Islam Times:
2025-06-16@16:21:43 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اسلام ٹائمز: آج انسانیت کا مقدمہ انکی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.

com 

 یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔"  

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔۔۔۔کیونکہ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "انسانیت" کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے، جس نے "جمہوریت" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، "آزادی" کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا اور "انسانی حقوق" کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی، جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر "حقوقِ بشر" کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں ۹/۱۱ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "Holocaust Memorial" بنایا، مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں؟ اور افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔۔۔۔۔ وہ امت جو "وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم" کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا، جو ہمیں رسولِ کریمﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ "پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام" کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں "ایران اور یمن" کی کارروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔"

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرتے ہیں رہے ہیں رہی ہے یہ وہی کے نام

پڑھیں:

بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہم بجٹ کا ڈی این اے تبدیل کریں گے تاہم ان کے اس فرمان کے باوجودوہ جو صبح شام مزدوری کرتا ہے، گلیوں میں ریڑھیاں لگاتا ہے، فیکٹریوں میں کام کرتا ہے، بجٹ 2025 میں اس کے لیے اتنا ہی ہے جتنا اسپتالوں میں بوتل بھر خون نکالنے کے بعد جوس کا ایک ڈبہ پکڑا دیا جاتا ہے۔ بجٹ کا ایک آنریری پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمارا بجٹ بناتے وقت بال اور بھویں مونڈنے کا اپنا شغف برقرار رکھا ہے۔ حکومت کے پاس گنجائش ہی نہیں تھی کہ اپنے ’’استعماری باوا‘‘ پر نظریں جمائے رکھنے کے علاوہ ادھر ادھر دیکھے۔ اس نیک چلنی کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو جس طرح فرہاد کی نظر سے دیکھے گا اس کے بعد 7 ملین ڈالر ملیں ہی ملیں۔ جس کے بعد ورلڈ بینک، سعودیہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور باقی دنیا سے بھی ہاتھ جوڑے بغیر قرض مل جائے گا۔ غریبوں کے کالے بال سفید ہو جائیں بجٹ میں اس کا پورا اہتمام موجود ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی طبیعت ایسی چونچال ہے جیسے غریب پر اس سے زیادہ احسان کسی نے کیا ہی نہ ہو:
ہم آخری گلاب ہیں دنیا کی شاخ پر
ترسیں گے ہم کو لوگ یہ اگلی بہار میں
اگر دل میں شریف برادران اور فوج سے بغض نہ ہو تو بجٹ کے معاملے میں حکومت کو کانٹوں پر گھسیٹنے اور دُر دُر ہُش ہُش کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں کیونکہ پچھلے عمرانی نیک بختوں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں تھا سوائے پاکستان کو دیوالیہ کرنے کے۔ شہباز حکومت کا یہی کارنامہ بہت بڑا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا لیکن بجٹ میں منظر نامے کو جتنا خوشگوار بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ غلط ہے، ایسا تب ہی ممکن ہے جب طوائف کے ہاتھ کی گلوری کھا کر دنیا کو دیکھا گیا ہو۔ ڈھائی تین فی صد جس گروتھ کا دعویٰ کیا گیا ہے اس پر سہرا بندھائی دینے کو دل کرتا ہے لیکن یہ غلط بیانی ہے، گروتھ حد سے حد ڈیڑھ فی صد تک پہنچی ہے۔ پانچ فی صد تک گروتھ لے جانے کے دعووںکا جہاں تک تعلق ہے حکومت کتنے ہی نئے اقدامات کرلے، قوانین منظور کرلے، دھمکیاں دے لے، سخت فیصلے کرلے، ٹیکس جمع، سبسڈیز کا خاتمہ اور اخراجات میں کٹوتیاں کرلے ایسا ممکن نہیں۔ گروتھ دو فی صد تک ممکن ہے۔
بجٹ پیش کرنے کے بعد اگلا مرحلہ بحث کا ہوتا ہے۔ بغیر بجٹ کے اپنی تنخواہوں میں چار سو فی صد اضافہ کرنے والے اراکین اسمبلی اب غریب ملازمین کی تنخواہیں دس فی صد بڑھانے پر بحث کریں گے۔ نوم چو مسکی نے کہا تھا ’’بجٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت کو اصل میں کیا چیز عزیز ہے‘‘۔ حکومت کو سب سے زیادہ عزیز غربت کا خاتمہ ہے۔ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں وزراء، اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکرز، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی غربت کا خاتمہ۔ جن کی تنخواہوں اور مراعات میں چار سو پانچ سو فی صد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نیک بختو! اسی بات سے تو حکومت کو گالی پڑتی ہے۔ عوام اور مڈل کلاس میڈیا کو اپنے پیچھے لگانے کی اس سے بہتر کوئی ترکیب نہیں۔ جن کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ جن کے لیے زندگی گزارنا ہارٹ اٹیک سے کچھ لمحے پہلے والی کیفیت ہوکر رہ گئی ہے۔ پھر حکومت نے غریبوں کے فائدے کی ہر چیز پر ٹیکس لگادیا ہے۔ بلکتے تڑپتے لوگوں نے بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے سولر لگوائے حکومت نے اس پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا۔ سولر سپلائرز سے جو بجلی حکومت 27 روپے فی یونٹ خریدتی اسے 10 روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے۔ بینکوں سے رقم نکلوانے پر بھی ٹیکس لگادیے گئے ہیں۔ آن لائن خریداری پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا گیا ہے۔
