غزل
حق و باطل کبھی یکجا نہیں رہنے دیتا
آئینہ جھوٹ پہ پردہ نہیں رہنے دیتا
اس کو میں روتا بلکتا ہوا چھوڑ آیا ہوں
ساتھ لاتا تو قبیلہ نہیں رہنے دیتا
جذبۂ فخر و تکبر بھی عجب ہوتا ہے
دیر تک شخص کو اونچا نہیں رہنے دیتا
ساتھ پا جاتا اگر تپتے ہوئے سورج کا
مجھ کو ساحل پہ یہ دریا نہیں رہنے دیتا
تجربہ عمر کے ہمراہ بڑھے گا سرمدؔ
وقت کوئی گھڑا کچا نہیں رہنے دیتا
(سرمد جمال۔ لالیاں)
۔۔۔
غزل
کیوں نہ پھر خود کو میں رانجھا وہ مری ہیر لگے
اس کو جب دیکھوں مرے خواب کی تعبیر لگے
ضربتِ چشم کے منکر میں تجھے کیا بولوں
بس دعا ہے ترے دل میں بھی کوئی تیر لگے
آپ کے دست شفاعت کے تو کیا ہی کہنے
آپ کے ہاتھ سے تو زہر بھی اکسیر لگے
اس طرح ٹھاٹ سے رہیو کہ گدا ہو کے بھی
آدمی اہلِ حکومت میں کھڑا میر لگے
مجھ کو چھوڑا ہے تو تحفہ بھی مرا آگ میں ڈال
اس سے پہلے کہ یہ پائل تجھے زنجیر لگے
ہجر سے رب ہی بچائے کہ جسے یہ ڈس لے
وہ تو بھر پور جواں ہو کے بھی اک پیر لگے
ہم جنوں زاد ہیں ڈرتے ہیں صعوبت سے بھلا
ہم کو پھندہ بھی تری زلفِ گرہ گیر لگے
عاشقی اس کو ہی سجتی ہے جہاں میں بابرؔ
سامنے شیر بھی جس شخص کے نخچیر لگے
(بابر علی ویرو وال سرگودھا)
۔۔۔
غزل
روز جھنجھٹ میں نئے ڈال دیا جاتا ہے
کس مہارت سے مجھے ٹال دیا جاتا ہے
کیوں قطاروں میں رہیں کاسہ گدائی کا لیے
روند کے پھول بھی پامال دیا جاتا ہے
ہم سے کہتے ہیں کہ ہشیار ذرا رہیے گا
اور صیّاد کو بھی جال دیا جاتا ہے
کھول کر حسن کا صفحہ وہ ترے رکھتا ہے
اور قصّے کو بھی اجمال دیا جاتا ہے
دل یہ بن باپ کے ہو جیسے یتیم اے لوگو
گھر میں جو غیر کے بھی پال دیا جاتا ہے
پیار کرنے کو میسّر ہے گھڑی دو لیکن
درد سہنے کو کئی سال دیا جاتا ہے
علم اپنا نہیں، اوروں کی بتانے کے لیے
قسمتوں کا بھی یہاں فال دیا جاتا ہے
تو نے تو مجھ کو دیا خام، مگر ظرف مرا
پھل تجھے میٹھا بھی اور لال دیا جاتا ہے
یہ بلوچی کی روایات میں شامل ہے رشیدؔ
پوچھا کرتے بھی ہیں، اور حال دیا جاتا ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
جو تیرگی میں لہو کا الاپ جانتا ہے
خدا پرستوں کے سارے ملاپ جانتا ہے
خلافِ دنیا ہے لیکن بدن کی قید میں ہے
جو زندگی کو بھی ڈھولک کی تھاپ جانتا ہے
لباسِ حضرتِ آدم کو اوڑھنے والے
برہنہ سوچ پہ آدم کی چھاپ جانتا ہے؟
ادھیڑ عمر میں بیٹے کی موت ہو جانا
یہ ایسا دکھ ہے جو اکبر کا باپ جانتا ہے
ہمیشگی میں یہ تکرار ہست و بود کہاں
جو اہلِ فن ہے وہ قدرت کا ناپ جانتا ہے
(علی رقی۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
کوئی عجلت ہے مجھے اور نہ بیزاری ہے
وقت کے ساتھ ہی چلنے میں سمجھ داری ہے
جان جاتی ہے چلی جائے کوئی بات نہیں
میری عزت تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے
وقت جیسا بھی ہو آخر کو گزر جاتا ہے
فکرِ فردا ہے مجھے، اُس کی ہی تیاری ہے
ایک میں ہوں جسے محرومِ محبت رکھا
ورنہ اُس شخص کی دنیا سے وفاداری ہے
حاکمِ وقت سے شکوے تو بہت ہیں لیکن
میں ہوں مجبور مِری نوکری سرکاری ہے
موسمِ ہجر نے یہ حال کیا ہے میرا
دل ہے پُرسوز اور آواز مری بھاری ہے
اُس کی ہر بات پہ مت کان دھرا کر شوبیؔ
بولتے رہنے کی اُس شخص کو بیماری ہے
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
سوگ واروں کا تمسخر اڑانا تھا جنہیں
شوخ بھی آئے جی بھر مسکرانا تھا جنہیں
چاند سے اوجھل انھوں نے رکھے دست و قلم
ایک کاغذ پر سمندر بنانا تھا جنہیں
اِن بچھے پھولوں سے اُن کو ہی چھالے بن گئے
