راولپنڈی ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) سربراہ عوامی مسلم لیگ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے دعا کریں روشنی ہو جائے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 36 ہزار مقدمات 4 ماہ میں کیسے مکمل ہوں گے؟ ان مقدمات کا 4 ماہ میں پایہ تکمیل تک پہنچانا کافی مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دکانداروں اور تاجروں کے کاروبار میں کمزوری آگئی ہے، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے دعا کریں کہ روشنی ہو جائے، اللہ تعالیٰ پاکستان اور اس کے عوام کیلئے بہتری کے حالات پیدا کرے، مقدمات میں نامزد 36 ہزار لوگوں کیلئے انصاف ہو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو میری طرح یہاں موجود بھی نہیں تھے لیکن ان کا نام لسٹ میں شامل کیا گیا۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاف دے گا اور انصاف آسمانوں سے آتا ہے بہت جلد انصاف کی فتح ہوگی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو سانحہ 9 مئی 2023ءسے متعلق کیسز کا روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کر کے 4 ماہ کے اندر اندر فیصلے جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے ہر 15 دن کی پیش رفت رپورٹ متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو پیش کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔

عمران خان نے پی آئی اے کو تباہ کیا، شہباز شریف نے منافع بخش بنایا: خواجہ آصف

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

’’انصاف‘‘

نور مقدم کا مقدمہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف ایک لڑکی کی زندگی کے چراغ گل ہونے کی کہانی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اس سماجی عدالتی اور اخلاقی بربادی کو دیکھ سکتے ہیں جس پر صدیوں سے گرد جمی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انصاف ہوگیا۔ ہمیں کہا گیا کہ قاتل کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی ہے، لیکن اس فیصلے میں وہ ریمارکس بھی ثبت ہو چکے ہیں جو مظلوم کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں اور مجرم کو بالواسطہ ہی سہی ایک بگاڑ کا شکار نوجوان کہہ کرگویا معذور قرار دیتے ہیں؟

جب اس طرح کی رائے سامنے آئے کہ ’’ لڑکی کو بچنے کا موقع ملا، اسے بھاگ جانا چاہیے تھا‘‘ تو یہ کسی مجرم کو فائدہ دینے والی دلیل ہے حالانکہ ایک نہتی لڑکی، ایک نہتی عورت جب کسی جگہ قید ہوتی ہے، جب اس کے پاس بھاگنے کی راہیں مسدود کردی جاتی ہیں، جب اسے جسمانی ذہنی اور نفسیاتی اذیت دی جاتی ہے تب وہ کیسے فرار ہو سکتی ہے؟

ہم ایک ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت کا جسم اس کی آواز اس کی مرضی اور اس کی موت تک کو مشکوک سمجھا جاتا ہے، وہ اگر چُپ رہتی ہے تو اس پر الزام ہے۔ وہ بولتی ہے تو گستاخ ٹھہرتی ہے۔ وہ عدالت جاتی ہے تو کٹہرے میں خود ہی کھڑی ہوتی ہے اور جب وہ قتل ہو جاتی ہے تو اس کے بھاگ نہ سکنے پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔

یہ ہماری ہر اس بیٹی کی پکار ہے جو اس سماج میں سانس لیتی ہے، جسے کبھی غیرت کے نام پر مارا جاتا ہے کبھی ونی کردیا جاتا ہے، کبھی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جب وہ انصاف مانگتی ہے تو اسے کردارکے آئینے میں پرکھا جاتا ہے۔ جس نظامِ عدل کو مظلوم کا سہارا ہونا چاہیے وہ اکثر و بیشتر طاقتورکا ہتھیار بن کر سامنے آتا ہے۔

ہم نے مختاراں مائی کو دیکھا، ہم نے قندیل بلوچ کی موت کو دیکھا اور ہم نے نور مقدم کا لہو بھی زمین پر بہتا دیکھا، لیکن کیا ہم نے ریاست، عدلیہ اور سماج کی جانب سے کسی اجتماعی توبہ ،کسی سچے خراج عقیدت یا کسی سنجیدہ اصلاحی قدم کو دیکھا؟ نہیں۔ کیونکہ اس نظام کی جڑوں میں وہ زہر موجود ہے جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ قانون جو طاقتور مرد کے سامنے جھکتا ہے، وہ ضابطے جو بااثر خاندانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں اور وہ فیصلے جو ظالم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اس سماج کی عورت کوکبھی انصاف نہیں دے سکتے۔

