ہم شامی سرزمین پر کسی فریق کیساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے، ھاکان فیدان
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں ترکیہ کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ شام پر اسرائیل کے حملے اشتعال انگیزی اور عدم استحکام کا باعث ہیں۔ تل ابیب کو شام کی فضائی خود مختاری کا احترام کرنا چاہئے۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہئے۔ اسرائیل کو اجتماعی قتل کی کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی قتل عام کو روکنا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ، غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے اجراء کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے۔ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لئے امریکہ و یورپ کو اسرائیل کی مدد بند کرنا پڑے گی۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ نے شام کے بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ہماری پوزیشن واضح ہے۔ ہم شام میں استحکام کے قیام کے ساتھ ساتھ ایسے اشتعال انگیز اقدامات کی روک تھام چاہتے ہیں جس سے شام کی خود مختاری کو خطرہ لاحق ہو۔ انہوں نے کہا کہ شام پر اسرائیل کے حملے اشتعال انگیزی اور عدم استحکام کا باعث ہیں۔ تل ابیب کو شام کی فضائی خود مختاری کا احترام کرنا چاہئے۔
ھاکان فیدان نے کہا کہ ہم شامی سرزمین پر کسی بھی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے اپریل کے اوائل میں شام کے اُن 3 فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا جنہیں انقرہ اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے ھاکان فیدان نے کہا کہ تُرک صدر "رجب طیب اردگان" عنقریب شام کا دورہ کریں گے اور اس سفر کے انتظامات کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم شامی سرزمین پر قیام امن اور دہشت گرد گروہوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اقدامات کرتے رہیں گے۔ امریکہ کے حوالے سے تُرک وزیر خارجہ نے کہا کہ رجب طیب اردگان اور امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے درمیان ملاقات ترتیب دی جا رہی ہے۔ ہم روسی و یوکرینی فریقین کے درمیان مذاکرات کے لئے بھی سفارتی کوششیں کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعویٰ
متحدہ عرب امارات نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا تو امارات، اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق ابوظہبی کی جانب سے اسرائیل کو واضح طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے کہ مغربی کنارے کا الحاق امارات کے لیے ”ریڈ لائن“ ہے۔ اگر اسرائیل نے یہ قدم اٹھایا تو متحدہ عرب امارات اپنے سفیر کو واپس بلانے جیسے اقدامات پر غور کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امارات نے 2020 میں امریکا کی ثالثی میں ابراہام معاہدے کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کیے تھے، جو اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی بڑی خارجہ پالیسی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امارات مکمل سفارتی تعلقات ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، تاہم موجودہ صورتِ حال میں تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ غزہ جنگ کے باعث پہلے ہی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور تجارتی روابط سرد مہری کا شکار ہیں اور پانچ سال بعد بھی نیتن یاہو نے اب تک امارات کا دورہ نہیں کیا۔
اس کشیدگی کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ امارات نے اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کو دبئی ایئر شو 2025 میں شرکت سے روک دیا ہے۔ تین سفارتی ذرائع اور اسرائیلی دفاعی حکام نے اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق، انہیں فیصلے سے آگاہ کیا گیا ہے تاہم کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ اسرائیلی سفارتخانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ابراہام معاہدے کے تحت تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل سموٹریچ نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ مغربی کنارے کے زیادہ تر علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت کو دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت درکار ہے، اور یہ اقدام ان کے لیے سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔
قطر میں مسلم ممالک کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کے اقدامات کی شدید مذمت کی گئی اور رکن ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی اور معاشی تعلقات پر نظرِثانی کریں۔ اماراتی صدارتی مشیر انور قرقاش نے بھی حالیہ اسرائیلی فضائی حملے کو ”غداری“ قرار دیا۔
اماراتی وزارت خارجہ کی اعلیٰ اہلکار لانا نسیبہ نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر اسرائیل نے الحاق کی پالیسی پر عمل کیا تو یہ اقدام ابراہام معاہدے کو خطرے میں ڈال دے گا اور خطے میں جاری انضمام کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچائے گا۔
دوسری جانب یو اے ای کی وزارتِ خارجہ نے خبر ایجنسی کی رپورٹ پر ردِعمل دینے سے گریز کیا ہے۔