وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ملک کو ڈنڈے کے زور پر نہیں چلایا جاسکتا، 2024 کے الیکشن میں جس طرح سے بدترین دھاندلی کی گئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہیں پاکستان میں الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ لوگ چاہئیں، عمران خان اس لیے جیل میں ہے کیوں کہ وہ نظام کے لیے خطرہ ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق لاہور ہائیکورٹ بار میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ عوام پر اپنے لوگوں کو مسلط کرنے کے لیے بار بار تجربے کیے گئے، وہ تجربات پوری قوم کے سامنے ہیں، ان تجربات کے نتیجے میں پاکستان 76 ہزار ارب کے قرضوں میں ڈوب چکا ہے، آج پاکستان کی یہ حالت ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک نہ خوددار رہا نہ خودمختار رہا۔

علی امین نے کہا کہ یہ کہتے ہیں پاکستان کے لیے لگے ہوئے ہیں، اگر تم پاکستان کے لیے لگے ہوئے ہو، تو پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان میں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں الیکشن میں تم ہمیشہ دھاندلی کرتے ہو۔

انہوں نے کہا کہ 2024 کے الیکشن میں جس طرح سے بدترین دھاندلی کی گئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہیں پاکستان میں الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ لوگ چاہئیں، کیونکہ تم ہی نے اصل میں حکومت چلانے ہوتی ہے اور تم نے ہی حکومت گرانی ہوتی ہے، تو پھر جب حکومت تم چلاؤ اور تم گراؤ تو پھر یہ اسمبلیاں اور آئین کیوں بنایا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے مزید کہا کہ تو پھر اگر آپ جج بھی وکیل بھی ہو اور مدعی بھی ہو تو پھر ایسے ملک نہیں چل سکتے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان صرف اور صرف اس قوم، مسلمانوں، اسلام اور ناموس رسالتﷺ کی بات کرتا ہے، اس لیے وہ آج جیل میں ہے، کیونکہ اس سے نظام کو خطرہ ہے، خطرہ یہ ہے کہ وہ پاکستان قانون کی حکمرانی چاہتا ہے، پاکستان میں اسلامی حققوق اور پاکستان کی خودمختاری اور خودداری کی بات کرتا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پاکستان میں نے کہا کہ علی امین کے لیے تو پھر

پڑھیں:

بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مگر تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ یہاں تعلیمی سہولیات کی کمی، اسکولوں کی ناکافی تعداد، اساتذہ کی غیر حاضری اور والدین میں تعلیم کی اہمیت کا شعور نہ ہونا جیسے عوامل نے تعلیمی ترقی کو سخت متاثر کیا ہے۔ دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح کم اور شرح خواندگی بھی نہایت کم ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ بلوچستان میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں 85 فیصد غیر فعال اسکولوں میں تدریس کا آغاز

یہ سوال وی نیوز نے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ، مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن منیر احمد سے کیا جنہوں نے بتایا کہ موجودہ تعلیمی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، ملک بھر میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے جبکہ بلوچستان میں 29 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبے میں اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں تک لانے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے لیے ہم نے 2 لاکھ 10 ہزار بچوں کو اسکول لانے کا ہدف مقرر کیا جس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے مطابق یہ ٹیمیں ایک سال کے دوران 2 لاکھ 26 ہزار 563 طلبا کو اسکول لانے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کے رواں ماہ کے اختتام تک ہم ڈھائی لاکھ بچوں کو اسکول لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس دوران جہاں وزیر تعلیم راحیلہ درانی اور محکمہ تعلیم نے دن رات کوششیں کیں وہیں یونیسف کے تعاون کے بغیر یہ سب ناممکن ہوتا۔

ڈائریکٹر نظامت اسکولز اختر محمد کھیتران نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کے تعلیمی نظام میں کئی مسائل موجود تھے لیکن محکمہ تعلیم کی کاوشوں اور یونیسف کے مشکور ہیں جنہوں نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں احسن قردار ادا کیا۔

مزید پڑھیے: محکمہ تعلیم بلوچستان کا 29 لاکھ بچوں کو اسکولوں میں واپس لانے کا عزم، 372 غیر حاضر اساتذہ نوکری سے فارغ

انہوں نے کہا کہ دراصل بلوچستان میں بڑے پیمانے پر بچے اسکولوں سے باہر ہیں جس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ فاصلے کا زیادہ ہونا سب سے بڑی وجہ تھا جس پر قابو پانے کے لیے ہم نے صوبے بھر کے لیے 140 بسیں منگوائی ہیں جن میں سے 5 آچکی ہیں جبکہ باقی مرحلہ وار پہنچ جائیں گی۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