پاکستان کی اشرافیہ اور خاص طور پر مرد اشرافیہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ تصاویر تو بناتی ہے، انھیں سوشل میڈیا پر فخر سے ظاہرکرتی ہے لیکن جب کسی مجرم کا تعلق اس اشرافیہ سے ہوتا ہے تو پھر یہ پورا طبقہ انصاف کی راہوں میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بااثر امیر ملزمان کے گھر پر پولیس نہیں پہنچتی، ان کے خلاف بیانات بدل دیے جاتے ہیں اور ذہنی مریض ہونے کی جعلی گواہیاں عدالتوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ پھر بھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہے، سب برابر ہیں۔

کاش کہ یہ اندھا انصاف ایک لمحے کو وہ آنکھ کھولتا جو صرف عورتوں کے دکھ دیکھ سکے۔ ان کے زخموں کو محسوس کرسکے، ان کی چیخوں کو سن سکے۔ لیکن یہاں تو نظام انصاف بھی پدر سری نظام کے پروردہ ہے۔ وہ بھی وہی زبان بولتا ہے جو اس سماج کی گلی کوچوں میں عورت کے خلاف بولی جاتی ہے۔
انصاف صرف سزا دینے کا نام نہیں۔ انصاف سماجی سوچ بدلنے مظلوم کو سینے سے لگانے اور طاقتور کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا نام ہے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ عورت کے خلاف یہ جنگ صرف کسی ایک مجرم یا ایک کیس کی بات نہیں بلکہ پورے نظامِ ظلم کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے؟ یہ بغاوت ہم تبھی کامیابی سے کر سکیں گے جب ہم اپنی عدلیہ اپنے نظامِ تعلیم اپنے میڈیا اپنے گھروں اور مساجد میں عورت کو برابری کا درجہ دیں گے۔ جب ہم اس پدرسری ذہنیت کے خلاف علم بلند کریں گے جو عورت کو یا تو چادر میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہتی ہے یا بازار میں نیلام کرنا چاہتی ہے۔

عورت کی آزادی اس کے تحفظ اور اس کی عزت کا سوال صرف انسانی حقوق کا سوال نہیں بلکہ ایک سیاسی طبقاتی اور معاشی سوال بھی ہے۔ جب تک اس ملک کی اکثریتی غریب عورتیں، غربت، جہالت اور پدرسری کی تکون میں پھنسی رہیں گی، تب تک نور مقدم جیسے کیسز آتے رہیں گے اور عدلیہ انھیں صرف سزا دے کر بری الذمہ ہو جائے گی، ان زخموں کو بھرنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا۔

ہمیں انصاف چاہیے لیکن وہ انصاف جو عورت کی خاموشی کو آواز دے اس کے آنسوؤں کو عدالتی تحریروں میں شامل کرے اور ججوں کو یہ سکھائے کہ آپ کی کرسی پر بیٹھ کر آپ کے الفاظ بھی انصاف کے ترازو میں تولے جاتے ہیں، اگر آپ کا ایک ریمارک مجرم کو تقویت دے یا مظلوم کو مزید مجرم بنا دے تو وہ ریمارک صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک سند بن جاتا ہے۔

ہمیں آپ کو اور اس پورے سماج کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا ظالم کی زبان بولنے والوں کے ساتھ۔ کیونکہ تاریخ خاموش نہیں رہتی وہ ہر لفظ کو محفوظ کرتی ہے۔
ہم تمہیں یاد رکھیں گے، ہر اُس بیٹی کو جس کے خواب اس سماج نے تاریک راہوں میں دفن کیے اور ہم لڑیں گے اس دن تک جب تک انصاف واقعی انصاف بن کر عورت کے قدم چومے گا نہ کہ اس کے زخموں پر سوالیہ نشان بنے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • سیالکوٹ کے حلقہ پی پی 52 میں ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ جاری
  • خیبرپختونخوا کا دو ہزار ارب کا بجٹ 13 جون کو پیش کیا جائے گا
  • ’’انصاف‘‘
  • قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، راغب نعیمی
  • وزیراعظم کوئٹہ پہنچ گئے، امن و امان سے متعلق خصوصی جرگے میں شرکت کریں گے
  • شیخ رشید و دیگر ملزمان کیخلاف 9 مئی کے 11 مقدمات کی سماعت 12 جون تک ملتوی
  • سولر پینلز پر ٹیکس کی تجویز
  • قربانی کی فضیلت
  • عشرہ ذوالحجہ: فضیلت و اہمیت
  • جنہیں صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ ملے انہیں پھر عدالتوں سے سزا ہوئی: پرویز رشید