اپنی پلکوں کو سرِ رہ بچھانا تھا جنہیں
وہ مرے اعصاب سے آشنا ہوا ہی نہیں
چھید ڈالے ہیں وہی گدگدانا تھا جنہیں
عرش کو بھائی نہیں سب ستاروں کی چمک
ٹوٹ کر بکھرے بہت جگمگانا تھا جنہیں
تیرے پہلے جھوٹ کے وہ کہاں ہیں سامعین
تو نے اپنا آخری سچ بتانا تھا جنہیں
رہ پہ خوشبو کی جگہ بھر گئی ہے شام اب
کیا نہیں آئیں گے وہ، آج آنا تھا جنہیں
بے تکی ترتیب سے گزری ساگرؔ زندگی
یاد رکھا ہے انہیں، بھول جانا تھا جنہیں
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)
۔۔۔
غزل
شماریات سے باہر ہے تشنگی اپنی
کبھی نہ ختم ہو پائے گی بے بسی اپنی
تمہارے آنے سے پر لطف ہو گئی ورنہ
پڑی تھی بے سر و سامان زندگی اپنی
تمام عمر بھی کم ہے یہ غم منانے کو
کہ ہو گئی ابھی سے ختم دوستی اپنی
تمہیں یقین نہیں آ رہا، یقین کرو
ہر ایک شے سے ہے نایاب دل لگی اپنی
تلاشتے ہیں گریبان کو حیا والے
کہ عام لوگ نہیں جانتے کمی اپنی
مری زبان مرے سر سے کچھ تو اونچی ہے
کبھی فروخت نہ ہو پائے گی خودی اپنی
تمہارا دل تمہیں جھنجھوڑتا نہیں ہے کیا؟
جو ناک پر لیے پھرتے ہو برہمی اپنی
ضمیر مار کے جینے سے موت افضل ہے
ہے ایسی جیت سے بہتر شکستگی اپنی
کسی کی طرز پہ رہنا مجھے قبول نہیں
مجھے نمود سے پیاری ہے سادگی اپنی
طویل وقت سے رویا نہ تھا وسیم خلیل
وہ چھوڑ کر گیا تو آنکھ نم ہوئی اپنی
(وسیم اشعر۔تحصیل شجاع آباد، ضلع ملتان)
۔۔۔
غزل
دل میں اتر جو آئی وہی چیخ اور پکار
ہم نے سنی، سنائی وہی چیخ اور پکار
ہم کو دیا تو کیا دیا دنیائے بے ثبات
آنسو خلش دہائی، وہی چیخ اور پکار
اور کچھ بھی نہیں جانتا یہ جانتا ہوں میں
حصے میں میرے آئی وہی چیخ اور پکار
بے ساختہ ہی سوئی ہوئی آنکھ کھل گئی
پھر ہم کو یہاں لائی وہی چیخ اور پکار
معلوم کر سکا نہ کہ وہ تھی تو کس کی تھی؟
جب ذہن میں پھرائی وہی چیخ اور پکار
(احمد ابصار۔ لاڑکانہ)
۔۔۔
غزل
سینہ تراش کے لکھے اک نام کے حروف
اک حسنِ بے مثال پہ کچھ کام کے حروف
خلوت کے خوگروں پہ عیاں ہیں سبھی میاں
کیا صبح کے حروف تو کیا شام کے حروف
کیسے ٹکوں میں بیچتے ہو، ہوش میں تو ہو؟
ارض و سما سے بیش بہا دام کے حروف
یوں شاعری نسوں میں گھلی ہے میاں کہ میں
مدہوش ہو کے لکھ رہا ہوں جام کے حروف
تم خود کو کہہ رہے ہو سخن فہم، خیر ہے؟
تم پر ابھی کھلے نہیں خیّامؔ کے حروف
(خیام خالد۔ ٹیکسلا)
۔۔۔
غزل
ہم پہ ہر سمت اجالے تھے سبھی وار دیے
اور مرے یار جیالے تھے سبھی وار دیے
کچھ ترے ہجر کے تھے زخم مری جان پہ اور
طعنِ اغیار کے جالے تھے سبھی وار دیے
اپنا دیوان حوالے ہے سمندر کے کیا
تم پہ کچھ شعر نکالے تھے سبھی وار دیے
ہم نے کھولی تھی جو اک بار کفِ دستِ سخن
جن کو بھی جان کے لالے تھے سبھی واردیے
تم نے اک ہجر زدہ شخص پہ احسان کیا
تم نے جو راز سنبھالے تھے سبھی وار دیے
اور پھر چھوڑ دیے دوست سبھی فاروقیؔ
اور وہ سانپ جو پالے تھے سبھی وار دیے
(حسنین فاروقی۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
روگ آنکھوں سے محبت کا چھپاؤں کیسے
یادِ جاناں لیے ہوں یاد مٹاؤں کیسے
وحشتیں تم کو دسمبر کی بتاؤں کیسے
اپنے سینے میں لگی آگ دکھاؤں کیسے
شدتِ درد نے تو چھین لی گویائی میری
اے مرے دوست تجھے حال سناؤں کیسے
یاد میں اس کی جلا جاتا ہے سینہ میرا
دل تو کرتا ہے مگر اس کو بلاؤں کیسے
چارہ گر! نشتر مرہم ہیں زہر ناک ترے
زخمِ دل تجھ کو دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے
تیری موجودگی سے ہے مرا سب فنِ سخن
تو بھلا تیرے سوا مصرعے سجاؤں کیسے
چاہتا ہوں کبھی ہو شام ترے پہلو میں
