افغانستان: تین افراد کی سزائے موت پر سر عام عمل درآمد
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2025ء) افغانستان کی سپریم کورٹ کے مطابق طالبان حکام کے حکم پر قتل کے تین مجرموں کو جمعے کے روز سزائے موت دے دی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے اعدادوشمار کے مطابق طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں عوامی طور پر سزائے موت پانے والوں کی تعداد نو ہو گئی ہے۔
عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ دو افراد کو بادغیس صوبے کے دارالحکومت قلعہ نو میں سرعام موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مقتولین کے ایک رشتہ دار نے دونوں مجرموں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ سپریم کورٹ کے بیان میں کیا کہا گیا؟سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیسرے مجرم کو نیمروز صوبے کے دارالحکومت زرنج میں سزائے موت دی گئی۔
(جاری ہے)
یہ بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس‘ پر جاری کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ان افراد کو ''بدلے کے طور پر سزا دی گئی‘‘ کیونکہ انہوں نے دیگر افراد کو گولی مار کر قتل کیا تھا اور ان کے مقدمات کو ''انتہائی باریکی سے اور بار بار جانچا گیا‘‘۔
اس بیان کے مطابق، ''مقتولین کے خاندانوں کو معافی اور صلح کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔‘‘
طالبان دور میں جرم ثابت ہو جانے پر جسمانی سزائیں دینا عام بات ہے۔ چوری اور شراب نوشی جیسے جرائم پر کوڑے مارے جانے کی سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
افغانستان میں سزائے موت پر عمل درآمد آخری بار نومبر سن 2024 میں کیا گیا تھا۔
تب پکتیا صوبے کے دارالحکومت گردیز کے ایک اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد کے سامنے مقتول کے خاندان کے ایک فرد نے مجرم کے سینے میں تین گولیاں اتار دی تھیں۔ا س موقع پر اسٹیڈیم میں طالبان کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ افغانستان میں سزائے موت کس کے حکم دے دی جاتی ہے؟طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996 تا 2001) کے دوران بھی عوامی طور پر سزائے موت پر عمل کرنا عام بات تھی۔
ایسی سزائیں زیادہ تر کھیلوں کے میدانوں میں انجام دی جاتی ہیں۔سزائے موت کے احکامات طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کی طرف سے جاری ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اخونزادہ قندھار میں گوشہ نشین ہیں۔
سال 2022 میں اخونزادہ نے تمام ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ طالبان حکومت کی اسلامی قانون کی تشریح کے تمام پہلو مکمل طور پر نافذ کریں، جن میں ''آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کے اصول پر مبنی سزائیں شامل ہیں۔
افغانستان میں ''قصاص‘‘ کے تحت قتل کے بدلے موت کی سزا بھی مستعمل ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کی شدید مذمتاقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسا ایمنسٹی انٹرنیشنل، طالبان حکومت کی طرف سے دی جانے والی جسمانی سزاؤں اور سزائے موت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
ایمنسٹی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں افغانستان کو ان ممالک میں شامل کیا، جہاں ملزمان کو منصفانہ ٹرائل کا موقع نہیں ملتا۔
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں دی جانے والی موت کی اکیانوے فیصد سزائیں ایران، عراق اور سعودی عرب بھی دی گئیں۔2024ء میں دنیا بھر میں دی جانے والی موت کی معلوم سزاؤں کی تعداد 1,518 رہی، ان میں وہ ہزاروں سزائیں شامل نہیں، جو چین میں دی گئیں کیونکہ چین اس حوالے سے اعدادوشمار جاری ہی نہیں کرتا۔ ایمنسٹی کو یقین ہے کہ چین دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک ہے۔
ادارت: عدنان اسحاق
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں سزائے موت طالبان کے کے مطابق موت کی
پڑھیں:
پشاور: افغان مہاجرین کی واپسی مدت میں توسیع کی قرارداد منظور، افغان پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ
خیبرپختونخوا اسمبلی نے افغان مہاجرین کی واپسی کی مدت میں توسیع کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے وفاق سے افغانستان سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی نے رائٹ ٹو انفارمیشن( ترمیمی) بل 2025 منظوری دیدی، بل وزیر قانون آفتاب عالم نے پیش کیا تھا۔
اس کے علاوہ کے پی اسمبلی نے افغان مہاجرین کی واپسی کی مدت میں توسیع کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی، قرارداد پی ٹی آئی کے میاں شرافت نے پیش کی۔
قرارداد کے متن کے مطابق واپسی کی مدت میں توسیع سے افغان مہاجرین کے لئے انتظامات میں مدد ملے گی، واپس جانے والے افغان مہاجرین کو اپنا گھریلو سامان ساتھ لے جانے کی اجازت بھی دی جائے، ایوان نے رائے شماری کے دوران قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔
کے پی اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعے وفاق سے افغانستان سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کردیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ عوام دہشتگردی سے نجات چاہتی ہے، افغانستان سے متعلق پاکستان کی پالیسی موثر نہیں۔
متن کے مطابق دونوں بردار ممالک کے مابین اعتماد کی بحالی کے فوری اقدامات ناگزیر ہیں، وفاق افغانستان سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کرے، کے پی حکومت کو افغانستان کے ساتھ براہ راست مزاکرات کی اجازت دی جائے۔
ایوان نے رائے شماری کے دوران قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔
خیبر پختونخوا اسمبلی نے فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد مشترکہ طور پر منظور کرلی، قرارداد حکومتی رکن عبدالسلام اور اپوزیشن کے عدنان وزیر نے مشترکہ طور پر پیش کی۔
قرارداد کے متن کے مطابق فلسطین کے آزاد ریاست کے قیام کے لیے وفاقی حکومت سفارتی سطح پر اقدامات کرے، او آئی سی اجلاس بلا کر مسئلہ فلسطین پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرے۔
اس میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ اور دیر عالمی ادارے غزہ اور فلسطین میں جنگ بندی یقینی بنائے، غزہ کے مظلوم عوام کو فوری امداد پہنچائی جائے، اسرائیل کے مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