Islam Times:
2025-11-03@16:30:38 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اسلام ٹائمز: آج انسانیت کا مقدمہ انکی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.

com 

 یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔"  

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔۔۔۔کیونکہ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "انسانیت" کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے، جس نے "جمہوریت" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، "آزادی" کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا اور "انسانی حقوق" کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی، جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر "حقوقِ بشر" کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں ۹/۱۱ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "Holocaust Memorial" بنایا، مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں؟ اور افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔۔۔۔۔ وہ امت جو "وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم" کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا، جو ہمیں رسولِ کریمﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ "پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام" کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں "ایران اور یمن" کی کارروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔"

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرتے ہیں رہے ہیں رہی ہے یہ وہی کے نام

پڑھیں:

تاریخ کی نئی سمت

ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔

پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔

نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔ 

لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔

اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔

نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔

ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔

ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔

افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔

پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔

فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔

اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔

ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔

مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔

گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔

افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔

اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔

نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔

نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • مٹیاری وگردنواح میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا، پولیس خاموش
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد