارہ اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری آئی ہے۔
اسی بنیاد پر رواں ہفتے امریکا نے دنیا کے تقریبا تمام ممالک پر جوابی ٹیرف یعنی Reciprocal Tarrifs کا اعلان کر دیا ہے۔یہ اعلان ابتدائی طور پر ورلڈ مارکیٹس کے لیے بھونچال ثابت ہوا، ورلڈ مارکیٹ دھڑا دھڑ کریش کر گئیں۔ بلوم برگ کے مطابق کووڈ دور کے لیول تک گرنے سے عالمی مارکیٹوں سے اڑھائی ٹریلین ڈالرز ہوا ہو گئے۔
امریکا کے بڑے پارٹنرز نے ان ٹیرف پر مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے۔حسب توقع چین نے جواباً وہی شرح ٹیرف امریکی درآمدات پر عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اپنی اپنی تجارتی طاقت اور حیثیت کے مطابق مختلف ممالک اپنے اپنے ابتدائی رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا کو یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے پیچھے مکمل ورکنگ اور سیاسی حکمت عملی موجود ہے۔
Business as usual یعنی ’’سب ایسے ہی چلتا ہے‘‘ کا دور گیا۔ اعلان کردہ ٹیرف کی حتمی شکل کیا ہوگی ؟ وقت ہی صحیح بتائے گا کیونکہ عالمی تجارت اور ڈپلومیسی میں مذاکرات کے ٹیبل پر حتمی طور پر طے پانے والے معاملات شروع ہونے والے پوائنٹ سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ باہمی مذاکرات میں بھاو تاؤ ،لین دین اور وعدے وعید کے بعد حتمی ٹیرف کی شکل بہت مختلف ہو۔ تاہم دنیا کو اب یہ نئی حقیقت تسلیم کرنی پڑ رہی ہے کہ گزشتہ 30 /35 سالوں کے دوران امریکا کی تجارتی منڈیوں میں جس دھڑلے سے تمام ملکوں نے تجارتی سرپلس سمیٹے، وہ دور اب بدلنے کو ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔ پاکستان کی 2024 میں امریکا کو برآمدات 5.
امریکا کی طرف سے جوابی ٹیرف کی تفصیل کے مطابق پاکستان پر 29، جب کہ چین پر 54، ویت نام پر 46، بنگلہ دیش پر 37، انڈونیشیا پر 32، بھارت پر 26 اور ترکی پر 10 فیصد عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستانی برآمد کنندگان کو فی الحال یہی تشفی اور اطمینان ہے کہ اس کے مقابل دیگر ممالک پر پاکستان کی نسبت ٹیرف کہیں زیادہ ہے ، اس لیے پاکستانی برآمدات دوسروں کے مقابلے میں بہتر مسابقت کی حامل ہیں۔
2024 میں امریکا سے پاکستان کو کل برامدات 2.13 ارب ڈالر رہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان باہمی تجارت کے اس جائزے سے یہ امر واضح ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائلز اور ٹیکسٹائلز کی مصنوعات کے لیے امریکی منڈی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
گو امریکا کے مجموعی تجارتی حجم میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن پاکستان کی برآمدات میں امریکا کی اہمیت کلیدی ہے۔ اس کیٹیگری میں پاکستان کے مقابل دیگر ممالک اپنی اپنی برآمدات کو سہارا دینے کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ کیا سپورٹ مہیا کرتے ہیں؟ اور امریکا کے ساتھ ان کا تجارتی مول تول کہاں اور کس مقام پر طے پاتا ہے؟ پاکستان کی مصنوعات کے لیے اصل امتحان وہاں سے شروع ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان نے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی ہے جو پاکستان پر ٹیرف کے مجموعی اثرات کا جائزہ لے گی اور امریکا کے ساتھ معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ دیکھیے کیا گزرتی ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس انتہائی اقدام پر کیوں کمر بستہ ہیں؟ اس سوال کی کئی کہی اور ان کہی کوئی وجوہات ہیں۔ اپنے پہلے دور صدارت اور موجودہ انتخابی مہم میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا واضح موقف رہا ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی دھڑا دھڑ دوسرے ملکوں میں منتقلی سے امریکا کو نقصان ہوا، جب کہ چین سمیت بہت سے ممالک نے معاشی فوائد سمیٹے۔ امریکی منڈیاں چین اور دیگر ممالک کے لیے ہمیشہ فراخ دل اور کشادہ رہیں جس کے نتیجے میں دیگر تمام ممالک نے کم شرح ٹیرف کی امریکی پالیسی سے بھرپور فائدہ اٹھایا، جب کہ دوسری جانب امریکی مصنوعات کی درآمدات پر بیشتر ممالک میں عائد ٹیرف کہیں زیادہ ہیں جسے امریکی صدر تجارتی ناانصافی گردانتے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس تجارتی ناروائی کو اب اپنے تئیں درست کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اس درستگی کے لیے وہ انتہائی اقدام پر آمادہ ہیں۔ انھیں اور ریپبلیکن حکومت کو یقین ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں امریکا میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو دوبارہ مناسب ترغیب اور جگہ مل سکے گی۔ جس سے روزگار میں اضافے اور تجارتی خسارے میں کمی سے امریکی معیشت اپنے صحیح مقام اور تشخص کا احیاء کر سکے گی۔
80 اور 90 کی دہائی میں جب موجودہ عالمی تجارتی نظام کے خدو خال تشکیل پا رہے تھے، تب سے اب تک جیو پولیٹیکل اور عالمی تجارت کی بساط میں انتہائی تیزی سے حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جنھوں نے جیو پولیٹیکل اور عالمی تجارت کا نقشہ اور توازن بدل کر رکھ دیا ہے۔ چین کی 1990 میں کل برآمدات فقط 49 ارب ڈالرز تھیں جب کہ 2024 میں یہ برآمدات 3.513 ٹریلین ڈالرز ہو چکیں۔ چین کی جی ڈی پی 1990 میں 369 ارب ڈالرز تھی جو 2023 میں 17.795 ٹریلین ڈالرز ہو چکی۔ اس دوران بھارت کی جی ڈی پی 1990 میں 320 ارب ڈالرز تھی جو 2023 میں 3.549 ٹریلین ڈالرز تھی۔ امریکا کی جی ڈی پی 1990 میں 5.96 ٹریلین ڈالرز تھی جو 2023 میں 27.3 ٹریلین ڈالرز تھی۔
یہ تقابل ظاہر کرتا ہے کہ عالمی تجارت کی بساط پر نئی طاقتوں نے ناقابل یقین تیزی سے ترقی کی اور وہ بھی بہت حد تک امریکی مارکیٹس سے۔ جب کہ عام امریکی اس دوران میں معاشی مشکلات میں دھنستا چلا گیا جس کا واشگاف اظہار امریکی سیاست اور الیکشن میں ہورہا ہے۔ دیگر وجوہات اپنی جگہ لیکن امریکا اپنے ہی وضع کردہ عالمی تجارتی نظام کے ان’’ ان چاہے نتائج ‘‘سے ناخوش ہے اور توازن اپنے حق میں کرنے پر کمر بستہ ہے۔
آنے والے دن امریکی اور اس کے تجارتی پارٹنرز کے درمیان شدید اعصابی تناو اور ڈپلومیٹک کھینچا تانی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس کھیلنے کو بہت کم کارڈز ہیں، اس لیے وہ شاید انتظار کرے کہ دوسروں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا کے ارب ڈالرز تھی ٹریلین ڈالرز عالمی تجارت پاکستان کی میں امریکا امریکا کی برا مدات درا مدات ٹیرف کی کے لیے
پڑھیں:
قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا، امریکی میڈیا
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے منگل کی صبح حملے سے پہلے ٹرمپ سے بات کی تھی، اسرائیلی حکام کے مطابق حملے سے پہلے امریکا کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے منگل کی صبح حملے سے پہلے ٹرمپ سے بات کی تھی، اسرائیلی حکام کے مطابق حملے سے پہلے امریکا کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ خبر ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں تھے، تب امریکا کو بتایا گیا تھا، صدر ٹرمپ کو حملے کی مخالفت کا موقع نہیں ملا تھا۔ خیال رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملے کیے، صہیونی فوج کا ہدف فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کی مرکزی قیادت تھی۔ اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ دوحہ میں حماس کے مذاکراتی رہنماؤں کو دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ تل ابیب سے جاری کیے گئے بیان میں اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا تھا کہ دوحہ میں دھماکے کے ذریعے حماس کے سینیئر رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
حماس کے ذرائع کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے کے وقت حماس کے متعدد رہنماؤں کا اجلاس جاری تھا، اجلاس میں حماس رہنماء غزہ جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر غور کر رہے تھے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی بمباری کے دوران اجلاس میں حماس کے 5 سینیئر رہنماء خالد مشعل، خلیل الحیہ، زاہر جبارین، محمد درویش اور ابو مرزوق موجود تھے، اجلاس کی صدارت سینیئر رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ کر رہے تھے۔ ایک اسرائیلی عہدے دار کا کہنا تھا کہ دوحہ میں حماس رہنماؤں پر حملے سے پہلے امریکا کو اطلاع دی گئی تھی، امریکا نے حماس رہنماؤں پر حملے میں مدد فراہم کی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ قطر میں موجود حماس رہنماؤں پر حملہ انتہائی درست اور بہترین فیصلہ تھا۔