شام قسمت سے یہی میں بھی چراؤں کیسے
تیرے ہی حسن نے آنکھوں کی بدولت مجھ کو
ایسے مدہوش کیا، ہوش میں آؤں کیسے
دوست میرے ہیں سبھی جان سے پیارے مجھ کو
جان سے تنگ ہوں تو جان چھڑاؤں کیسے
(رستم۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
کام چاہے جس قدر ہو دور ہونا چاہیے
خامشی تکلیف دے تو شور ہونا چاہیے
ظاہری حالت سے اندازہ لگایا نہ کرو
کوئی جب آواز دے تو غور ہونا چاہیے
ہے محبت میں نرم لہجہ بڑا ہی پراثر
ہو صدا حق کے لیے تو زور ہونا چاہیے
روز اپنوں پر بھڑکنا اور دھمکانا انہیں
ہو بہادر تو مقابل اور ہونا چاہیے
جیب کاٹے،مال لوٹے یا بجٹ کھا جائے وہ
چور ہے توچور کو پھر چور ہونا چاہیے
کتنی آساں ہے یہاں تہذیبِ نو کی ہمسری
شرم سے خالی ذہن سے کور ہونا چاہیے
موم کو پتھر بنا دیتا ہے شاہدؔ انتظار
ہے اگر جذبہ تو کچھ فی الفور ہونا چاہیے
(محمد شاہد اسرائیل۔ آکیڑہ، ضلع نوح میوات، انڈیا)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں رہنے دیتا دیا جاتا ہے ہونا چاہیے تھا جنہیں جانتا ہے کے حروف مجھ کو کو بھی
پڑھیں:
مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-8
شاہنواز فاروقی
انسانی زندگی میں مسرت کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ مسرت کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی تمام تگ و دو مسرت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ انسان دولت کمانا چاہتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کر سکے۔ انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے تا کہ خوش ہو سکے۔ انسان عہدے اور منصب کا طالب ہوتا ہے تا کہ انبساط محسوس کر سکے۔ انسان فتح مند ہونا چاہتا ہے تا کہ شادمانی اس کے قدم چوم سکے۔ غرضیکہ مسرت پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اگرچہ انسانی فطرت میں اذیت پسندی اور تباہی و بربادی کے رجحانات بھی دریافت کیے ہیں لیکن اس نے بھی انسان کے بارے میں بنیادی بات یہی کہی ہے کہ انسان کی شخصیت مسرت مرکز یا Pleasure Centric ہے۔ کارل مارکس نے سوشلسٹ انقلاب کا تصور پیش کیا لیکن سوشلزم مارکس کی فکر کا ایک مرحلہ تھا۔ مارکس کا خیال یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا سفر سوشلزم سے آگے بڑھے گا تو کمیونزم سوشلزم کی جگہ لے لے گا، اور اس مرحلے میں جبر کی تمام صورتیں معاشرے سے ختم ہو جائیں گی، یہاں تک کہ ریاست کا ادارہ بھی تحلیل ہو جائے گا، معاشرہ چھوٹے چھوٹے گروہوں یا ’’کمیونز‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا، لوگوں کی ضروریات کم ہوں گی اس لیے وہ کام بھی کم کریں گے اور زیادہ وقت ایسی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں صرف کریں گے جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ ’’مسرت‘‘ حاصل ہو سکے۔ مارکس کے یہ تصورات خواب و خیال ثابت ہوئے، انسانی تاریخ کبھی کمیونزم کے عہد میں داخل نہ ہو سکی اور سوشلزم کمیونزم کے لیے راہ ہموار کرنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن بہر حال کارل مارکس کا مثالی معاشرہ مسرت کے حصول کو سب سے بڑا مثالیہ یا Ideal سمجھتا تھا۔ تاہم مسرت کا تصور ہمیشہ تصویر انسان اور تصور کائنات سے ماخوذ رہا ہے۔
انسانی تاریخ میں نمرود اور فرعون صرف انکار حق اور باطل کی علامت نہیں ہیں، وہ مادّی مسرت کی بھی علامت ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ انسان اور کائنات کو محض ایک مازی حقیقت سمجھتے تھے اور ان کی زندگی میں صرف دو چیزوں کی اہمیت تھی: ایک طاقت اور دوسری دولت۔
