Islam Times:
2025-06-01@15:13:20 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اسلام ٹائمز: آج انسانیت کا مقدمہ انکی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.

com 

 یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔"  

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔۔۔۔کیونکہ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "انسانیت" کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے، جس نے "جمہوریت" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، "آزادی" کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا اور "انسانی حقوق" کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی، جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر "حقوقِ بشر" کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں ۹/۱۱ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "Holocaust Memorial" بنایا، مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں؟ اور افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔۔۔۔۔ وہ امت جو "وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم" کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا، جو ہمیں رسولِ کریمﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ "پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام" کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں "ایران اور یمن" کی کارروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔"

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرتے ہیں رہے ہیں رہی ہے یہ وہی کے نام

پڑھیں:

جنگی اذیتیں

پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ پندرہ ماہ جاری رہی تھی، یعنی اکتوبر 1947 سے لے کر دسمبر 1948 تک جب کہ دوسری جنگ کا دورانیہ جو 1965 میں لڑی گئی یہ جنگ سترہ روز تک لڑی گئی یعنی 6 ستمبر سے 23 ستمبر تک۔ تیسری جنگ یعنی 1971 کی جنگ تیرہ دن تک لڑی گئی تین دسمبر سے سولہ دسمبر تک، چوتھی جنگ دو مہینے تک جاری رہی، یہ 1999 میں مئی سے جولائی تک رہی، یہ کارگل کی جنگ تھی۔

سات مئی 2025 کو شروع ہونے والی جنگ دس مئی 2025 کی شام کو جنگ بندی کا اعلان ہوا، گویا چار دن میں یہ جنگ ختم ہو گئی تھی۔ 1947 سے لے کر آج تک ہم جان چکے ہیں کہ جنگ کس قدر خطرناک ہے یہ تباہی لے کر آتی ہے اور جانوں کو نگل لیتی ہے، پاکستان اور بھارت کے عوام یہ تباہ کاریاں جانتے ہیں۔ 

آج کے زمانے میں پل کر جوان ہونے والے بھی ان چند دنوں میں جنگ کی ہولناکیوں کو محسوس کر چکے ہیں۔ دنیا میں فلسطین کے حوالے سے اٹھتے ہوئے شعلے اور اس میں بھسم ہونے والی جانیں کون سنگ دل ہوگا جس کی آنکھ سے ان کے غم پر آنسو نہ آئے ہوں گے، ذرا سوچیں تو دل لرز اٹھتا ہے، کھاتے پیتے ان مظلوم انسانوں کی شکلیں ابھرتی ہیں تو دل رو اٹھتا ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ بہ ظاہر جس انداز میں شروع ہوئی تھی، اس سے یہ ہرگز نہ لگتا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مہم جوئی نما جنگ ایک تہلکہ خیز جنگ کو جنم دے گی، تاریخ سات ہی تھی کہ اس تاریخ کو جو شروع ہوا اس کا اختتام ابھی تک منتظر ہے کہ کب۔۔۔ پر ابھی تک خاموشی اور فضا میں بارود کی بدبو، دھماکے اور انسانی چیخوں کی آوازیں۔

سات تاریخ کو شروع ہونے والی ایک جنگ ہزاروں جانیں آج تک نگل چکی ہے شاید بھارت نے بھی اس سحر انگیز ’’سات‘‘ کے پھیرے میں ڈوب کر سات تاریخ کا ہی انتخاب کیا تھا، پر ہمیں کل کی بھی خبر نہیں اور پلان بڑے بڑے بناتے ہیں،کس کو پتا تھا کہ چند دنوں میں بھارت کے غبارے کی ہوا ہی نکل جائے گی اور کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ایسا ہی ہوا، نقصان اس قدر پھیلا کہ فرانس کے تاریخی شیئرز میں ٹھپا لگ گیا، کسی نے بھی رافیل نما شیطانی چرخے کو نہ مانا اور مسترد کر دیا گیا اور بعد میں بھی ایسا ہی ہوا کہ چند گھنٹوں میں ہی بھارت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ 

اب وہ مانیں نہ مانیں پر حقیقت یہی ہے کہ مودی سرکار جنگ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ بھڑکانے والے بھڑکاتے ہیں اور ان غباروں جیسی حقیقتوں پر چڑھاتے ہیں اور چند دن دنیا کا زاویہ کچھ پھرا اور بس۔بات پھر فلسطین کی کرتے ہیں جہاں ایک خبر نے دل دہلا دیا جب ایک ڈاکٹر کے 9 بچے ایک ہی دھماکے میں شہید کر دیے گئے جب کہ وہ اسپتال میں دوسروں کی جان بچانے کی کوششوں میں لگی تھیں۔ 

