غریب ممالک کو نئے امریکی محصولات سےمستثنیٰ ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اپریل2025ء) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غریب ترین ممالک جن کا امریکا کی تجارت پر اثر نہ ہونے کے برابر ہے انہیں نئے امریکی محصولات سے مستثنیٰ ہونا چاہیے۔یہ بات اقوام متحدہ کے مستقل بین الحکومتی ادارے یونائیٹڈ نیشنز کانفرنس آن ٹریڈ ڈویلپمنٹ (یو این سی ٹی اے ڈی) کی سیکر ٹری جنرل ریبیکا گرائنسپین نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو کے دوران کہی۔
انہوں نے کہا کہ غریب ترین ممالک جن کا امریکا کی تجارت پر اثر نہ ہونے کے برابر ہے کو نئے امریکی محصولات سے مستثنیٰ ہونا چاہیے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ 44 سب سے کم ترقی یافتہ ممالک امریکا کے تجارتی خسارے میں2 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں اور یہ کہ زیادہ ٹیرف ان کے موجودہ قرضوں کے بحران کو مزید سنگین کر دے گا۔(جاری ہے)
بین الاقوامی میڈیا ویب سائٹ یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وہ طریقے بتائے جن سے یو این سی ٹی اے ڈی ترقی پذیر ممالک کی مدد کر رہا ہے اور قریبی علاقائی تجارتی تعلقات کی حمایت کی جو بین الاقوامی تجارتی مذاکرات میں اپنا ہاتھ مضبوط کر سکتے ہیں۔
سیکرٹری جنرل یو این سی ٹی اے ڈی نے کہا کہ جب دو اہم عالمی معیشتیں محصولات عائد کرتی ہیں، تو اس کا اثر ٹیرف جنگ میں مصروف معیشتوں کے ساتھ ساتھ سب پر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی کم شرح نمو اور زیادہ قرضوں کی صورتحال سے دوچار ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ عالمی معیشت سست روی کا شکار ہو جائے گی اور ان ممالک کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے جو زیادہ کمزور ہیں، جیسے کہ کم ترقی یافتہ ممالک اور چھوٹے جزیروں کی ترقی پذیر ریاستیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم نکتہ غیر یقینی صورتحال کا مسئلہ ہے اگر ہمیں حتمی پوزیشن کا علم ہو جائے تو ہم ایڈجسٹ کریں گے، ہمارے پاس حکمت عملی ہوگی اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جو فیصلے کیے جا رہے ہیں ان کے ساتھ کیسے رہنا ہے لیکن اگر ہمارے پاس غیر یقینی کی طویل مدت ہے، جہاں حالات ہر وقت بدلتے رہتے ہیں، یہ نقصان دہ ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پہلا مطالبہ عقلی فیصلے کرنے کے لیے ہے، اس لیے ہم منصوبہ بندی، حکمت عملی اور تبدیلی کے لیے موافقت کر سکتے ہیں لیکن ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ اس تبدیلی میں کیا شامل ہو گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ
پڑھیں:
ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔
جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.
ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔
اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔
چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔
جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔
صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔
ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔
چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔
اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