اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی کے تحت شاہراہ فیصل ہونے والا عظیم الشان اور تاریخی ”یکجہتی غزہ مارچ“ کراچی کا تاریخی مارچ اور اتحاد امت کا بھرپور مظہر ثابت ہوا، مارچ میں لاکھوں اہل کراچی نے شرکت کی، شرکاء میں مرد و خواتین، بچے، بزرگ، نوجوان سمیت مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ افراد شامل تھے، شرکاء نے امریکی و یہودی سازشوں و کوششوں کے خلاف اور فلسطینی مسلمانوں و حماس کے مجاہدین کی جدوجہد سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا۔ خصوصی رپورٹ

٭ جماعت اسلامی کے تحت شاہراہ فیصل ہونے والا عظیم الشان اور تاریخی ”یکجہتی غزہ مارچ“ کراچی کا تاریخی مارچ اور اتحاد امت کا بھرپور مظہر ثابت ہوا، مارچ میں لاکھوں اہل کراچی نے شرکت کی، شرکاء میں مرد و خواتین، بچے، بزرگ، نوجوان سمیت مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ افراد شامل تھے، شرکاء نے امریکی و یہودی سازشوں و کوششوں کے خلاف اور فلسطینی مسلمانوں و حماس کے مجاہدین کی جدوجہد سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا اور اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی شدید مذمت کی۔
٭ نرسری بس اسٹاپ سے تا حد نگاہ شرکاء کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔
٭ لاکھوں شرکاء نے مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔
٭ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، رہبر و رہنماء مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ، خاتم النبیا مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ، لبیک لبیک الھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی اور شرکاء میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔
٭ شاہراہ فیصل پر دونوں اطراف مارچ کے شرکاء موجود تھے، ایک ٹریک مردوں کیلئے اور دوسرا ٹریک خواتین کیلئے مختص تھا۔
٭ خواتین کے ساتھ چھوٹے اور ننھے منے بچے بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ میں شاہراہ فیصل پر اہل کراچی جوق در جوق اُمڈ آئے اور پوری شاہراہ لبیک یا اقصیٰ لبیک یا غزہ کے کتبوں و ماتھے پر بندھی پٹیوں، فلسطین کے جھنڈوں مخصوص رومالوں کی بہار کا منظر پیش کر رہی تھی۔
٭ مارچ کے شرکاء نے غزہ کے بچوں کے علامتی جنازے اٹھائے ہوئے تھے، غزہ میں ایک خاتون کے اپنے شہید بیٹے کے پاؤں پر باندھے ہوئے دوپٹے کو اپنے سر پر باندھنے کے حوالے سے مارچ میں شریک اس دوپٹے کو علامتی طور پر اپنے سروں پر باندھی ہوئی تھیں۔
٭ مارچ میں حکمرانوں کی بے حسی کے اظہار کیلئے علامتی طور پر او آئی سی کے حکمرانوں کا اجلاس بلایا گیا تھا، توفیق الدین صدیقی نے علامتی دوپٹے کو ان حکمرانوں کی بزدلی پر انہیں پیش کیا۔
٭ مارچ میں جگہ جگہ حماس کے شہید رہنما اسماعیل ہنیہ اور یحیٰ السنوار کی تصاویر والے پوسٹر آویزاں کیے گئے تھے، جس پر تحریر تھا کہ فتح یا شہادت۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ میں جامعہ این ای ڈی کے طلباء نے اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں کی امداد کیلئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کو 7 لاکھ روپے کا چیک پیش کیا، جب کہ دو بچیوں نے بھی اپنی گلگ پیش کی۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ کے شرکاء شہر بھر سے جلوسوں اور ریلیوں کی شکل میں بسوں، ویگنوں، سوزوکیوں، ٹرکوں، کاروں اور موٹر سائیکلوں پر شاہراہ فیصل پہنچے۔ شاہراہ فیصل پر سڑک کے دونوں طرف خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ استقبالیہ کیمپ لگے ہوئے تھے۔
٭ الخدمت کراچی کی جانب سے طبی کیمپ اور شاہراہ فیصل پر کئی موبائیل ڈسپنسریاں بھی موجود تھیں۔
٭ شاہراہ فیصل نرسری بس اسٹاپ پر بالائی گزر گاہ کے اوپر اسٹیج بنایا گیا تھا، جہاں سے قائدین نے خطاب کیا۔
٭ اسٹیج پر ایک بڑا بینرز لگا ہوا تھا، اس پر Stop bombing Gaza genocide, Shame on muslim rulers, Down with a merica down with israel تحریر تھا، اور دونوں جانب فلسطین کے جھنڈے لگائے گئے تھے، جبکہ اسٹیج پر قومی پرچم، فلسطین کے جھنڈے اور جماعت اسلامی کے جھنڈے بھی لگائے گئے تھے۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ میں شریک نوجوانوں کی بڑی تعداد نے سفید رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جن پر لبیک یا اقصیٰ اور Free Palestine تحریر تھا اور فلسطین کا جھنڈا بنا ہوا تھا، اسی طرح سیکورٹی پر مامور نوجوانوں نے سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور سروں پر فلسطینی رومال باندھے ہوئے تھے، مارچ کے بعض شرکاء نے علامتی طور پر فلسطینی بچوں کی لاشوں کو اُٹھایا ہوا تھا۔
٭ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی قیادت میں مارچ کا آغاز بلوچ کالونی پل سے ہوا اور شرکاء پیدل مارچ کرتے ہوئے نرسری بس اسٹاپ پر پہنچے۔
