Islam Times:
2025-09-18@13:50:13 GMT

غزہ کی مظلومیت پر خاموشی کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

غزہ کی مظلومیت پر خاموشی کیوں؟

اسلام ٹائمز: صیہونی لابی عالمی سطح پر سب سے اہم لابیوں میں سے ایک ہے۔ یہودی لابی یورپ اور امریکہ کے اندر اور عالمی نظام میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ صیہونی حکومت کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی برادری کیجانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ پر عائد پابندیاں ہیں۔ سیاسی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کیوجہ سے اقوام متحدہ صیہونیوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ جب صیہونی حکومت کیخلاف فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس پر عملدرآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے پاس فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے کافی طاقت نہیں ہے۔ تحریر: سید رضا عمادی

صیہونی حکومت غزہ پر نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن عالمی برادری ابھی تک غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکی ہے۔ یہ وہ سوال ہے، جو ہر باضمیر کے قلب و ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ غزہ پٹی کے خلاف اسرائیل نے 7 اکتوبر کو جنگ کا آغاز کیا تھا۔ 15 ماہ بعد جنوری میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ 42 روزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد، حکومت نے غزہ پر ایک بار پھر جنگ شروع کر دی اور امریکہ کی حمایت کے سائے میں ابھی تک جنگ کے خاتمے کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 20 دنوں میں 5 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء کو غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

ماضی میں ہونے والی عارضی جنگ بندیوں نے اس بحران کو مؤثر طریقے سے ختم نہیں کیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ عالمی برادری غزہ کے خلاف نسل کشی کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرسکی۔؟ امریکی حکومت نے گذشتہ 18 ماہ کے دوران غزہ پر صیہونی حکومت کے جرائم کی بھرپور حمایت کی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی عالمی کارروائی کو نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔ امریکہ سلامتی کونسل نے  اس حکومت کے جرائم کو روکنے کے لیے ہر طرح کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ واشنگٹن نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اس فیصلے پر بھی تنقید کی ہے، جس میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور معزول وزیر جنگ یو یو گالینٹ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے کسی بھی ملک کو امریکہ کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کچھ یورپی ممالک بھی صیہونیوں کی حمایت میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ اور یورپ میں عوام کی رائے صیہونیوں کے خلاف ہے۔ عالمی برادری کی غزہ کے خلاف صیہونیوں کی بے مثال نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بہت سے ممالک کے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔ بہت سے ممالک اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے بھی کچھ ممالک اس پر تنقید کرنے یا اس کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔  بہت سے معاملات میں، مؤثر کارروائی کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت سےممالک میں ناپید ہے۔

صیہونی لابی عالمی سطح پر سب سے اہم لابیوں میں سے ایک ہے۔ یہودی لابی یورپ اور امریکہ کے اندر اور عالمی نظام میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ پر عائد پابندیاں ہیں۔ سیاسی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کی وجہ سے اقوام متحدہ صیہونیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ جب صیہونی حکومت کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے پاس فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے کافی طاقت نہیں ہے۔ پس نہ اقوام متحدہ نہ عالمی برادری اور نہ ہی اسلامی ممالک کوئی بھی اہل غزہ کی پکار پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ غزہ کے معاملے پر مسلم ممالک کی فوجیں جہاد نہیں کرتیں تو کس کام کی ہیں۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکومت کے جرائم عالمی برادری اقوام متحدہ کو روکنے کے خلاف کسی بھی بہت سے غزہ کے کے لیے

پڑھیں:

لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟

وہ تمام لوگ جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں، یقیناً ان کا جواب ہاں میں ہوگا۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال کلبلا سکتا ہے کہ اکلوتے کےلیے ’’سب‘‘ کا لفظ گرامر کے لحاظ سے غلط ہے۔ آگے جو کچھ غلط آنا ہے تو اس کے مقابلے میں اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر آگے چلتے ہیں۔

جو لوگ دو بھائی یا ایک بھائی ایک بہن یا دو بہنیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا جواب ہاں میں اور کچھ کا نہ بھی ہوسکتا ہے مگر وہ لوگ جو تین یا تین سے زائد بھائی یا بہنیں ہیں، یقیناً ان میں سے اکثریت کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔

میں عموماً اپنی تربیتی نشستوں میں شرکا سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ بھائی بہنوں میں والد یا والدہ کا پسندیدہ بچہ کون ہے؟ لوگوں کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عموماً والد کی پسندیدہ اولاد کوئی بہن ہوتی ہے اور والدہ کی پسند کوئی بڑا یا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور جو خود پسندیدہ ہوتے ہیں وہ شرماتے ہوئے اس کا اقرار کرلیتے ہیں۔

والد کی پسند عموماً مستقل ہوتی ہے اور بیٹی کی شادی ہونے کے بعد بھی جو پہلے پسندیدہ ہوتی ہے وہی رہتی ہے لیکن والدہ کی پسند میں تغیر آتا ہے اور یہی ہماری آج کی تحریر کا اصل موضوع ہے۔

