UrduPoint:
2025-07-26@15:26:26 GMT

علم پر اجارہ داری کے نقصانات

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

علم پر اجارہ داری کے نقصانات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2025ء) علم کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ نئے خیالات اور افکار کے ذریعے معاشرے میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ تاریخ میں قدیم دور سے موجودہ زمانے تک ہم علم کو ایک دوسری شکل میں بھی دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی ایک طبقہ اِس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لے تو اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے طبقوں کو اس سے محروم رکھتے ہوئے اور اُن پر حکومت کر کے انہیں ماتحت بنا کر رکھا جائے۔

ہندوستان میں برہمن ذات کا علم پر تسلط تھا۔ وہ پیدائش سے لے کر موت تک تمام مذہبی رسومات ادا کرتی تھیں جبکہ باقی ذاتیں اُن کے زیرِ نگیں ہوتی تھیں۔ برہمن کے علاوہ دوسری ذاتوں کو ویدوں کا علم حاصل کرنا ممنوع تھا۔ برہمنوں کے علاوہ بَنیوں، مہاجن، سُود خور اور سرکاری عہدیداروں کا مذہبی علم پر تسلّط تھا۔

(جاری ہے)

وہ عام لوگوں کی جہالت سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ہی کھاتوں میں قرض۔

سود پر دی ہوئی رقم کا غلط اندراج کر کے اُن سے سالہا سال ادائیگی کی رقم وصول کرتے تھے۔ سرکاری عہدیداراں لگان اور دوسرے ٹیکسوں سے عوام کی محنت سے کمائی ہوئی رقم کو اپنے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے وصول کرتے تھے۔

یورپی مُلکوں میں بھی فیوڈل لارڈز کسانوں کو دیے گئے ٹیکس اور لگان کی رقم کو رجسٹروں میں لکھتے تھے۔ جن کی ادائیگی کسانوں پر قانونی طور پر فرض تھی۔

تاہم جب بھی کسان بغاوت کرتے تھے تو وہ فیوڈل لارڈز کے محلوں پر حملہ کر کے قرض کے رجسٹروں کو جلا دیتے تھے۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب میں جب دیہاتوں میں بغاوتیں ہوئیں تو باغیوں نے نہ صرف فیوڈل لارڈز کے محلات کو جلایا بلکہ اُن رجسٹروں کو بھی جلا دیا جن پر اُن کے قرضوں کی تفصیل درج تھی۔

حکمراں طبقہ اُس علم سے بھی خوفزدہ رہتا تھا جو اُن کے نظامِ اقتدار کو بدلنے کی بات کرتا تھا۔

ایسے مصنفوں کی کتابوں اور تحریروں کو مِٹا دیا گیا اور صرف اُس علم کی سرپرستی کی گئی جس نے ریاستی اداروں کو تحفظ دیا۔ اِن ریاستی دانشوروں میں مورخ فلسفی، شاعر، ادیب اور آرٹسٹ شامل تھے۔ یورپ میں اس علم کو روکنے کے لیے اُن کی اشاعت پر پابندیاں لگائی گئیں۔ پرنٹنگ پریس جو ایسے اِنقلابی مواد چھاپتی تھیں اُن کو بھی بند کر دیا گیا۔

1815ء میں نیپولین کی شکست کے بعد یورپ میں یہ قانون پاس ہوا کہ طالبعلم لائبریری سے جو کتابیں پڑھنے کے لیے حاصل کرے ان کی فہرست بنائی جائے۔

علم پر پابندی کا یہ ماڈل ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکی مُلکوں کے آمروں نے استعمال کیا اور صرف اُس علم کو قائم رکھا، جو اُن کے نظریات کی حمایت کرتا تھا۔ اس کے دو نتائج نکلے۔ ایک علم کی آزادی پر پابندی لگی اور معاشرے ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ جن مُلکوں میں علمی آزادی تھی۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور تخلیقی علم کی وجہ سے دوسری قوموں پر اپنی ذہنی برتری کو برقرار رکھا۔

علم کے ساتھ ہی عام طور سے عقل اور دلیل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی دلیل، عقل اور عقیدے کے درمیان فرق کو قائم کیا جاتا ہے اور اس پر زور دیا جاتا ہے کہ فیصلے عقل اور دلیل سے کرنے چاہییں، لیکن یورپی سامراج نے عقل اور دلیل کو نئے مفہوم کے ساتھ اُسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً جب امریکہ میں ریڈ انڈین کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا تو یہ دلیل دی گئی کہ چونکہ وہ اس قابل نہیں کہ خالی زمینوں پر کاشتکاری کر سکیں اور اس لیے یورپی لوگوں کے لیے زمینوں پر قبضہ کرنا اور اُنہیں قابلِ کاشت بنانا، ترقی کے لیے ضروری ہے۔