٭ خواتین، بچوں اور نوجوانوں سمیت مارچ کے شرکاء کی بڑی تعداد نے ماتھے پر پٹی باندھی ہوئی تھی، جس پر لبیک یا اقصیٰ تحریر تھا۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ میں قائدین کی تقاریر سننے کیلئے بڑے پیمانے پر ساؤنڈ سسٹم کا انتظام کیا گیا تھا۔
٭ غزہ ملین مارچ کی کوریج کیلئے قومی و بین الاقوامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کے نمائندے فوٹو گرافرز اور کمرہ مینز کی بڑی تعداد اور DSNG گاڑیاں موجود تھیں، صحافیوں کیلئے پریس گیلری بنائی گئی تھی، جبکہ سوشل میڈیا کا علیحدہ کیمپ بھی قائم کیا گیا تھا۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ کا باقاعدہ آغاز قاری منصور کی تلاوت کلام پاک سے کیا گیا، جبکہ نعمان شاہ نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ کے دوران وقفے وقفے سے اسٹیج پر سے پُرجوش نعرے لگوائے جاتے رہے اور آزادی فلسطین اور لبیک یا اقصیٰ کے حوالے سے نظمیں اور ترانے پڑھتے جاتے رہے، جس پر شرکاء نے فلسطینی پرچم لہرائے تو ایک قابل دید سماں بندھ گیا۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ میں جماعت اسلامی منارٹی ونگ کراچی کے صدر یونس سوہن کی قیادت میں مسیحی برادری نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ کے شرکاء نے شاہراہ فیصل نرسری بس اسٹاپ پر نماز عصر باجماعت ادا کی۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ میں شریک نوجوانوں اور بچوں اور خواتین کے حصے میں بھی فلسطینی پرچم کے رنگوں کے اسموک فائر کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔
٭ مرکزی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کی اسٹیج آمد پر ان کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا اور پُرجوش نعرے لگائے گئے۔ قائدین نے ہاتھ اُٹھا کر شرکاء کے نعروں کا جواب دیا۔
٭ یکجہتی غزہ مارچ میں شرکاء کی جانب سے امریکا و اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور مظلوم اور نہتے فلسطینی مسلمانوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے پُرجوش نعرے لگائے گئے، جن میں یہ نعرے شامل تھے، ’’کشمیریوں سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، فلسطین سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، تیرا میرا رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ، اس زندگی کی قیمت کیا لاالہ الا اللہ، مظلوموں سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، اسرائیل کا ایک علاج الجہاد الجہاد، یہودیوں کا ایک علاج الجہاد الجہاد، مردہ باد مردہ باد امریکا مردہ باد، مردہ باد مردہ باد اسرائیل مردہ باد، القدس کی آزادی تک جنگ رہے گی، جنگ رہے گی، لبیک یا اقصیٰ، لبیک یا غزہ، لبیک لبیک لبیک یا اقصیٰ، لبیک لبیک لبیک یا غزہ
٭ جماعت اسلامی سندھ کے سابق امیر محمد حسین محنتی کی دعا پر یکجہتی غزہ مار چ کا اختتام ہوا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یکجہتی غزہ مارچ میں شاہراہ فیصل پر نرسری بس اسٹاپ مارچ کے شرکاء جماعت اسلامی لبیک یا اقصی لبیک یا غزہ اور فلسطین فلسطین کے تحریر تھا لگائے گئے بڑی تعداد ہوئی تھی میں شریک شرکاء نے گیا تھا کیا گیا پیش کی

پڑھیں:

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خلافت و ملوکیت کا فرق
اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِ جنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔
خلافتِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔
مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے (خلافت اور ملوکیت کا فرق، ترجمان القرآن، ستمبر 1965)۔
٭—٭—٭

سانحۂ مسجدِ اقصیٰ
اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں (سانحۂ مسجدِ اقصیٰ)۔

متعلقہ مضامین

  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • جماعت اسلامی کا کراچی میں غزہ چلڈرن مارچ، طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک
  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • کراچی میں مارچ 2026ء تک نادرا کے مزید 3 میگا سینٹر کھولنے کا اعلان
  • کراچی میں مارچ 2026 تک نادرا کے مزید 3 میگا سینٹر کھولنے کا اعلان
  • بدین: سیاف کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن میں کرپشن کے خلاف احتجاجی کیمپ میں شرکاء نعرے لگا رہے ہیں
  • جماعت اسلامی کے تحت کراچی چلڈرن غزہ مارچ کل ہوگا
  • مسلم حکمران زبانی بیانات کے بجائے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اور فوجی کارروائی کریں ، منعم ظفر خان
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • دوحہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی گونج