فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کے پیچھے بیرونی قوتیں، مولانا فضل الرحمٰن
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے بیرونی قوتیں تھیں۔
پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہمارے ساتھیوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز کا حساس ترین معاملہ ہے، معدنیات کے لیے وفاقی حکومت نے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، وفاق صوبے کے وسائل پر یکطرفہ قبضے کی کوشش کررہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے، جے یو آئی 18 ویں ترمیم پر قدغن قبول نہیں کرے گی۔
بیرونی مداخلت کی بھی راہ ہموار کی جارہی ہے
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہوش کے ناخن نہیں لیتی تو ہم مجبورا عوام کے پاس جائیں گے، وفاق کو خود سوچنا چاہیے قومی اسمبلی اور سینیٹ نے 18ویں ترمیم پاس کی، 26ویں ترمیم پاس ہوئی، 56 کلاسز میں 36 کلاسز سے پیچھے ہٹنا پڑا، 26 ویں ترامیم کے بعد وفاقی حکومت اب بل لا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا قانون صوبوں سے پاس کرایا جارہا ہے، معدنی ذخائر اور قیمتی پتھر ہیں، بل پر خدشات ہیں، صرف وفاق نہیں، بیرونی مداخلت کی بھی راہ ہموار کی جارہی ہے، کوئی کاروبار کرنا ہے تو صوبے سے کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ معدنیات صوبے کے ہیں، اختیار صوبے کا ہے، ہمارے مفادات ترجیح ہونی چاہیں، قانون سازی قابل قبول نہیں ہے، فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے بیرونی قوتیں تھیں۔
افغان تاجروں نے بینکوں سے پیسے نکال لیے تو بینک دیوالیہ ہوجائیں گے
انہوں نے کہا کہ قبائلی انضمام کرلیا گیا لیکن معدنیات میں قبائل جیسی صورتحال بنائی جارہی ہے، جب مفاد ہو تو قبائلی علاقے اور مفاد نہ ہو انضمام کی بات کی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغان مہاجرین کا جبری انخلا کیا جارہا ہے، یہ مسئلہ 2017 میں اٹھا تھا جب یہاں سے مہاجرین کو واپس کیا گیا، ہم نے کیٹیگری کی تجویز دی، پہلی کیٹیگری وہ لوگ جو یہاں پڑھے، مہارت حاصل کی اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ دوسری کیٹیگری تاجروں کی ہے، اگر افغان تاجروں نے بینکوں سے پیسے نکال لیے تو بینک دیوالیہ ہوجائیں گے، تیسری کیٹیگری طالب علموں کی ہے، طالب علموں کی پڑھائی ختم نہ کی جائے، عام افغان مہاجرین 40 سال مہمان رہے، کیسے لات مار کر نکال سکتے ہیں۔
جس طرح افغانیوں کو نکالا جارہا ہے، اس طریقہ کار کا عالمی اداروں کو نوٹس لینا چاہیے
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو مل کر واپسی کا طریقہ اپنانا چاہیے، جس طرح افغانیوں کو نکالا جارہا ہے اس طریقہ کار کا بین الاقوامی اداروں کو نوٹس لینا چاہیے، ہماری تجاویز کابینہ کے اجلاس میں پیش ہوئیں، کون اس ملک کو چلا رہا ہے، کون فیصلے کررہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کیوں نااہل ہے؟ جو طے ہوا، اسے دوام نہیں بخش سکی، دوسروں کی غلطیاں سر پر نہیں تھوپنی چاہیے، صوبے میں اس وقت بدامنی ہے، سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جنوبی اضلاع میں حکومتی رٹ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں عوام کو کس کے ہاتھ پر چھوڑ دیا گیا ہے، مسلح گروہوں کے ہاتھوں کاروبار کوئی نہیں کرسکتا، 17 ہزار سرکاری ملازمین کو نکالا جارہا ہے، مرکزی کونسل کا اجلاس 19، 20 اپریل کو بتایا ہے۔
ان کہنا تھا کہ 11 مئی کو مینار پاکستان پر ملین مارچ ہوگا، ہم حق کی جنگ لڑ رہے پیں، ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں، پاکستان کے اندر رہ کر بات کریں گے، ہم پاکستان سے الگ ہونے کی بات نہیں کریں گے، نہ آزادی کی بات کریں گے، ہم صوبے کے حق کی بات کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جس نے غلطی کی، اس حوالے سے تحقیق کررہے ہیں، کارروائی پوگی، مائنز اینڈ منرلز بل پر دوسری جماعتوں سے رابطہ کریں گے، تجارت ہونی چاہیے لیکن صوبے کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہییں۔
لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے پرویز خٹک اور محمود خان کو وزیراعلی بنایا وہ اب پی ٹی آئی کے ہیں یا کسی ادارے کے ہیں، جو افغان مہاجرین واپس جانا چاہتے پیں، ان پر اعتراض نہیں، ہمارا رویہ افغانوں کے ساتھ ٹھیک نہیں، صوبائی اختیارات صوبوں کو سوپنے کے باوجود کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا، نہریں نکالنے اور مائنز اینڈ منرلز قوانین سے عوام اور اداروں میں دوریاں پیدا ہوں گی، فلسطین حالت جنگ میں ہے، کیا کشمیر میں فوج لڑ رہی ہے؟ قوم آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ پاکستان نے تسلیم کیا، جو لوگ جہاد کے نفس کا مذاق اڑاتے ہیں وہ شریعت کا مذاق اڑاتے ہیں، علماء بے کہا پاکستان میں مسلح لڑائی نہیں ہونی چاہیے، ہم نے تائید کی، اسرائیلی علماء نے جہاد کا اعلان کیا ہم نے ان کی تائید کی، 27 اپریل کو مینار پاکستان اور 11 مئی کو پشاور میں ملین مارچ کریں گے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان مولانا فضل الرحمان ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ جارہا ہے کے پیچھے صوبے کے کریں گے کی بات
پڑھیں:
پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ اس وقت پارٹی اور وفاقی حکومت یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام دوسرا رخ میں گفتگو کرتے ہوئے گوہر علی خان نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں تلاش نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: موجودہ آرمی چیف کے دور میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے، بیرسٹر گوہر علی خان
انہوں نے بتایا کہ جب مارچ 2024 میں پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا مینڈیٹ چُرایا گیا ہے، تو پارٹی بانی عمران خان نے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی، مگر جب بات چیت آگے نہ بڑھی تو کہا گیا کہ پی ٹی آئی صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے۔
گوہر علی خان کے مطابق عمران خان نے کہا تھا کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اگر کوئی تجویز لے کر آتے ہیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید بتایا کہ 26 نومبر کو ایک اور کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی۔ ہماری اور حکومت کی کمیٹیوں کے قیام کے باوجود دو ہفتے تک ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد حکومت نے ملنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، اس لیے ہم نے محض فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا قومی اسمبلی کی 4 قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد محض بات چیت نہیں بلکہ سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنا تھا، جو جمہوریت، پارلیمان اور تمام جماعتوں کے لیے بہتر ہوتا، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشنز پر مؤقفگوہر علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں جاری آپریشنز کے حوالے سے جنوری، جولائی اور ستمبر میں آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں۔ ان کے مطابق انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ضروری ہیں، تاہم ان میں شہریوں کو نقصان یا سیاسی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ آپریشنز میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے گھر آج تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکے، اس لیے آئندہ کسی بھی کارروائی میں عوامی تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسٹیبلشمنٹ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی مذاکرات