اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2025ء) علم کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ نئے خیالات اور افکار کے ذریعے معاشرے میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ تاریخ میں قدیم دور سے موجودہ زمانے تک ہم علم کو ایک دوسری شکل میں بھی دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی ایک طبقہ اِس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لے تو اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے طبقوں کو اس سے محروم رکھتے ہوئے اور اُن پر حکومت کر کے انہیں ماتحت بنا کر رکھا جائے۔
ہندوستان میں برہمن ذات کا علم پر تسلط تھا۔ وہ پیدائش سے لے کر موت تک تمام مذہبی رسومات ادا کرتی تھیں جبکہ باقی ذاتیں اُن کے زیرِ نگیں ہوتی تھیں۔ برہمن کے علاوہ دوسری ذاتوں کو ویدوں کا علم حاصل کرنا ممنوع تھا۔ برہمنوں کے علاوہ بَنیوں، مہاجن، سُود خور اور سرکاری عہدیداروں کا مذہبی علم پر تسلّط تھا۔
(جاری ہے)
وہ عام لوگوں کی جہالت سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ہی کھاتوں میں قرض۔
سود پر دی ہوئی رقم کا غلط اندراج کر کے اُن سے سالہا سال ادائیگی کی رقم وصول کرتے تھے۔ سرکاری عہدیداراں لگان اور دوسرے ٹیکسوں سے عوام کی محنت سے کمائی ہوئی رقم کو اپنے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے وصول کرتے تھے۔یورپی مُلکوں میں بھی فیوڈل لارڈز کسانوں کو دیے گئے ٹیکس اور لگان کی رقم کو رجسٹروں میں لکھتے تھے۔ جن کی ادائیگی کسانوں پر قانونی طور پر فرض تھی۔
تاہم جب بھی کسان بغاوت کرتے تھے تو وہ فیوڈل لارڈز کے محلوں پر حملہ کر کے قرض کے رجسٹروں کو جلا دیتے تھے۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب میں جب دیہاتوں میں بغاوتیں ہوئیں تو باغیوں نے نہ صرف فیوڈل لارڈز کے محلات کو جلایا بلکہ اُن رجسٹروں کو بھی جلا دیا جن پر اُن کے قرضوں کی تفصیل درج تھی۔حکمراں طبقہ اُس علم سے بھی خوفزدہ رہتا تھا جو اُن کے نظامِ اقتدار کو بدلنے کی بات کرتا تھا۔
ایسے مصنفوں کی کتابوں اور تحریروں کو مِٹا دیا گیا اور صرف اُس علم کی سرپرستی کی گئی جس نے ریاستی اداروں کو تحفظ دیا۔ اِن ریاستی دانشوروں میں مورخ فلسفی، شاعر، ادیب اور آرٹسٹ شامل تھے۔ یورپ میں اس علم کو روکنے کے لیے اُن کی اشاعت پر پابندیاں لگائی گئیں۔ پرنٹنگ پریس جو ایسے اِنقلابی مواد چھاپتی تھیں اُن کو بھی بند کر دیا گیا۔1815ء میں نیپولین کی شکست کے بعد یورپ میں یہ قانون پاس ہوا کہ طالبعلم لائبریری سے جو کتابیں پڑھنے کے لیے حاصل کرے ان کی فہرست بنائی جائے۔
علم پر پابندی کا یہ ماڈل ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکی مُلکوں کے آمروں نے استعمال کیا اور صرف اُس علم کو قائم رکھا، جو اُن کے نظریات کی حمایت کرتا تھا۔ اس کے دو نتائج نکلے۔ ایک علم کی آزادی پر پابندی لگی اور معاشرے ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ جن مُلکوں میں علمی آزادی تھی۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور تخلیقی علم کی وجہ سے دوسری قوموں پر اپنی ذہنی برتری کو برقرار رکھا۔علم کے ساتھ ہی عام طور سے عقل اور دلیل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی دلیل، عقل اور عقیدے کے درمیان فرق کو قائم کیا جاتا ہے اور اس پر زور دیا جاتا ہے کہ فیصلے عقل اور دلیل سے کرنے چاہییں، لیکن یورپی سامراج نے عقل اور دلیل کو نئے مفہوم کے ساتھ اُسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً جب امریکہ میں ریڈ انڈین کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا تو یہ دلیل دی گئی کہ چونکہ وہ اس قابل نہیں کہ خالی زمینوں پر کاشتکاری کر سکیں اور اس لیے یورپی لوگوں کے لیے زمینوں پر قبضہ کرنا اور اُنہیں قابلِ کاشت بنانا، ترقی کے لیے ضروری ہے۔
جب یورپی سامراج ایشیا اور افریقہ میں آئے تو یہاں یہ دلیل دی گئی کہ یہ مُلک تہذیبی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ یورپی سامراج اِنہیں مہذب بنائے گا۔ اس دلیل کے تحت اُنہوں نے اپنے سامراجی اقتدار کو جائز قرار دے دیا۔ سامراجی اقتدار میں مشنریز بھی آئے۔ مسیحی مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے اُن کی دلیل یہ تھی کہ اس مذہب نے یورپ کی اقوام کو مُہذب اور ترقی یافتہ بنایا۔