اراکین اسمبلی، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی تنخواہوں میں اضافے پر حکومت نے جو چنچل سُر لگایا ہے اس نے محفل کو مزید پھڑکا کر رکھ دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس اضافے کا نوٹس لے لیا ہے۔ سب کو علم ہے نوٹس تو نوٹس بورڈ پر ہی لگا رہے گا اضافہ چھم چھم کرتا بینکوں میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔ یہ نوٹس ایسا ہی ہے جیسے بارش کے بعد چھتری کھولنا۔ اگر نوٹس لینے ہی سے مسئلے حل ہوجاتے تو ڈاکٹر مریضوں کو دوائوں کے نسخے دینے کے بجائے نوٹس دیتے، ڈاکو واردات کے بعد مظلوموں کے ساتھ سیلفی لے کر ڈاکا ڈالنے پر افسوس کا اظہار کرتے، قصائی بکرا ذبح کرنے کے بعد بکرے کی آنکھ میں پائے جانے والے آنسو پر افسوس کرتے۔ کتنا ہی دانتوں اور ہونٹوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا جائے طوائفوں کے محلے میں کھائے گئے کباب اور پیاز کے بھبکے اور پان کا رچائو نہیں جاتا۔
بجٹ میں حکومت نے ایک اور بڑا کارنامہ جو انجام دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک غریب مزدور کوئی چیز خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ہے اور ایک ارب پتی خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کے ذریعے غریبوں اور امیروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ وہ ترکیب ہے جو کثرت استعمال سے گھس گھس کر استرا بن گئی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے روٹی پر بھی ٹیکس ہو اور سانس لینے پر بھی۔ امیر تو یہ ٹیکس با آسانی اداکرکے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن غریبوں کی زندگی ایک ایسی انوائس اور مالیاتی بل بن جاتی ہے جہاں ہر کام، ہر سانس، ہر نوالے، ہر حرکت، ہر خرید اور ہر استعمال پر ٹیکس دینا پڑتا ہے چاہے پیٹ کاٹ کردیں یا قرض لے کر۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس ہوں اور وہ بھی امیروں پر، استطاعت رکھنے والوں پر نہ کہ غریبوں پر۔
بجٹ بہروپ نگر کا وہ طلسم ہے جس کے بعد ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوتا ہے۔ ہر کوئی حکومت کے منہ پر کالک پوت رہا ہوتا ہے۔ ہم اس کالک اور بجٹ پر تبصروں کا کئی دن سے مطالعہ کررہے ہیں۔ تمام تبصروں میں آئی ایم ایف، عوام کے معاشی گلا گھونٹنے، اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں، حکمرانون کی عیاشیوں، مہنگائی، غربت میں اضافے، قرض، کرپشن، اشرافیہ کی سہولتوں میں اضافے، حکمران طبقے کی تنخواہوں میں اضافے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ظلم وستم کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہیں بھی حتیٰ کہ دینی جماعتوں کے بیش تر تبصروں میں بھی 8200 ارب روپے کے سود کی مد میں ادائیگیوں پر کم ہی لعن طعن کی گئی تھی جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ سود کوئی چھوٹا گناہ نہیں ہے۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں روزانہ پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائوں میں مسلمانوں کو فلاح کے راستے کی نشاندہی کی جارہی ہو وہاں حکمران اتنا بڑا گناہ کررہے ہوں اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کررہے ہوں۔ یہ پہلی حکومت نہیں ہے جو ایسا کررہی ہے۔ حکومتیں فوجی ہو یا سویلین سب اس گناہ میں لتھڑی ہوئی ہیں۔
چھوٹے چھوٹے مسائل، فروعی اختلافات پر خوب بحثیں چل رہی ہوتی ہیں فتوی بٹ رہے ہوتے ہیں لیکن اتنے گھنائونے جرم پر کہیں کوئی تحریک نہیں۔ خاموشی ہی خا موشی۔ جیسے سود کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ایسے میں عالمی معاہدوں میں سود کی ادائیگی کی مجبوری کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے کسی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی پر مبنی ہو۔ سود کے لیے یہ جواز دینا شرعاً ناجائز ہے۔ اگر ہماری حکومتیں ملک کی معیشت درست کرنا چاہتی ہیں تو اللہ کی آخری کتاب کی اس آیت پر غور کریں کہ ’’جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا میں اس کی معیشت تنگ کردوں گا‘‘۔ (طہ: 124) یہ ممکن نہیں کہ ایک ایسا بجٹ جس میں 47 فی صد اخراجات اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے مختص ہوں وہ ملک وقوم کو فلاح دے سکے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمنی: شامی ڈاکٹر کو انسانیت کے خلاف جرائم پر عمر قید‍
  • جب انصاف کا ترازو جھک جائے، تو امن صرف ایک دھوکہ رہ جاتا ہے، مشعال ملک
  • اسرائیلی حملے کی صرف مذمت نہیں بلکہ ہم ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہے ہیں، فضل الرحمان
  • ساحر
  • بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
  • اسرائیل اسلامی دنیا میں ناسور کی حیثیت رکھتا ہے: فضل الرحمٰن
  • بجٹ اور ہم
  • ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے
  • سنت ابراہیمی
  • اسرائیل کی انسانیت کش کاروائیوں سے پوری دنیا کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہے، سول سوسائٹی ملتان