غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
جدہ (آئی پی ایس )سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ فیصل نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اسرائیلی حکومت پر دبا ڈالنا چاہیے کہ وہ غزہ کو امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔انطالیہ میں غزہ کی جنگ بندی کے بارے میں عرب اسلامی وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر نے یہ بات کہی، اجلاس میں انکلیو میں ہونے والی پیش رفت کے ساتھ ساتھ فوری اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے استعمال کے قابل بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو واضح طور پر مسترد کیا جاتا ہے، سعودی عرب جنگ بندی مذاکرات میں مصر اور قطر کی کوششوں کو سراہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے سے متعلق کسی بھی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں، اس کا اطلاق ہر طرح کی نقل مکانی پر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فلسطینیوں کی بعض اقسام کی روانگی کو رضاکارانہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آپ رضاکارانہ انخلا کی بات نہیں کر سکتے، جب کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر امداد نہیں مل رہی ہے، اگر لوگوں کو کھانا، پانی یا بجلی نہیں مل رہی ہے اور اگر انہیں مسلسل فوجی بمباری کا خطرہ ہے، تو یہاں تک کہ اگر کسی کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو یہ رضاکارانہ انخلا نہیں ہے، یہ جبر کا تسلسل ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی تجویز جس میں فلسطینیوں کی روانگی کو فریم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یا جسے ان حالات میں رضاکارانہ انخلا کا موقع کہا جاتا ہے، محض حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی وضاحت جاری رکھنی چاہیے، لگاتار کام کرنا چاہیے اور امید ہے کہ یہ پیغام سب کے لیے واضح ہوگا، خاص طور پر اس ایکشن پلان کے فریم ورک کے اندر جس پر ہم نے آج کمیٹی میں اتفاق کیا ہے۔ فیصل بن فرحان نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی جن میں یہودی بستیوں کی توسیع، گھروں کو مسمار کرنا اور زمین پر قبضہ شامل ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
کراچی پورٹ ٹرسٹ میں لوٹ مار کا مقابلہ ایف بی آر بھی نہیں کر سکتا: خواجہ آصف
اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں ہو رہی لوٹ مار کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میڈیا سے گفتگو میں وزیر دفاع نے کہا کہ کے پی ٹی میں لوٹ مار کا جتنا بازار گرم ہے اس کا مقابلہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) بھی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کے پی ٹی کو ہزاروں ارب روپے کی قومی آمدن سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جتنا ریونیو اور آمدن کے پی ٹی سے مل سکتا ہے اتنا کام نہیں ہو رہا۔ خواجہ محمد آصف نے مزید کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں لوٹ مار کے سارے راستے بند کئے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سے روانڈا کے وزیرخارجہ اولیور جے پی ندوہنگیری (Olivier J.P Nduhungirehe) نے اسلام آباد میں ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ وزیر دفاع نے معزز مہمان کا استقبال کیا اور کہا کہ پاکستان روانڈا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے فریم ورک کے اندر روانڈا کے ساتھ تعاون کو مزید فروغ دیتا رہے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان اور روانڈا نے عالمی امن کے لیے یکساں عزم کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کے امن مشن میں سب سے زیادہ فوجی تعاون کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔ معزز مہمان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ہونے کے ساتھ ساتھ افریقی براعظم میں تنازعات کا حل تلاش کرنے میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ دونوں فریقین نے تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم اور دفاع جیسے کئی شعبوں میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ کویت کے سفیر ناصر عبدالرحمن جاسر المطیری نے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ خواجہ محمد آصف نے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان اور کویت نے باہمی طور پر فائدہ مند شراکت داری قائم کی ہے اور تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے قابل ذکر امکانات موجود ہیں۔ بات چیت میں دفاعی تعاون اور علاقائی استحکام پر زور دیتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے پر توجہ دی گئی۔ ملاقات کا اختتام دونوں رہنماؤں کے مابین باہمی تعاون کے شعبوں پر مزید بات چیت کرنے پر اتفاق کے ساتھ ہوا۔