چنانچہ ان کی تمام مسرتیں طاقت اور دولت سے متعلق تھیں۔ ان کے لیے انسان پر حکم چلانے میں ایک لطف تھا، ان کے لیے انسان کو غلام بنانے میں ایک لذت تھی، ان کے لیے دولت اور اس کے مظاہر کی تخلیق میں ایک مسرت تھی، ان کے نزدیک زندگی صرف دنیا تک محدود تھی، مرنے کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا، چنانچہ ان کے نزدیک ہر لمحے کو مادّی مسرت میں ڈھال لینا ہی سب سے بڑی عقل مندی تھی۔ اس کے برعکس مذہب کا تصور یہ تھا کہ انسان اول و آخر ایک روحانی حقیقت ہے۔ بلا شبہ انسان ایک جسم بھی ہے، اور جسم کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، مگر یہ ضروریات روحانی دائرے کے اندر ہیں، اس سے باہر نہیں ہیں۔ اس طرح مذہب کائنات کو اس کی مادی حقیقت سے آگے بڑھ کر بیان کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ کائنات اللہ کی لاتعداد نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مذہب کے دائرے میں آخرت کا تصور مسرت کے تصور کو ایک جانب زمین سے اْٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے، دوسری جانب وہ مسرت کو عارضی کے بجائے مستقل بنا دیتا ہے، اور تیسری جانب وہ مسرت کو ایسی جامعیت عطا کرتا ہے جو روح نفس اور جسم پر محیط ہے۔
رسول اکرمؐ کے عہد میں اگر چہ عرب کفر اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان میں سے اکثر کا کفر اور شرک ان کی فطرت کی کجی کا نہیں، ان کے ماحول کے جبر کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مسرت کا تصور طاقت اور دولت سے آگے جاتا تھا۔ عرب اپنے تمام تر کفر اور شرک کے باوجود خانہ کعبہ کی بڑی تکریم کرتے تھے اور اس کی دیکھ بھال کو بڑا شرف جانتے تھے۔ ان کے نزدیک خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کے طواف کے لیے آنے والے بڑے محترم ہوتے تھے اور ان کی خبر گیری انہیں بہت عزیز تھی۔ عرب بلا کے مہمان نواز تھے۔ ان کی سخاوت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے یہاں پناہ کا تصور اتنا مکرم تھا کہ وہ اپنے عزیز ترین شخص کے قاتل کو بھی مخصوص مدت کے لیے پناہ دے دیتے تھے۔ ان کے نزدیک شعر کہنے، شعر سننے اور شعر یاد رکھنے میں کسی بھی چیز سے بڑھ کر مسرت تھی۔ وہ قصیدے کہنے والے شاعروں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیتے تھے۔ ان کے نزدیک خطابت بڑا فن تھا اور اس کی مسرت بے پناہ تھی۔ دوستوں کے لیے جان دے دینا اور ان کے لیے جان لے لینا ان کا معمول تھا اور اس میں ان کے لیے بڑے معنی تھے۔ ان کے نزدیک شجاعت ایک اعلیٰ ترین انسانی قدر تھی اور اس کی پاسداری میں ان کے لیے بڑے معنی اور بڑا لطف تھا۔ یہ ساری خوبیاں عربوں میں اس لیے تھیں کہ رسول اکرمؐ کو ان کے درمیان آنا تھا۔ آپ تشریف لائے اور آپ نے وحی اور اسوہ حسنہ کی قوت اور جمال سے ماحول کے جبر کو توڑ دیا۔ چنانچہ کفر اور شرک کی ضلالت ختم ہو گئی اور بدترین لوگ بھی انسانی تاریخ کے بہترین لوگ بن گئے۔ کم لوگ ایسے تھے جو سلیم الفطرت نہیں تھے، وہ یا تو غزوات میں مارے گئے یا دارالسلام سے فرار ہو گئے، یا پھر معاشرے میں نا قابل اثر بن کر رہ گئے۔
انسانی تاریخ میں ہمارے عہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس عہد میں کفر اور اس سے پیدا ہونے والی مادیت جتنی ’’مدلل‘‘ بنی، اس سے پہلے تاریخ میں بھی نہیں بنی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید نفسیات نے کہا کہ انسان ایک مادی حقیقت ہے، حیاتیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی شے ہے، طبیعیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی چیز ہے… غرضیکہ علم کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس نے انسان اور کائنات کو مادیت سے آگے پہچانا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسرت کا تصور مادی امور تک محدود ہو گیا۔ انسانوں نے کہا کہ اصل چیز سرمایہ ہے، چنانچہ انہوں نے اس بنیاد پر پوری انسانیت کو تقسیم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس سب سے زیادہ سرمایہ ہے وہ پہلی دنیا ہے، ترقی یافتہ دنیا ہے۔ جس کے پاس اس سے کم سرمایہ ہے وہ دوسری دنیا ہے، ترقی پذیر دنیا ہے۔ جس کے پاس سب سے کم سرمایہ ہے وہ تیسری دنیا ہے، پسماندہ دنیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کا شرف اس بات سے برآمد ہوتا ہے کہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کی قدر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی فی کس آمدنی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل چیز تو قوموں کی معیشت کی شرح نمو ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام چیزیں عصر حاضر کے بت بن گئیں۔ ان بتوں نے پوری دنیا میں انفرادی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ چنانچہ مغرب کیا مشرق میں بھی دولت مسرت کا سر چشمہ بن گئی۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال جاری رہے گی؟ یا مادی مسرت کا تصور چیلنج ہوگا اور اس کی جگہ مسرت کا زیادہ حقیقی اور زیادہ جامع تصور دنیا میں رائج ہوگا؟
اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں لیکن مادّی مسرت کا رائج الوقت تصور رفتہ رفتہ اپنی کشش کھو رہا ہے۔ اس کی تین شہادتیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے زوال کے بعد مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری دنیا میں جو غلبہ اور تسلط حاصل ہوا تھا اس نے اس تصور کو عام کیا تھا کہ انسانیت کی بقا اس نظام کے تحفظ اور پیروی میں ہے اور یہ نظام اتنا کامیاب اور تضادات سے پاک ہے کہ کم از کم 21 ویں صدی میں اسے کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں ہوگا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام سنگین داخلی بحران کا شکار ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی حریف کے بغیر ہی اس کی کمزوریاں عیاں ہو رہی ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات سے وابستہ مسرتیں خطرے میں ہیں۔ مادی مسرت کے تصور کو در پیش مسائل کا ایک ثبوت یورپ میں یورو کا بحران ہے۔ یورپی اتحاد یقینا ایک سیاسی اتحاد بھی ہے، لیکن اس کا معاشی پہلو سیاسی پہلو پر غالب ہے۔ اس کی ایک شہادت مشتر کہ منڈی کا تصور ہے، جبکہ اس کی دوسری شہادت مشتر کہ کرنسی کا نظام ہے۔ تاہم یورپی معیشت کے بحران نے… مادی مسرت کے تصور کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یورپ جو بھی سماجی بہبود، کم اوقات کار، طویل تعطیلات، مادی مواقع اور مساوی تنخواہوں کی سرزمین تھا اب سماجی فوائد میں کمی کی سرزمین بن گیا ہے۔ بچت اور سادگی کے نام پر روزگار کے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں اور محنت کشوں کی منڈی میں سخت مقابلے کی فضا پیدا ہو چلی ہے۔
مادّی مسرت کے تصور کی پسپائی کا ایک چھوٹا سا مظہر یہ ہے کہ بھوٹان کی حکومت نے مسرت کے حصول کو عوامی مفاد اور اجتماعی ہدف قرار دیا ہے۔ بھوٹان میں اس کام کی ابتدا 1970ء میں ہوئی تھی جب بھوٹان کے سابق بادشاہ جگمے سنگھے وانگ چک نے مجموعی قومی پیداوار یا جی این پی کے بجائے مجموعی قومی مسرت یعنی جی این ایچ کا تصور پیش کیا اور کہا کہ مسرت کا حصول بھوٹان کی قومی پالیسی ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی نمو اور سماجی ترقی کے سلسلے میں مسرت کی اہمیت فیصلہ کن ہے۔ پیرس میں قائم اقتصادی تعاون اور ترقی سے متعلق تنظیم OECD نے ملکوں کے حالات کے تعین کے لیے ’’پیمانۂ مسرت‘‘ متعارف کرایا جس کے تحت مختلف ملکوں کے لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ اپنے روز گار کو پسند کرتے ہیں؟ آپ کی صحت کیسی ہے؟ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ ضرورت کے مطابق وقت گزارتے ہیں؟ کیا ضرورت کے وقت آپ کے دوست آپ کے ساتھ ہوتے ہیں؟ کیا آپ اپنے پڑوسیوں پر اعتماد کرتے ہیں؟ آپ اپنی مجموعی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس ملک کے لوگ کتنے خوش اور مطمئن ہیں۔ تائیوان نے ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ (Index) جاری کرے گا۔ تھائی لینڈ میں بھی اس حوالے سے پیش رفت کا امکان ہے۔ یہ صورت حال اس امر کی نماز ہے کہ مذہب کے بغیر بھی مادّی مسرت کے تصور میں روحانی مسرت کا تصور در آیا ہے۔ لیکن روحانی مسرت کا یہ تصور مجرد بھی ہے اور نا کافی بھی۔
اس کے برعکس اسلام روحانی مسرت کے تصور کو نیکی کے ساتھ منسلک کر کے ٹھوس، وسیع اور ہمہ گیر بنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی تصورات چار ہیں۔
ایک یہ کہ انسان کی اصل اور سب سے بڑی مسرت یہ ہے کہ اس کا خالق، مالک اور رازق اس سے راضی ہو جائے، کیونکہ خدا کو خوش کیے بغیر انسان کی کسی خوشی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کی خوشی کو جاننے کا طریقہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اس کی واحد صورت اور اس کا واحد معیار ہے۔
اسلام کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے کتنا خوش ہے؟ اس کی گواہی صرف انسان کا ضمیر فراہم کر سکتا ہے۔ ضمیر کا اطمینان شخصی مسرت کی اعلیٰ ترین اور ٹھوس صورت ہے۔
اسلام کا تیسرا تصور یہ ہے کہ انسان سے دوسرے انسان کسی حد تک خوش ہیں؟ یہ حقوق العباد کا دائرہ ہے اور یہاں معاملہ گھر کے افراد سے شروع ہوتا ہوا عزیزوں، پڑوسیوں اور ساری دنیا کے انسانوں تک جاتا ہے، اور اسلام بتاتا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ یا نیکی ہے۔ اسلام میں نیکی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات فنا ہو جانے والی ہے البتہ ذرے کے برابر کی گئی نیکی بھی باقی رہنے والی ہے۔
اسلام کا چوتھا تصور یہ ہے کہ انسان نے دائمی زندگی یا آخرت کے لیے کتنی فکر اور کتنا عمل کیا؟ فرض کیجیے کہ اگر انسان نے سارے عمل دنیا کے لیے کیے، تو اس میں مسرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ اگر اس کے تمام یا اکثر عمل آخرت کے لیے ہیں تو یہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔
یہ حقیقی مسرت کے وہ تصورات ہیں دنیا جن سے نا آشنا ہے، یہاں تک کہ مسلمان بھی ان سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ان سے آگاہ ہونے کا حق ہے۔ لیکن ان تصورات کے ذریعے ہی دنیا حقیقی مسرت سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