یہ کیسا اذیت ناک تھا کہ ایک ماں کے9 جگر گوشے ایک ساتھ۔۔۔۔ یہ آزمائش نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان میں بیٹھ کر ہم ایک ماں کے درد کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، پر آنکھیں نم ہیں اور دل میں دعائیں۔یہ وہی اسرائیل ہے جسے 1948 میں یعنی پاکستان بننے کے محض سال بھر بعد ہی دنیا کے نقشے پر چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت اور پاکستان بالمقابل اسرائیل اور فلسطین کیا کوئی کہانی اس طرح ترتیب دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی پر یہ سچ ہے کہ سات کی کہانی کا راز ابھی باقی ہے۔

یورپی ممالک سے مالٹا کی جانب سے ایک آواز ابھری ہے، وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے کہا ہے کہ ان کا ملک جلد ہی باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ رابرٹ ابیلا نے فلسطین کے حالات کو جس درد مندی سے محسوس کیا اور کھل کر بیان کیا وہ قابل تعریف ہے نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے اسرائیلی فضائی حملے میں نشانہ بننے والے النجار خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کو مالٹا میں پناہ دینے کا اعلان بھی کیا، ان کے یہ الفاظ ’’ مالٹا آپ اور آپ کے خاندان کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے اور آپ کے ساتھ اپنے شہریوں جیسا سلوک کرے گا۔‘‘

ان سرد جذبات والے رہنماؤں کے لیے ایک مثال ہیں جو دنیا کے علم بردار بنتے ہیں۔مالٹا فلسطین کے لیے جو کر رہا ہے اور جس کوشش میں مصروف ہے وہ یورپی ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمان طاقتوں کے لیے بھی سوچنے کے در وا کرنا ہے کہ آخر ایک یورپی ملک فلسطین کے لیے اتنا درد رکھتا ہے اور۔۔۔سوال تو اٹھتے ہی ہیں کہ سات تاریخ کو ہی حماس نے اسرائیل پر چھاتہ بردار جنگ کا آغاز کیوں کیا، بھارت نے پاکستان پر 7 مئی پر بلاوجہ حملہ کیوں کیا اور ایک جنگ کی ابتدا کی؟

اقوام متحدہ کے ایک 193 میں سے ایک سو 147 رکن ممالک نے فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر فلسطین کو انتہائی شکستہ صورت حال میں دیکھ کر ان کے عزم کو سلام کرتے طاقت کا بڑا رخ ان کو تسلیم کرنے کی حمایت میں آگے آ چکے ہیں لیکن ابھی بھی بڑے بڑے ہاتھیوں نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔

ابھی خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے عنقریب ہی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا کہا تو ہے اب یہ عنقریب کتنے مہینوں پر محیط ہوگا یا کبھی نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رافیل کے باعث عالمی سطح پر ان کی جو حوصلہ شکنی ہوئی یا شاید وہ اسے خدا کا اشارہ سمجھ کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔

ویسے بھی اپنی بیگم صاحبہ سے عزت افزائی کی تازہ ترین وڈیو نے ایمانول میکرون کی اپنی گھریلو صورت حال کی وضاحت کر دی ہے، اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مستحکم حالت میں نہیں ہے تو عالمی سطح پر وہ کتنا طاقتور ہو سکتا ہے۔ اب چاہے اسرائیل غزہ کے ستر فیصد رقبے پر قبضہ کرے یا نہیں، کیا اس کی حالت بھی ایمانول میکرون کی طرح ہے؟

سات کا ہندسہ اپنے اندر ایک تاثر رکھتا ہے۔ انشااللہ اس پر پھر بات ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • انسانیت کیخلاف جرائم، شیخ حسینہ واجد پر فرد جرم عائد
  • انسانیت کے نام محبت الٰہی کا پیغام
  • انسانیت کیخلاف جرائم کا مقدمہ، سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد پر فرد جرم عائد کردی گئی
  • حقیقتیں
  • ’’انصاف‘‘
  • جنگی اذیتیں
  • اسرائیل کیجانب سے انسانیت سوز اقدامات کے بے رحمانہ ارتکاب پر اقوام متحدہ کی عہدیدار سیخ پا
  • قومی کرکٹرز بھی بڑھتی لوڈشیڈنگ پر خاموش نہ رہ سکے، ٹوئٹر پر دلچسپ تبصرے
  • میں کسی یزید کے کہنے پر 3 سال تو کیا 3 منٹ بھی خاموش نہیں رہوں گا
  • یوکرینی شہر کیرسون پر روسی ڈرون حملے انسانیت کے خلاف جرم، تحقیقاتی کمیشن