Islam Times:
2025-04-25@06:07:15 GMT

نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں ایران روس تعاون

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں ایران روس تعاون

اسلام ٹائمز: انہی حقائق کی روشنی میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغربی ایشیا کے بنیادی مسائل کا حل مغربی اداروں کی مداخلت سے نہیں بلکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کے بنیادی کردار سے میسر ہو سکے گا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ ان تنظیموں کے رکن ممالک نے ہمیشہ سے علاقائی مسائل اور مشکلات کے بارے میں زیادہ متوازن پالیسی اختیار کی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ یکہ تازیوں میں مصروف رہے ہیں اور طاقت اور جنگ کے بل بوتے پر اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تہران، ماسکو اور بیجنگ نے بارہا اعلان کیا ہے کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد یورایشیا سمیت مختلف خطوں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکس اور شنگھائی تعاون کی تنظیم جیسی علاقائی اور عالمی تنظیموں کو علاقائی مسائل کے حل میں زیادہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تحریر: کامران مرادی
 
دنیا انتہائی اسٹریٹجک اور بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ پر حکمفرما موجودہ آرڈر اور عالمی سیاست تبدیل ہو رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کا نتیجہ مغربی ممالک کے اثرورسوخ میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے دیگر جنوبی ممالک جیسے ایران، روس، چین، انڈیا وغیرہ کے سامنے میدان کھلتا جا رہا ہے اور وہ بھی علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیا ملٹی پولر عالمی نظام ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس میں عالمی سطح پر طاقت کا توازن زیادہ ممالک میں تقسیم ہو جائے گا اور مشرقی ممالک بھی مستقبل کے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں اہم اور قابل توجہ کردار ادا کر پائیں گے۔ ورلڈ آرڈر میں اس تبدیلی کا اثر تقریباً تمام ممالک اور علاقائی اور عالمی تنظیموں اور اداروں پر پڑ رہا ہے۔
 
نیٹو، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی ادارے اور تنظیمیں جو خاص طور پر مغربی ممالک کے زیر تسلط ہیں اس وقت شدید بحرانی حالات سے روبرو ہو چکے ہیں اور ان کی حالت کسی سانحے سے کم نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ادارے اور تنظیمیں زوال کی جانب گامزن ہیں۔ نئی امریکی حکومت نے اپنے یورپی اتحادی ممالک سے متعلق پالیسی تبدیل کر دی ہے جس کے نتیجے میں نیٹو اور یورپی یونین جیسے اداروں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ ان اختلافات کے باعث حتی رکن ممالک بھی ایک دوسرے کو فوجی دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف دنیا کے جنوبی ممالک کی اقتصادی اور فوجی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مساواتیں بھی تیزی سے بدل رہی ہیں۔ یوں عالمی سطح پر طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔
 
البتہ یہ ممالک علیحدہ علیحدہ سیاسی سرگرمیاں انجام نہیں دے رہے بلکہ انہوں نے طاقتور اور موثر اتحاد تشکیل دے رکھے ہیں۔ ایک جیوپولیٹیکل اتحاد ایران، روس، چین اور انڈیا نے تشکیل دیا ہے جو مستقبل قریب میں مکمل طور پر مغربی اتحادوں کی جگہ سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس تبدیلی کی واضح مثال برکس (BRICS) اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسی تنظیموں کا پھیلاو ہے جو مغرب کے مالی اور سیکورٹی نیٹ ورکس کا متبادل تصور کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر برکس میں روس، چین، انڈیا، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر مالی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے ایک خودمختار نیٹ ورک بنانے میں مصروف ہے جو موجودہ مغربی نیٹ ورک سویفٹ کی جگہ لے لے گا۔ یوں ڈالر اور مغربی مالی اداروں پر انحصار کم ہو جائے گا۔
 
انہی حقائق کی روشنی میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغربی ایشیا کے بنیادی مسائل کا حل مغربی اداروں کی مداخلت سے نہیں بلکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کے بنیادی کردار سے میسر ہو سکے گا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ ان تنظیموں کے رکن ممالک نے ہمیشہ سے علاقائی مسائل اور مشکلات کے بارے میں زیادہ متوازن پالیسی اختیار کی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ یکہ تازیوں میں مصروف رہے ہیں اور طاقت اور جنگ کے بل بوتے پر اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تہران، ماسکو اور بیجنگ نے بارہا اعلان کیا ہے کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد یورایشیا سمیت مختلف خطوں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکس اور شنگھائی تعاون کی تنظیم جیسی علاقائی اور عالمی تنظیموں کو علاقائی مسائل کے حل میں زیادہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
 