جب یورپی سامراج ایشیا اور افریقہ میں آئے تو یہاں یہ دلیل دی گئی کہ یہ مُلک تہذیبی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ یورپی سامراج اِنہیں مہذب بنائے گا۔ اس دلیل کے تحت اُنہوں نے اپنے سامراجی اقتدار کو جائز قرار دے دیا۔ سامراجی اقتدار میں مشنریز بھی آئے۔ مسیحی مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے اُن کی دلیل یہ تھی کہ اس مذہب نے یورپ کی اقوام کو مُہذب اور ترقی یافتہ بنایا۔

جبکہ ایشیا اور افریقہ کے مذاہب تعصّبات اور تہمات کا مجموعہ ہیں، اور اسی لیے یہ اُن کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ لہٰذا ان کے مذہب کو تبدیل کر کے اِنہیں مہذب قوم بنانے کی ضرورت ہے۔

عِلم اور عقل اور دلیل کے اِس تجزیے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن کی کوئی ایک جامع تاریخ ممکن نہیں ہے۔ طاقتور اقوام اِنہیں نئے معنی دے کر اپنے مُفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اخلاقی قدریں ہیں جو طاقتور قوموں کو کمزورں پر استحصال سے روک سکیں؟۔ اب تک تاریخ نے اخلاقیات میں نہ ناانصافی کو روکا ہے نہ ہی ظُلم و ستم کو، اور نہ قتل و غارت گری کو۔ اِن کو جائز ثابت کرنے کے لیے، عقل اور دلیل کو ایک نئے مفہوم میں پیش کیا جاتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عقل اور دلیل کے لیے ا نہیں

پڑھیں:

عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 جولائی 2025ء) ندیم افضل چن نے اعتراف کیا ہے کہ عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے، سوشل میڈیا پر ہماری ویڈیوز پر عوام نے گالیاں لکھی ہوتی ہیں، ہم سیاستدان تو شطرنج کے پیادے ہیں اصل حکمران تو کوئی اور ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے، ہم جب شو کر کے جاتے ہیں اور اس کا کلپ سوشل میڈیا پر آتا ہے تو نیچے عوام نے گالیاں لکھی ہوتی ہیں، تو کیا اب ہر ایک گھر جا کر لوگوں کو مارو گے؟ ہم سیاستدان تو شطرنج کے پیادے ہیں اصل حکمران تو کوئی اور ہے۔

بانی تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جیل میں ہونے والے مبینہ ابتر سلوک کے حوالے سے ندیم افضل چن نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ عدل نہیں ہو رہا ہے، محرم کا مہینہ ہے، اور جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اس وقت بالکل عدل نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعطم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ کرپشن انتہا کو پہنچ گئی۔

مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال گزرنے کے بعد اب نو مئی کے فیصلے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ اس طرح کے فیصلے پہلے بھی اس ملک میں آئے، نہ انہیں سیاستدان قبول کرتے ہیں اور نہ ہی قانون دان مانتے ہین، نو مئی بڑا واقعہ ہے لیکن جب دو سال گزر جائیں تو کوئی فیصلے قبول نہیں کرے گا، جس ملک کا چیف جسٹس آئینی درخواست سُن ہی نہ سکتا ہو تو وہاں پر پھر کون سا انصاف رہ گیا ہے؟ اور جس ملک میں قانون نہ ہو وہ نہیں چلتا یہ تاریخ کا سبق ہے۔

سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ بے شک سارے اختیارات اپنے پاس رکھ لیں، 26 کے بعد 27 ویں ترمیم کر لیں لیکن اگر صلاحیت نہیں تو ملک نہیں چلا سکتے، حکومت ناکام ہے اور اسے خود اپنے آپ سے چیلنج ہے، یہ جتنے برس بھی رہیں ملک آگے نہیں بڑھے گا، آج جتنے چیلنجز پاکستان کو درپیش ہیں یہ پہلے کبھی نہیں تھے، ملک کو آگے لے جانے کی بات کریں کیوں کہ ملک اس وقت ترقی نہیں کر رہا، سیاسی ڈائیلاگ کریں جس میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کرپشن حد سے زیادہ ہے گورننس نہیں ہے، پنجاب کی حقیقت بھی وہی ہے جو باقی صوبوں کی ہے، ایک بات ہوئی کہ سفارش کا خاتمہ ہوگیا، درحقیقت کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے، اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ اب سیدھا پیسے لگائیں، انصاف بھی پیسے سے ملتا ہے، پولیس، گورننس اور ترقیاتی کام سب پیسے سے ہے، ماضی میں گیس ڈویلپمنٹ چارجز لگائے 6 سو ارب حکومت کو چلے گئے، کاربن لیوی بھی یہی ہے، معاشی اعشارے اسٹاک مارکیٹ غریب کی میز پر کھانا نہیں رکھتے، ترقی نہیں ہو رہی تو ملک آگے نہیں جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • اک چادر میلی سی
  • رائے عامہ
  • ملک بھر میں ماہ صفر کا چاند نظر نہیں آیا
  • عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • پنجاب: بارشوں کے دوران 143 شہری جاں بحق، سیکڑوں زخمی
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • بارشیں اور حکومتی ذمے داری