Islam Times:
2025-08-03@05:29:58 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اسلام ٹائمز: آج انسانیت کا مقدمہ انکی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.

com 

 یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔"  

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔۔۔۔کیونکہ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "انسانیت" کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے، جس نے "جمہوریت" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، "آزادی" کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا اور "انسانی حقوق" کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی، جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر "حقوقِ بشر" کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں ۹/۱۱ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "Holocaust Memorial" بنایا، مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں؟ اور افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔۔۔۔۔ وہ امت جو "وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم" کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا، جو ہمیں رسولِ کریمﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ "پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام" کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں "ایران اور یمن" کی کارروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔"

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرتے ہیں رہے ہیں رہی ہے یہ وہی کے نام

پڑھیں:

غزہ میں بھوک کا راج ہے!

جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
امریکہ سے

اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سفید جھوٹ بولا کہ غزہ میں غذائی قلت کا کوئی مسئلہ نہیں جب کہ اس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ٹی وی اسکرین پہ نظر آنے والے بھوک سے نڈھال بچے اداکاری نہیں کر رہے بلکہ غزہ میں غذائی بحران واضح نظر آرہا ہے۔ افسوس کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے حل کے بارے میں کوئی تجویز نہیں دی جبکہ غزہ میں خوراک کے حصول کی کوشش بمباری جیسی جان لیوا ہو گئی ہے، جہاں اقوام متحدہ کے عملے کی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے والی اطلاعات نے شہریوں کے بقا کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے انروا کے مطابق غزہ میں طبی عملے صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت سبھی بھوک اور تھکاوٹ سے نڈہال ہیں۔ خوراک کی تقسیم کے لیے غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے قائم کردہ مراکزگویا موت کا پھندہ بن گئے ہیں، جہاں نشانہ باز لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں جیسے انہیں ہلاک کرنے کا لائسنس ملا ہو،ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل کا قائم کردہ یہ متبادل امدادی نظام دراصل بڑے پیمانے پر لوگوں کو شکار کرنے کا منصوبہ ہے، جس پر کسی سے باز پرس نہیں ہوتی ۔اس صورتحال کو نیا معمول بنانے نہیں دیا جا سکتا ۔امداد کی تقسیم کرائے کے فوجیوں کا کام نہیں ۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق او ایچ سی ایچ ار کے مطابق 21مئی کو غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر امدادی تقسیم شروع ہونے کے بعد وہاں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں 1000زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ 21جولائی تک خوراک کے حصول کی کوشش میں 1,054لوگوں کی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ ان میں 766 غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر ہلاک ہوئے جبکہ 288شہری اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے اور دیگر واقعات میں مارے گئے۔ غزہ میں رہن سہن کے حالات بدترین صورت اختیار کر چکے ہیں، جہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء 4000فیصد تک مہنگی ہو گئی ہیں۔ گھر بار کھونے اور کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ علاقے کی تقریبا تمام آبادی کا انحصار امدادی خوراک پر ہے جس کا حصول زندگی کا خطرہ مول لیے بغیر ممکن نہیں ۔عالمی پروگرام برائے خوراک ڈبلیو ایف پی کے مطابق غزہ کی ایک چوتھائی آبادی کوقحط جیسے حالات کا سامنا ہے، جہاں تقریبا ایک لاکھ خواتین اور بچے انتہائی شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں جنہیں فوری علاج معالجے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ڈائپر کی قیمت تین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ ان حالات میں بیشتر مائیں پولی تھین کے بیگ استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں امدادی کارروائیاں مزید سکڑ گئی ہیں۔ ادارے کی عمارتوں پر تین حملے کیے گئے جبکہ وہاں پناہ لیے لوگوں سے بدسلوکی کی گئی اور ایک بڑے گودام کو تباہ کر دیا گیا۔ اسرائیل کی فوج ڈبلیو ایچ او کی عمارت میں بھی داخل ہو گئی ،جس سے عملے اور بچوں سمیت ان کے خاندانوں کو سنگین خطرے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ساحلی شہر المواسی کی جانب پیدل نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ۔عملے کے ارکان کوبرہنہ کر کے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کی تلاشی لی گئی اور ایک رکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر تاحال زیر حراست ہے۔ تصور کریں 21ماہ سے جاری جنگ میں تقریبا ڈیڑھ ہزار طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں اور 94فیصد طبی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ نصف ہسپتال غیر فعال ہو گئے ہیں۔ 18مارچ کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے ہنگامی طبی مدد پہنچانے والی بیشتر ٹیموں کو غزہ میں آنے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے جن لوگوں کے ویزے مسترد کیے گئے ان میں 58غیر ملکی معالجین شامل ہیں۔ انروا کے کمشنر جنرل فلپ لار ارینی کو مارچ 2024میں غزہ آنے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں نہ تو دوبارہ علاقے میں آنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی انہیں مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے لیے ویزا جاری کیا گیا۔ انہوں نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقائق سے آگاہی کے لیے صحافیوں کو غزہ میں رسائی ملنی چاہیے تاکہ علاقے کی ہولناک صورتحال دنیا کے سامنے ا سکے۔ غزہ میں فری لانس فلسطینی صحافیوں کو زمینی حقائق رپورٹ کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ کا میدان ہو یا اور کوئی طوفانی صورتحال صحافی اپنی جان پہ کھیل کر بے خبر لوگوں کو باخبر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ خبر دینے والے صحافی خود خبر بن گئے ہیں ۔اس وقت فلسطینی صحافیوں کو جن بحرانوں کا سامنا ہے، اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ کس طرح اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اکثر ان کے دو یا اس سے بھی زیادہ دن بغیر کچھ کھائے گزر جاتے ہیں ۔اس پورے عرصے میں اپنے کیمرے بند نہیں کیے اور اہم فوٹیج بھیجتے رہے ،یہاں تک کہ ان دنوں میں بھی جب ان کے قریبی رشتہ دار مارے گئے۔ ان کے گھر بار ان سے چھین لیے گئے یا وہ اپنے خاندانوں سمیت اسرائیلی فوجی پیش قدمی کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ دربدر ہوتے رہے۔ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے یہ صحافی بری طرح زخمی بھی ہو چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ حالیہ وقت میں جو گزر رہا ہے وہ سب سے مشکل ہے ۔یہ مصائب اور محرومیوں کا بہت بڑا بحران ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مسلسل سوچتے رہتے ہیں کہ اپنے خاندان کے لیے خوراک کیسے حاصل کریں۔ وہ کھانا اور پانی مانگتے ہیں اور ہم اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں جو بھی پانی ملتا ہے وہ آلودہ ہوتا ہے۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں کام کرنے والے مقامی فری لانس صحافیوں کی خیریت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں ۔کئی مہینوں سے یہ آزاد صحافی غزہ میں زمین پر دنیا کی آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں ۔انہیں اب انہی سنگین حالات کا سامنا ہے جن کو وہ کور کر رہے ہیں۔ ان صحافیوں نے زمینی حقائق کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا اگرچہ جنگ کے دوران خوراک کی قلت ایک مستقل مسئلہ رہی ہے لیکن اس سے قبل جو لوگ باہر سے تنخواہیں وصول کرتے تھے، وہ مقامی مارکیٹوں سے بنیادی ضرورت کا سامان خرید سکتے تھے۔ اگرچہ وہ انہیں بہت زیادہ مہنگا ملتا تھا تاہم اب تو وہ بازار بھی کافی حد تک خالی نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے پانی میں تھوڑا سا نمک ملا کر پینا شروع کر دیا۔
برطانیہ سمیت 28 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے اور امداد کی ڈرپ فیڈنگ بند کرے ۔100سے زیادہ امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپ نے کہا کہ اب سپلائی مکمل طور پر ختم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی تنظیمیں اپنے ساتھیوں اورشراکت داروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے دیکھ رہی ہیں۔ صحافی جنگی علاقوں میں بہت سی محرومیوں اور مشکلات کو برداشت کرتے ہیں۔ ہمیں شدید تشویش ہے کہ بھوک کا خطرہ بھی اب ان میں سے ایک ہے۔ انٹیگرینڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی آئی پی سی نے ایک انتباہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس وقت قحط کی بدترین صورتحال چل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ جائزے کے انتبا ہ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بھوک غذائیت کی کمی اور بیماریاں بھوک سے متعلق اموات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ غزہ کی تقریبا 2.1ملین فلسطینیوں کی آبادی قحط کے سنگین خطرے سے دوچار ہے اور انہیں خوراک کے عدم تحفظ کی انتہائی سطح کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے واضح کہہ دیا ہے کہ غزہ میں بھوک کا راج ہے جو معصوم انسانی جانوں کو نگل رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے لیے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں لیکن اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • سات سچائیاں
  • جس روز قضا آئے گی
  • عمران خان کی کئی ماہ بعد بیٹوں سے فون پر بات کروا دی گئی
  • بچے دانی فورا نکلوا دیں!
  • غزہ کی صورت حال پر پوری دنیا کو بیدار ہونا پڑے گا، حاجی حنیف طیب
  • عمران خان کو قید تنہائی میں رکھنا آئین، قانون اور انسانیت کی توہین ہے، حلیم عادل شیخ
  • غزہ کی پٹی میں ابتر صورتحال "انسانیت کی تذلیل" ہے، سپین
  • ’ہم معذرت خواہ ہیں‘، پاکستانی شرٹ پہنے تماشائی کو نکالنے پر لنکاشائر نے معافی مانگ لی
  • حضورۖ کا خراجِ تحسین
  • غزہ میں بھوک کا راج ہے!