دوسرے الفاظ میں یورایشیا اس وقت امن اور استحکام کا گہوارہ بنے گا جب نیٹو وہاں سے نکل جائے گی اور خطے کے ممالک پر مشتمل علاقائی تنظیمیں اس کی جگہ لے لیں گی۔ تہران اور ماسکو نے یورایشیا خطے میں دو اہم کھلاڑی ہونے کے ناطے انرجی، سیکورٹی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی اسٹریٹجک تعاون کو فروغ دیا ہے۔ تیل اور گیس، فوجی تعاون، دفاعی ٹیکنالوجیز اور بین الاقوامی راہداریوں جیسے شمال جنوب راہداری میں شراکت سے متعلق طولانی مدت معاہدے انجام پائے ہیں جو اس تعاون کا واضح ثبوت ہیں۔ ایران نے شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس میں شامل ہو کر ان اتحادوں کو مضبوط بنانے میں بڑا قدم اٹھایا ہے۔ امریکہ جو ان اتحادوں کے بنیادی کردار سے آگاہ ہو چکا ہے مسلسل ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بین الاقوامی تقریبات کے لیے ویزا دینے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
 
اسی طرح امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کے رکن ممالک کے سربراہان کو سفر کے لیے اپنا آسمان استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ اس کی ایک مثال سویٹزرلینڈ میں یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں روس کو دعوت نہیں دی گئی جبکہ چین نے بھی اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں کمزور بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے رکن ممالک کا اصل مقصد اپنے تشخص، حق خود ارادیت اور سلامتی کی حفاظت کرنا ہے جس کے لیے وہ ایک عالمی پلیٹ فارم پر باہمی تعاون میں مصروف ہیں اور یہ وہی چیز ہے جس کی مغربی تنظیموں میں کمی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی اور عالمی علاقائی مسائل میں مصروف ہیں بین الاقوامی عالمی سطح پر کے رکن ممالک رہے ہیں اور تنظیموں کے کے بنیادی میں زیادہ کے لیے اور ان رہا ہے اور اس

پڑھیں:

میہڑ: کینال منصوبے کے خلاف قوم پرست تنظیموں کا دھرنا ختم، سندھ بھر کا زمینی رابطہ بحال

کینال منصوبے کے خلاف قوم پرست تنظیموں کی جانب سے گاہی مہیڑ چوک انڈس ہائی وے پر دیا گیا دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔ دھرنے کے خاتمے کے بعد سندھ بھر میں زمینی رابطہ بحال ہو گیا ہے، جبکہ کراچی اور لاڑکانہ کے درمیان آمد و رفت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ رکے ہوئے سینکڑوں مال بردار ٹرک روانہ ہو گئے ہیں۔

دھرنے کے دوران قومی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی مکمل طور پر معطل رہی، اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مظاہرین نے کینال منصوبے کو مقامی آبادی کے مفادات کے خلاف قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: کینالز کے معاملے پر سندھ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، رانا ثنا اللہ

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے تحفظات تسلیم کرتے ہوئے متنازع کینالز کا منصوبہ ختم کردیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے مؤقف کو اصولی طور پر تسلیم کرلیا ہے، اور مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں 2 مئی کو یہ معاملہ واپس لیا جائے گا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں سندھ کے مؤقف کو فتح حاصل ہوئی ہے، اور پیپلزپارٹی نے ہمیشہ جمہوری راستہ اپنایا ہے، جبکہ انتشار کی سیاست کرنے والے ناکام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک پیپلزپارٹی موجود ہے، سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی کسی اور کو نہیں دیا جائے گا۔

قوم پرست تنظیموں کے رہنماؤں نے حکومتی یقین دہانیوں کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر وعدوں پر عملدرآمد نہ ہوا تو وہ دوبارہ احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سندھ قوم پرست تنظیموں کینال منصوبے میہڑ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ

متعلقہ مضامین

  • میہڑ: کینال منصوبے کے خلاف قوم پرست تنظیموں کا دھرنا ختم، سندھ بھر کا زمینی رابطہ بحال
  • شنگھائی تعاون تنظیم کا نمائشی علاقہ پاک چین اقتصادی تعاون کا مرکز بن کر ابھرا
  • عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب
  • پہلگام حملہ ، ذمہ داری قبول کرنیوالی تنظیم کا کوئی وجود ہی نہیں 
  • ڈی جی موسمیات ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن میں ایشیا ریجن کے وائس پریذیڈنٹ منتخب
  • استنبول سمیت مغربی ترکی 6.2 شدت کے زلزلے سے لرز اٹھا
  • ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ چین کا پیغام
  • سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا جائے گا، ایران
  • پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب؛ فیصلہ ہوچکا، فائنل آرڈر پاس نہیں کریں گے، چیف الیکشن کمشنر
  • تنظیم نو کا معاملہ، پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بڑا فیصلہ کرلیا