 پروگرام منیجر ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نقیب اللہ نے بتایا کہ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال اب بھی کئی چیلنجز سے دوچار ہے، جہاں اندازاً 30 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس تعلیمی پسماندگی کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا کی وبا، روزگار کے مواقع کی کمی، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، تقریباً 3 ہزار اسکولوں کی بندش اور تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کے طریقہ کار شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کی تعداد زیادہ جبکہ مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد نسبتاً کم ہے جس سے تعلیمی تسلسل میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ سیکیورٹی کے مسائل، اساتذہ کی کمی اور طلبہ کی کم حاضری بھی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ان مشکلات کے مقابلے کے لیے یونیسف بلوچستان کے تعلیمی شعبے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یونیسف کی معاونت سے بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان تیار کیا گیا، جس کے تحت اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت، اسیسمنٹ میکینزم کی بہتری اور اسکولوں کی بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔

نقیب اللہ نے بتایا کہ ہم نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹرانزیشنل اسکول شیلٹرز قائم کیے گئے اور اسکول مانیٹرنگ کے لیے ریئل ٹائم سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متبادل تعلیمی راستے (Alternative Learning Pathways) بھی متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہزاروں بچوں کو دوبارہ تعلیم کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ یونیسف نے اسکل بیسڈ تعلیم کی شروعات کی ہے جس میں مڈل ٹیک اور میٹرک ٹیک کی کلاسز شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں تعلیم کی تنزلی تیزی سے جاری، غیر فعال اسکول ساڑھے 3 ہزار سے متجاوز

ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹی کی شمولیت کے لیے والدین اور ٹیچر ایسوسی ایشنز، اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں اور لوکل ایجوکیشن کونسلز فعال کی گئی ہیں۔ بچوں میں قیادت پیدا کرنے کے لیے چیمپئن کلبز قائم کیے گئے ہیں اور ماحولیاتی آگاہی و تعلیمی داخلہ مہمات بھی سالانہ بنیاد پر منعقد کی جاتی ہیں۔

نقیب اللہ نے مزید کہا کہ بچوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے لائبریریوں کا قیام، بچیوں کی مخصوص مسائل پر آگاہی اور تعلیمی مواد کی فراہمی جیسے اقدامات بھی جاری ہیں۔ ڈسٹرکٹ سطح پر ایجوکیشن گروپس ماہانہ بنیادوں پر میٹنگز کرتے ہیں جبکہ صوبائی سطح پر لوکل ایجوکیشن گروپ ہر 90 دن بعد تعلیمی اہداف کا جائزہ لیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومتی اقدامات، بشمول ٹیچرز کی بھرتی اور بند اسکولوں کی بحالی، تعلیم میں بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن، فیصلہ سازی کے بہتر نظام، اور اسکولوں کی حاضری و سہولیات میں بہتری سے واضح تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اگر موجودہ رفتار سے اقدامات جاری رہے تو بلوچستان کا تعلیمی مستقبل روشن ہونے کی امید ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آؤٹ آف اسکول بلوچستان بلوچستان اسکول سے باہر بچے بلوچستان کے اسکول بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال

متعلقہ مضامین

  • صوبے کے ریونیومیں اضافہ،اب ہم وفاق کو بھی قرض دے سکتے ہیں:علی امین گنڈاپور
  • اب ہم وفاق کوبھی قرضہ دے سکتے ہیں: وزیر اعلیٰ کے پی کا دعویٰ
  • ہم وفاق کو بھی قرضہ دے سکتے ہیں: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا
  • امداد لیکر غزہ پہنچنے والے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل کا ڈرونز سے حملہ
  • وفاق ہم سے امداد مانگ رہا ہے، ہم امداد دینے کے قابل بھی ہیں، وزیرعلیٰ علی امین گنڈاپور
  • بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)
  • بانی کی رہائی کیلئے تحریک کی تیاری کر رہے ہیں، علی امین گنڈاپور
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے تحریک کی تیاری کر رہے ہیں، علی امین گنڈاپور
  • ایک رات میں سب کچھ تبدیل نہیں کیا جاسکتا، وفاقی وزیر خزانہ
  • عید کا دن دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کیلئے ایثار و قربانی کا احساس دلاتا ہے، وزیراعلیٰ خبیر پختونخوا