والدہ کی پسند عموماً کوئی نہ کوئی بیٹا ہوتا ہے جس کو گھر میں سب سے زیادہ لاڈ پیار ملتا ہے۔ کھانے پینے میں اس کی پسند کا ترجیحی بنیادوں پر خیال رکھا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک تواتر سے جاری رہتا ہے جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی۔ شادی چاہے وہ اپنی پسند سے کرے یا والدہ کی پسند سے، اب وہ اس مقام پر مستقل فائز نہیں رہ سکتا۔ بس یوں سمجھ لیجیے اور میں یہ بات مبالغہ آرائی سے لکھ رہا ہوں کہ پہلے سب گھر والے مل کر اس کےلیے دلہن لاتے ہیں اور پھر سب مل کر یہ چاہتے ہیں کہ بس اب دلہا اور دلہن خوش نہ رہیں۔

شادی سے پہلے والدہ کو بیٹی کی شکل میں ذمے داری نظر آتی ہے اور شادی کے بعد بیٹی میں سہیلی بلکہ بیٹے اور بہو کے خلاف کسی بھی قسم کی محاذ آرائی میں ایک بااعتماد شریک اور ساتھی نظر آتی ہے۔

شادی کے بعد بیٹا اگر گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹائے تو زن مرید اور اگر یہی سب کچھ داماد کرے تو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی میں کیا خوب ہم آہنگی ہے اور اللہ ایسے داماد سب کو دیں۔ مگر خود کے بیٹے پر ایسا داماد بننے کی پابندی تا دم مرگ برقرار رہتی ہے۔

اگر بیٹا معاشی لحاظ سے داماد سے بہتر ہو تو یہ بات بھی وجہ تنازعہ بن جاتی ہے اور اب بیٹے سے یہ امید بلکہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ اپنے بیوی بچوں کےلیے کرے ایسا ہی سب کچھ اپنی بہن اور اس کے بچوں کےلیے بھی کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اماں نہ صرف اس کو ناخلف قرار دیتی ہیں اور حالات اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹی کے گھر چیزیں پہنچانا شروع کردیتی ہیں کہ جس سے گھر کا ماحول کشیدہ ہوتے ہوئے جنگ و جدل کا میدان بن جاتا یے۔ تمام خاندان میں بہو اور اس کے بچوں جو کہ دراصل ان کے اپنے پوتے پوتیاں ہوتے ہیں، کی ایک منفی تصویر بنا کر پیش کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب ڈراموں میں ایسے کردار کھل کر دکھائے جارہے ہیں اور عقیدت اور احترام کو پس پشت ڈال کر حقیقت دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام وصف تھوڑے تھوڑے ہمیں بھی دیے ہیں جیسے محبت کرنا، خوش ہونا، انعام دینا، غصہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں جس وصف کا سب سے زیادہ حساب دینا ہوگا اور جس پر ہماری سب سے زیادہ پکڑ ہوگی، وہ عدل ہوگا۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ہر رشتے میں عدل کریں چاہے اولاد کا ہو یا والدین کا اور اگر اس میں ہم نے ظلم کیا تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوگی۔

والدین بالخصوص والدہ کی اس جانبدارانہ رویے کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے اور بدقسمتی سے بزرگوں کو تنہائی کا کرب سہنا پڑتا ہے جو کہ خود ان کا اپنا بویا ہوا ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ تمام غلطیاں والدین ہی کی ہوتی ہیں، کوئی بھی انتہا پسند یا جانبدارانہ رویہ غلط ہے، چاہے کسی بھی جانب سے ہو۔

آج جب ہر موضوع پر بات ہورہی ہے تو میں نے سوچا کہ اس حساس موضوع پر بھی بات کر لیتے ہیں جو عموماً تمام گھروں کی کہانی ہے لیکن کوئی بھی اس پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو میری یہ تحریر بیٹے یا بہو کی بے جا حمایت محسوس ہوگی لیکن اگر اپنے تمام جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اگر آپ اس پر سوچیں گے اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے تو آپ کو یہ کہانیاں کھلی آنکھوں نظر آنے لگیں گی۔

اس دفعہ آخر میں کوئی کہانی نہیں، بس ایک مضمون کا حوالہ ہے۔ ’’میبل اور میں‘‘ میں پطرس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ مردوں سے ضرور داد چاہیں گے بالکل اسی طرح میں اپنی اس تحریر کے مظلوم طبقے یعنی بہو اور بیٹے سے اپنی حمایت ضرور چاہوں گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • صیہونی مخالف اتحاد، انتخاب یا ضرورت!
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
  • جنگی جرائم پر اسرائیل کو کوئی رعایت نہں دی جائے؛ قطراجلاس میں مسلم ممالک کا مطالبہ