جبکہ ایشیا اور افریقہ کے مذاہب تعصّبات اور تہمات کا مجموعہ ہیں، اور اسی لیے یہ اُن کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ لہٰذا ان کے مذہب کو تبدیل کر کے اِنہیں مہذب قوم بنانے کی ضرورت ہے۔عِلم اور عقل اور دلیل کے اِس تجزیے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن کی کوئی ایک جامع تاریخ ممکن نہیں ہے۔ طاقتور اقوام اِنہیں نئے معنی دے کر اپنے مُفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اخلاقی قدریں ہیں جو طاقتور قوموں کو کمزورں پر استحصال سے روک سکیں؟۔ اب تک تاریخ نے اخلاقیات میں نہ ناانصافی کو روکا ہے نہ ہی ظُلم و ستم کو، اور نہ قتل و غارت گری کو۔ اِن کو جائز ثابت کرنے کے لیے، عقل اور دلیل کو ایک نئے مفہوم میں پیش کیا جاتا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عقل اور دلیل کے لیے ا نہیں
پڑھیں:
رشتہ ایک سرد مہری کا
وہ کڑیل جوان اچانک پسینے سے شرابور، دل کی دھڑکن قابو سے باہر، گھر میں کہرام، بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے۔ دوا دی گئی، کوئی اثر نہیں ہوا، دوسری دوا دی گئی۔ دھڑکن کچھ تھمی اور رگوں پر خون کا پریشر کچھ کم ہوا۔ لیکن یہ کیا، تھوڑی دیر بعد الٹیاں شروع ہوگئیں، تازہ تازہ خون سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اور دواؤں کے پے در پے ادوار شاید زندگی پر چلنے والے کلہاڑے کے وار ثابت ہوئے۔
وہ کل جو اس وقت زندگی کے شور میں ہنس اور دوسروں کو ہنسا رہا تھا، آج سرد پڑا ہے۔ آنکھیں ٹنگی ہیں، ہر طرف خاموشی ہے۔ اس کا مردہ جسم شفا خانے میں رسمی کاروائی کا منتظر ہے۔ انسانی مشاہدات تو درکنار، ڈاکٹر یا نرس کے کہنے پر بھی اسپتال کے کاغذات اس بے جان جسم کو مردہ نہیں کہتے۔ دل کی بند دھڑکنوں کو مشینوں پر چیک کرکے روح کے نکل جانے کا اعلان باقی ہے۔ اس چیکنگ کی فیس اور لاکھوں کے تاوان ادا کرکے احساس کے قید خانے میں ضبط کی ہوئی لاش لے جائی جاسکتی ہے۔
کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا؟ کیا اس جوان کو بچایا جاسکتا تھا؟ معلومات اور خیالات کی زنجیر میں کیا کیا خلا ہیں۔ علم سے دانشمندی کی کشید میں کہاں کہاں آلودگی ہے، کہاں کہاں ملاوٹ ہے۔ اس سفر میں کہاں کہاں سیاہ دھبے ہیں، راستوں میں کہاں کہاں پر گھپ اندھیرا ہے۔ کہاں کہاں خندقیں بنائی گئی ہیں، کہاں کہاں گڑھے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلی دوا نے اثر نہیں کیا، کہیں دوا نے مہلک اثر تو نہیں کیا۔ راقم عہد وفا میں خاموش ہے۔
امریکا دنیا کا طاقتور ملک، سائنس کے افق پر حکومت کرنے والا ملک، جہاں سر توڑ کوشش کے باوجود سال 2024 میں 900 سے کم جنیرک ادویات استعمال کےلیے منظور ہوئیں۔ وہاں ادویات کے لیبل پر لکھے گئے وعدوں کی نگہبانی حکومت کے ادارے کرتے ہیں۔ دواؤں سے منسلک دعووں کو پرکھنے کےلیے ہزاروں پیشہ ور افراد مامور ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ 2024 میں کسی آزاد وطن میں 15000 سے زائد جنیرک ادویات رجسٹرڈ کی گئیں۔ ان میں سے ایک بھی ترقی یافتہ ملک میں منظور نہیں ہوئیں۔ نہ ہی کسی نے منظوری کی درخواست جمع کرانے کی ہمت کی اور نہ ہی کسی دنیا کے ضامنوں نے اس قابل سمجھا کہ ان تک پہنچے۔
ترتیب پانے والی غیبی آواز سے بے اعتنائی کا حوصلہ نہیں۔ اس دشت کی سیاحی میں زندگی گزر گئی، اپنے مسقبل سے بے نیاز ہمارے خیالات میں جارحانہ پن حاوی رہا اور انصاف کی پیروی میں لوٹ مار کے خلاف ہمارے خواب صف آرا ہی رہے۔ ہر طرف خاموشی ہے، سناٹا ہے، گم صم ہیں۔ میسنے اور گھنے کا ہجوم ہے۔ سچ کہنے پر دشمنی پر اتر آتے ہیں، کردار کشی کرنے کےلیے محاذ بناتے ہیں۔ مجرے کراتے ہیں، پیسے لٹاتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ ادویات اگر ناقص ہوں تو کسی کی روح ایسے نکلتی ہے جیسے سڑک پر آوارہ کتے کی لاش تڑپ رہی ہو اور گاڑیوں میں موسیقی کی دھن اور اپنی دھن میں مست رواں دواں۔ دواؤں کی اور جنیرک دواؤں کی بھرمار، مگر جان کی قیمت کون پوچھے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