سپریم کورٹ ائینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل آج بھی مکمل نہ ہو سکے، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟

نیوز ڈیسک کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں.

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں، لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کے لیے آفیسر باقائدہ حلف لیتے ہیں۔

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔

خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ محرم علی اور لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے، وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا، یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں، خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتیں، عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل میں غلطی اپیل میں دیکھی جاتی ہے، غلطی کی درستی کا فورم کونسا ہوگا؟ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ جب ہائیکورٹ میں رٹ فائل کریں گے تو نشاندہی کریں گے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ گواہ کے قلمبند بیان کی کاپی فراہم نہیں کی جاتی، کیسے تعین ہوگا کہ گواہی درست ریکارڈ ہوئی ہے، ہو سکتا ہے غیر ارادی طور پر کوئی بات لکھنا رہ جائے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ تعصب کا نقطہ اوپر والی عدالت میں اٹھایا جا سکتا ہے، مفروضے پر بات تو نہیں ہو سکتی، ٹرائل میں تمام متعلقہ افسران حلف اٹھاتے ہیں، قلم بند بیان پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ غیر ارادی طور پر ٹرائل میں غلطی ہو سکتی ہے، عدالت کا سوال تعصب یا نیت یا اہلیت پر نہیں۔ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیاکہ رٹ میں کسی بھی غلطی کی نشاندہی ملزم کا وکیل کر سکتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا 40 منٹ مزید درکار ہوں گے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں، جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ میں بھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا کہ میں 10 منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟ بعد ازاں آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کل تک جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کریں گے، 28 تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28 تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا جسٹس جمال مندو خیل نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتوں میں اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 175 رہے ہیں کہ فوجی سکتا ہے کے تحت کیس کی

پڑھیں:

سرجری یافلرز، کومل میر کا چہرہ کیوں بدلا؟ اداکارہ نے سب کچھ بتادیا

کراچی(شوبز ڈیسک) پاکستانی اداکارہ و ماڈل کومل میرنے فلرز یا کسی قسم کی کاسمیٹک سرجری کی تردید کرتے ہوئے اپنی حالیہ تبدیلی کی وجہ وزن میں اضافہ بتایا ہے۔

کومل میر نے جب“مس ویٹ پاکستان“ سے شوبز میں قدم رکھا تو وہ دبلی پتلی جسامت اور معصوم شکل کے باعث مداحوں میں فورا توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ مگر حالیہ دنوں میں ان کی کچھ تصاویر وائرل ہوئیں جن میں ان کا چہرہ خاصا مختلف نظر آ رہا تھا۔

اس اچانک تبدیلی نے سوشل میڈیا پر چہ مگوئیوں کو جنم دیا اور مداح یہ سوال کرنے لگے کہ آیا یہ تبدیلی وزن بڑھنے کا نتیجہ ہے یا پھر چہرے پر فلرز کروائے گئے ہیں؟

کومل میر نے اب ایک انٹرویو میں اپنے وزن اور چہرے میں نظر آنے والی تبدیلی کی حقیقت بیان کردی۔

کومل میر نے پہلی بار اس حوالے سے وضاحت سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے چہرے کی تبدیلی دراصل وزن میں اضافے کی وجہ سے ہوئی، نہ کہ کسی کاسمیٹک پروسیجر یا فلرز کی وجہ سے۔

انہوں نے کہا کہ “میں ہمیشہ انڈر ویٹ رہی ہو اور ماضی میں ایٹنگ ڈس آرڈر کا شکار بھی رہی ہوں۔ میری عادت رہی تھی اگر کچھ دن کھالوں تو اگلے دن بھوک کا احساس نہیں ہوتا تھا اور جب مجھ پر وزن کم ہونے کے حوالے سے تنقید کی جاتی تو اسے سنجیدہ نہیں لیتی تھی۔

وزن بڑھانے کا خیال کیسے آیا اس کے بارے میں کومل میر نے کہا کہ جب میں فلموں کا رخ کیا تو مجھے لگا کہ میں بڑی اسکریں پر بہت دبلی پتلی نظر آوں گی اسی لیے مجھے مشورہ دیا گیا کہ اگر بڑی اسکرین پر آنا ہے تو تھوڑا صحت مند دکھنا چاہیے۔ میں نے کھانے پینے کا خاص خیال نہیں رکھا، بس نارمل طریقے سے چھ کلو وزن بڑھ گیا، جو زیادہ تر چہرے پر چڑھ گیا۔“

کومل نے کہا کہ جیسے ہی ان کی نئی تصاویر منظر عام پر آئیں، سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے ان پر فلرز کروانے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے چہرے پر کچھ نہیں کروایا، اور یہ صرف فطری وزن بڑھنے کا نتیجہ ہے۔

کومل کا کہنا ہے کہ، مجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے خود کو اسکرین پر دیکھا۔ اگرچہ مجھے حقیقت میں خود کو دیکھ کر اچھا لگ رہا تھا، مگر کیمرے پر چہرہ تھوڑا بھرا بھرا لگ رہا تھا۔ لیکن اب میں بہتر محسوس کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا سوشل میڈیا پر بھی مجھ پر طنز کی بوچھاڑ کی گئی لیکن میں ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتی۔ میں اپنی زندگی اپنے اصولوں پر گزار رہی ہوں۔

کومل میر نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں ان کے دُبلے پن اور مختلف چہرے کی بنا پر انہیں کئی بار ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں طرح طرح کے باتیں سنے کو ملیں۔ بعض اوقات ان کی خوبصورتی کو لے کر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ لیکن اب اپنے موجودہ لک پر خوش اور زیادہ پُراعتماد ہیں۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • دورہ ویسٹ انڈیز کیلیے قومی ٹیم کا اعلان، رضوان کپتان، بابر اور شاہین کی بھی واپسی
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • جب تک بانی پی ٹی آئی کو رہائی نہیں ملتی ہم کھڑے رہیں گے، علیمہ خان
  • پارٹی کے لیڈر بانی پی ٹی آئی ہیں شاہ محمود قریشی نہیں: سلمان اکرم راجا
  • پارٹی کے لیڈر بانی پی ٹی آئی ہیں، شاہ محمود قریشی کے لیڈ کرنے کی بات غلط ہے، سلمان اکرم راجہ 
  • عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن
  • سرجری یافلرز، کومل میر کا چہرہ کیوں بدلا؟ اداکارہ نے سب کچھ بتادیا
  • جب تم رفال اڑا ہی نہیں سکتے تو نئے جہاز کس لعنت کے لیے خرید رہے ہو؟ڈمی خواجہ آصف
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن