(گزشتہ سے پیوستہ)
ان بیانات کی گولہ باری کے بعد ایران کی خبررساں ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیاہے کہ فوجی مشقیں پیرکوخلیج عمان میں ’’چابہار بندرگاہ کے قریب جنوب مشرقی ایران میں شروع ہونے جارہی ہیں‘‘۔دوسری طرف چین عنقریب ایران اورروس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں شروع کرنے جارہاہے۔چینی وزارت دفاع نے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ مشقیں ایران کے قریب سمندر میں کی جائیں گی۔ان فوجی مشقوں میں نصف درجن ممالک بطورمبصرشریک ہوں گے جن میں آذربائیجان،جنوبی افریقا،پاکستان ، قطر، عراق یواے ای شامل ہیں۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان مشقوں کامقصدباہمی تعاون کوبڑھاناہے۔حالیہ برسوں میں ان تینوں ممالک کی فوجیں ایسی جنگی مشقیں کرتی رہی ہیں۔یہ فوجی مشق بحرہندکے شمال میں ہوں گی اوراس کامقصدخطے کی سلامتی اور شریک ممالک کے درمیان کثیرجہتی تعاون کوبڑھاناہے۔
یہ پہلاموقع نہیں ہے کہ ایران،روس اورچین ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کررہے ہوں۔یوکرین پرروس کے حملے کے بعدسے ایران اورچین پرروس کوفوجی مدد فراہم کرنے کاالزام لگ رہاہے۔ان ممالک کے درمیان فوجی مشقیں اس سے قبل مارچ 2024 ء میں اورتقریباً دوسال قبل مارچ2023ء میں بھی ہوئی تھیں اوردونوں باریہ مشقیں بحرہندکے شمال میں خلیج عمان کے قریب ہوئی تھیں۔ ایرانی بحریہ اور پاسداران انقلاب دونوں نے میرین سکیورٹی بیلٹ 2023ء اور 2024ء نامی فوجی مشقوں حصہ لیااوراس سے قبل بھی یہ تینوں ممالک ایسی فوجی مشقیں کرتے رہے ہیں۔ان مشقوں کے لئے اکثر مقامات کاانتخاب خلیج عمان کے قریب کیا جاتا ہے، جوخلیج فارس اورآبنائے ہرمزکے درمیان ہے۔ یہ سٹریٹیجک طورپرایک اہم آبی گزرگاہ ہے کیونکہ یہاں سے عالمی منڈیوں کوتیل فراہم کیاجاتاہے۔دنیا کے کل تیل کاتقریباپانچواں حصہ اسی راستے سے گزرتاہے۔
ان جنگی مشقوں کے جواب کے فوری بعدوائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوزنے ایک طرح سے ایران کودھمکی دیتے ہوئے کہا،ہمیں امیدہے کہ ایران اپنے عوام اورمفادات کودہشت گردی سے بالاتررکھے گا۔برائن ہیوزنے چندروز قبل ٹرمپ کے بیان کودہراتے ہوئے کہا کہ اگرہمیں فوجی کارروائی کرنی پڑی تویہ بہت براہوگا۔اس سے قبل ٹرمپ نے کہاتھاکہ ایران کو جوہری ہتھیاربنانے سے روکنے کے دوراستے ہیں’’فوجی طریقہ یاسمجھوتہ‘‘۔ رواں برس جنوری میں امریکی صدرکاعہدہ سنبھالنے کے بعدڈونلڈ ٹرمپ نے کہاتھاکہ ایران کے حوالے سے ان کانقطہ نظر’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘کاہوگا۔انہوں نے اس سے متعلق قومی سلامتی کی یادداشت پردستخط کیے جس میں ایران کوجوہری ہتھیاروں،بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے حصول سے روکنے اوراس کے’’دہشت گرد نیٹ ورک‘‘کوتباہ کرنے پرزوردیاگیاہے۔
4فروری2025ء کی اس دستاویزمیں ایران کے جارحانہ جوہری پروگرام کوامریکاکے لئے خطرہ قراردیاگیاہے۔اورجب سے ٹرمپ نے اس پردستخط کیے ہیں ایران کاامریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حوالے سے مؤقف اورزیادہ سخت ہوگیاہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معاملہ صرف امریکاتک محدودہے۔ امریکاکے پٹھواسرائیل کابھی یہی کہناہے کہ ایران ان کے نشانے پرہے۔حال ہی میں اسرائیلی فوج کے نئے چیف آف سٹاف ایال ضمیرمقررکیے گئے ہیں جنہوں نے اپناعہدہ سنبھالنے کے بعدکہاہے کہ سال2025ء جنگ کاسال ہے۔انہوں نے کہاکہ ان کی توجہ غزہ کی پٹی اورایران پررہے گی اورساتھ ہی کہاکہ’’ہم نے اب تک جوکچھ حاصل کیاہے اس کی بھرپورحفاظت کریں گے‘‘۔
خطے میں جنگ کے منڈلاتے بادلوں کے بعدمختلف قیاس آرائیاں اورامیدوں کاسلسلہ چل نکلا ہے۔ موجودہ صورتحال پرسیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکاکے سابق سیکریٹری خارجہ یہودی نژادہینری کسنجر نے ایک بارکہاتھاکہ:کسی معاملے کے بارے میں مکمل طورپرآگاہی حاصل کرنے کے لئے یاتوآپ کاتمام چیزوں کاجانناضروری ہے یاپھرآپ کچھ نہیں جانتیــ ۔ہنری کیسینجرکے اس بیان کوایران اورامریکاکی موجودہ مثال کے تناظرمیں دیکھاجاسکتاہے جہاں دونوں ممالک کے درمیان خطوط کے تبادلے کی تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں مگراس کی متعددتشریحات کی جارہی ہیں۔
ڈونلڈٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ چاہتے ہیں اوراگرایسانہیں ہوتاتووہ ایسے آپشنزپرغورکریں گے جس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ایران نے اپنے ردِعمل میں دونکات پرزیادہ زور دیاہے:وہ موجود حالات میں براہ راست مذاکرات نہیں چاہتے اوراگرانہیں دھمکی دی جاتی ہے تووہ بھی جواب دیں گے لیکن آج دونوں ممالک کے حکام کے بیانات دیکھ کرایک بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ مذاکرات کی میزکوبرقراررکھناچاہتے ہیں اوروہ بظاہربالواسطہ بات چیت کے لئے بھی تیارہیں۔
گذشتہ روزرپبلکن سینیٹرلنڈسے گراہم نے بھی کہاتھاکہ وہ امیدکرتے ہیں کہ ڈونلڈٹرمپ یہ معاملہ ’’سفارتکاری‘‘کے ذریعے حل کرلیں گے۔ایران کے تین یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات جنیوامیں جاری ہیں اورایرانی حکومت کاکہناہے کہ مذاکرات کے تکنیکی پہلوؤں پرپیش رفت ہوئی ہے۔ان مذاکرات کی تفصیلات بھی ابھی منظرعام پرنہیں آئی ہیں اور برطانیہ، فرانس اورجرمنی کے علاوہ دیگریورپی ممالک کے سفیروں کابھی کہناہے کہ انہیں جنیوامیں ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات کاعلم نہیں۔ایسی صورتحال میں حقائق کی جگہ نامعلوم ذرائع سے منسوب قیاس آرائیاں،تشریحات اوردعوے ہی سامنے آرہے ہیں۔
امریکااورایران کے تعلقات میں کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔سفارتی تعلقات میں پیچیدگیاں،عسکری خطرات،اور اقتصادی پابندیاں اس تنازع کومزیدگہراکر رہی ہیں۔ایران کی میزائل طاقت اورامریکی عسکری منصوبے خطے میں ایک نئے تنازعے کوجنم دے سکتے ہیں ایک طرف امریکی پابندیاں اورفوجی دھمکیاں ہیں،تودوسری طرف ایران اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کررہاہے۔اگرسفارتی مذاکرات بحال نہ ہوئے توخطے میں مزیدتنازعات اورکشیدگی کاامکان موجودہے اوریہ خطرہ کبھی بھی عالمی جنگ کی طرف بڑھ سکتاہے۔موجودہ حالات میں ایسالگتاہے کہ تمام فریقین خصوصاً ایران مذاکرات پرتوجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں اوران کی عوامی رائے یامیڈیاکو ردِعمل دینے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن خطے میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت عالمی امن کے لئے بدستورایک شدید خطرہ بنی ہوئی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے درمیان ایران کے ممالک کے کہ ایران کے قریب کے ساتھ ہیں اور کے لئے

پڑھیں:

ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ

فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔

جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.

ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔

اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔

چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔

جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔

صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔

ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔

چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔

اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • پہلگام حملہ، کشیدگی بڑھ گئی، مقبوضہ کشمیر میں امن کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
  • پاک بھارت کشیدگی ،بھارت نے سرحد پر فوج دستے ،ٹینک اوربھاری ہتھیار پہنچا دیئے
  • جنوبی پاکستان کی سرحد پر بھارتی افواج اور میزائل سسٹمز کی نقل و حرکت، کشیدگی میں اضافہ
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • بغداد، ایران-امریکہ مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، فواد حسین
  • ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ چین کا پیغام
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
  • میں نے نتین یاہو کیساتھ ایران سے متعلق بات کی، امریکی صدر
  • سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا جائے گا، ایران