جی ایچ کیو حملہ کیس میں سرکاری گواہ آج بھی پیش نہ ہو سکے، سماعت پھر ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت 21 اپریل تک ملتوی کردی
عدالت نے آج 2 گواہوں مجسٹریٹ اور مدعی مقدمہ کو طلب کررکھا تھا۔ جج امجد علی شاہ کے روبرو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہان آج بھی پیش نہیں ہو سکے۔
دورانِ سماعت وکلائے صفائی نے عدالت سے استدعا کی گئی کہ بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے لیے ملاقات کی اجازت دی جائے تاکہ کیس سے متعلق ان سے مزید رہنمائی لی جاسکے۔ علاوہ ازیں ایک ہی نوعیت کے تمام مقدمات کو یکجا کیا جائے اور ایک ساتھ ٹرائل شروع کیا جائے۔
قبل ازیں سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش ہونے والے ملزمان حاضری لگوا کر عدالت کی اجازت سے واپس روانہ ہو گئے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے مقدمات کا 4 ماہ میں ٹرائل مکمل ہونے کے حکم کے بعد تحریری فیصلے کا انتظار کیا جا رہا ہے، جس کے موصول ہونے پر جی ایچ کیو حملہ سمیت 9 مئی کے دیگر کیسز کی سماعت ہفتے میں 2 روز ہوا کرے گی۔
سماعت کے بعد وکیل محمد فیصل ملک ایڈووکیٹ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت 21 اپریل تک ملتوی کی گئی ہے، کیوں کہ استغاثہ کے گواہان موجود نہیں تھے۔
یاد رہے کہ جی ایچ کیو گیٹ ون حملہ کیس میں 119 گواہ ہیں، جن میں سے 25 کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں، تاہم ابھی تک کسی بھی اہم گواہ پر جرح نہیں ہوسکی۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جی ایچ کیو حملہ حملہ کیس
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