ایف بی آرسیلزٹیکس میں آنے والے مسائل کا فوری حل کرے‘ ٹیکس ایڈوائزرز ایسوسی ایشن
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2025ء)پاکستان ٹیکس ایڈوائزر زایسوسی ایشن نے کہاہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو سیلز ٹیکس میں آنے والے مسائل کا فوری حل کرے ،تحقیق کیے بغیر کاروبار سیل نہ کئے جائیں،پی او ایس سسٹم میں تکنیکی خرابیاں دور کیے بغیر سیلز ٹیکس میں شفافیت لانا ناگزیر ہے۔ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالغفار اورجنرل سیکرٹری خواجہ ریاض حسین نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ جن شاپنگ ہالز اور دکانوں پر پوائنٹ آف سیلز سسٹم سوفٹ ویئر نصب کیے گئے ہیں وہ ایف بی آر کے پورٹل کے ساتھ مطابقت ہی نہیں رکھتا اورانوائسز ڈالنے کے باوجود ایف بی آر کے پورٹل پر ظاہر نہیں ہوتا جس کی وجہ ایف بی آر کے پورٹل سسٹم کا بند رہنا ہے ۔
پرال سے شکایت کی تو ایف بی آر پر غلطی ڈالی جاتی ہے اور ایف بی آر کے افسران پرال پر ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔(جاری ہے)
بتایا جائے اس سارے عمل میں سیلز ٹیکس رجسٹریشن کرنے والوں اور پوائنٹ آف سیلز سسٹم لگوانے والوں کا کیا قصور،وہ بھاری جرمانے اور بھاری رشوت کیوں دیں،ایف بی آر اور پرال کی غلطیوں کا ازالہ ٹیکس پیئر کوکرنا پڑ رہا ہے۔انہوںنے کہا کہ ونڈو سیون کو تو ایف بی آر کا سسٹم اٹھاتا ہی نہیں ،نیٹ ورکنگ کے مسائل حل کرنا ایف بی آر یا پرال کی ذمہ داری ہے نہ کہ ٹیکس پیئر کی ،اگر اگر پوائنٹ آف سیلز ٹیکس سسٹم میں انوائس بغیر ایف بی آر کے بار کوڈ کے جاری ہو رہی ہوں تو ٹیکس پیئر کی غلطی ہے اگر ایف بی آر کے بارکوڈ کی انوائسز جاری ہو رہی ہیں اور ایف بی آر کا پورٹل ظاہر یا قبول نہیں کرتا تو ایف بی آر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیلز ٹیکس اور پی او ایس میں آنے والے مسائل کا فوری ازالہ کرے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایف بی آر کے سیلز ٹیکس
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