سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جج آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جج آئینی بینچ WhatsAppFacebookTwitter 0 17 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا ہے کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں۔
انہوں نے استدلال کیا کہ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کیلئے آفیسر باقائدہ حلف لیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے،خواجہ حارث نے کہا کہ محرم علی آوے لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے۔
انہوں نے مزید استدلال کیا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا،
یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فوجی عدالتیں عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن
لاہور (ویب ڈیسک) معروف صحافی اقرارالحسن ایک بار پھر پی ٹی آئی کے بانی پر برس پڑے اور کہا ہے کہ عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں۔
اپنے سلسلہ وار ٹوئیٹس میں اقرارالحسن نے کہاکہ عمران خان اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں لیکن مرضی سے نہیں، یہ ان کی مجبوری ہے اسلئے کہ فوجی قیادت انہیں منہ نہیں لگا رہی۔ انہیں آج کوئی فوجی دو ٹکے کی نوکری آفر کرے تو یہ اُن کے بوٹ کولہوں سے رگڑ کر صاف کیا کریں گے۔ ان کا کوئی اصول تو ہے نہیں، مرزا آفریدی کیس میں آپ نے دیکھ ہی لیا۔
عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا
عمران خان اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں لیکن مرضی سے نہیں، یہ ان کی مجبوری ہے اسلئے کہ فوجی قیادت انہیں منہ نہیں لگا رہی۔ انہیں آج کوئی فوجی دو ٹکے کی نوکری آفر کرے تو یہ اُن کے بوٹ کولہوں سے رگڑ کر صاف کیا کریں گے۔ ان کا کوئی اصول تو ہے نہیں، مرزا آفریدی کیس میں آپ نے دیکھ ہی لیا۔
— Iqrar ul Hassan Syed (@iqrarulhassan) July 24, 2025
حسان نیازی پتلون لہرانے کے کیس میں جیل ہے تو علیمہ خان کا بیٹاکس طرح آزاد گھوم رہاہے ، وہ بھی اسی ویڈیو میں تھا: شیر افضل مروت
ان کامزید کہناتھاکہ اصولی موقف کیا ہے؟ پہلے امریکی مداخلت کے خلاف مہم چلائی آج اپنی رہائی کے لیے امریکی مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں، کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہئے پھر انہیں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ خود کو نظریاتی پارٹی کہتے ہیں پھر مرزا آفریدی کو محض دولت کی وجہ سے سینیٹر بنا دیتے۔
مزید :