اور پھر بیاں اپنا ( پہلا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اخبار پڑھنا ہماری عادت ہے، جیسے صبح کی چائے کی۔ جب تک اخبار کے ساتھ چائے نہ ہو، چائے کا مزہ آتا ہے نہ اخبار کا۔ لیکن ان دنوں جس طرح کی خبریں سنائی جا رہی ہیں، ان پرکالم لکھنے سے بہتر ہے کہ کتابیں پڑھی جائیں،کتابیں آپ کی دوست بن جاتی ہیں۔ چلیے! آج آپ کی خدمت میں ایک اور بہت دلچسپ کتاب سے اقتباسات پیش کروں۔
کتاب کا نام ہے ’’ اور پھر بیاں اپنا ‘‘ اور اس کے خالق ہیں اخلاق احمد دہلوی، جن کا نام ادب نوازوں کے لیے نیا نہیں۔ اخلاق صاحب ادیب، صحافی،کالم نگار اور براڈ کاسٹر تھے۔ ساتھ ہی خاکہ نگار بھی بہت اچھے تھے۔ ان کے ہاں دلّی کی ٹکسالی زبان کا مزہ ملتا ہے۔ سادہ اور شگفتہ زبان ان کی میراث ہے۔
مضمون کا عنوان ہے ’’ طب کے بادشاہ ‘‘ حکیم اجمل خاں کے متعلق لکھتے ہیں ’’حکیم اجمل خاں کے عزیزکا ایک حیرت انگیز واقعہ ملاحظہ کیجیے۔ بھورے میاں جمعرات کو رات اور جمعہ کا دن دلی سے چالیس کوس دور میرٹھ جا کر اپنے ایک جگری دوست کے ساتھ گزارتے تھے، شکارکھیلتے اورگھڑ سواری کرتے تھے۔ ایک جمعرات جو یہ حضرت شکار کی نیت سے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا دلی سے کوئی سرجن آیا ہوا ہے اور مزید مقامی اور باہر کے کئی ڈاکٹر اور سرجن ہیں اور ان کے دوست کی پوری ٹانگ کٹنے والی ہے، کیونکہ اس میں پیپ پڑنے والی ہے۔ آٹھ دن پہلے بال توڑ ہوگیا تھا، جس کا یہ فتور ہے۔
حکیم صاحب نے کہا کہ ابھی صبح کے دس بجے ہیں اور شام کو پانچ بجے ہم ان کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر شکار کھیلنے جائیں گے، اگر ٹانگ کٹ گئی تو یہ گھوڑے کی سواری کیسے کریں گے؟ چنانچہ ان دوست کے صاحبزادگان کو بلایا اورکہا کہ میاں ذرا ان سول سرجن کو تو بلوانا اور اس انگریز کے بچے سے پوچھنا کہ ٹانگ کہاں سے کاٹی جائے گی اور کیسے کاٹی جائے گی، انگریز سول سرجن نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ اس طرح ٹانگ کٹے گی،گنڈیری کی طرح۔ حکیم نے سول سرجن سے کہا، اچھا اب آپ جائیے اور شام کو آکر آپریشن کیجیے۔ پھر جیب سے ایک ڈبیہ نکالی اور اس میں سے کچھ سفوف نکال کر جہاں سے ٹانگ کٹنی تھی اس جگہ پر چھڑکا اور ایک کپڑے کی پٹی اس پر لپیٹ کرکہا، اس پٹی پر برف کی ٹکور کرو، اور جب دو من برف کی ٹکورکر لو تو ہمیں آ کر بتاؤ۔ اب ہم آرام کرتے ہیں۔
ان دوست کے صاحبزادگان نے دن کے گیارہ بجے سے شام کے چار بجے تک جب دو من برف کی سل کی ٹکورکر لی تو حکیم صاحب کو اطلاع دی، وہ آئے اورکہا، اب پٹی ہٹا دو، پٹی ہٹائی تو دیکھا جس جگہ سفوف چھڑکا تھا وہاں خربوزے کی پھانک سی کھل گئی ہے۔ پھرکہا دیسی جراح کو بلاؤ، جو اسے دبا کر سارا مواد کسی تسلے میں نکالے۔ سبز کاہی رنگ کا مواد اس خربوزے کی پھانک میں جمع ہوگیا تھا۔ جراح نے بھینچ کر نکالا تو بیروں کی سی سبزکاہی رنگ کی گٹھلیوں سے تسلہ بھرگیا، اور سارا فاسد مادہ جو اس سفوف سے کھینچ کر ایک جگہ جمع کیا گیا تھا اب نکل گیا تو بڑے میاں نے آنکھیں کھول دیں اور حکیم صاحب نے جراح سے کہا، اب کوئی زخم کو مندمل کرنے کا مرہم اس جگہ لگا دو اور پٹی کر دو۔ ایسی پٹی کہ یہ گھوڑے کی سواری فوری طور پرکرسکیں اور پٹی اپنی جگہ سے نہ سرکے، اب یہ تمہارا ہنر ہے، اپنا ہنر دکھا چکے۔ شام کو اس انگریز زادے سول سرجن اور باقی سب ڈاکٹروں کو بھی دکھا دو اور پوچھو کہ کیا ٹانگ اب بھی کٹے گی؟
حکیم محمد اجمل کا خطاب مسیح الملک تھا، ان جیسا حکیم ان کے بعد آج تک پیدا نہیں ہوا،کیا قحط الرجال ہے کہ فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں زوال آ چکا ہے۔ کہاں گئے وہ سب نامور لوگ جن کے ذکر سے فانوس کی شمعیں روشن تھیں۔ اب تو بس تذکرہ سنیے اور واہ واہ کیجیے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ نے پیدا کیے جو اپنی مثال آپ تھے۔
ایک مرتبہ حکیم محمد اجمل شریف منزل کی ڈیوڑھی میں آئے کسی تقریب میں جانے کے لیے دیکھا کہ جس برات میں وہ شرکت کرنے والے تھے وہ ان کی ڈیوڑھی کے سامنے سے گزر رہی ہے، وہیں ٹھٹھک گئے اور دولہا کا گھوڑا جب سامنے سے گزرا تو دولہا کے ماتھے پر گیلا سندور کا تلک دیکھ کر تیوری پہ بل پڑ گئے اور کہا ’’یہ دولہا نہیں، دولہا کا جنازہ جا رہا ہے، شریف منزل سے دو پہیے ڈولی پر وہ گلی تھی جس پر بارات کو اترنا تھا، اس گلی کے نکڑ پر پہنچتے پہنچتے دولہا جس کے بارے میں دو منٹ پہلے حکیم صاحب نے کہا تھا کہ یہ دولہا کا جنازہ جا رہا ہے، دھڑ سے گھوڑے پر سے گر پڑا اور ڈھیر ہو گیا۔
مصاحبوں نے حکیم صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیسے اندازہ کر لیا کہ گھوڑے پر دولہا نہیں بلکہ دولہا کا جنازہ جا رہا ہے؟ تو حکیم صاحب بولے ’’ اس کے ماتھے پرگیلا سندور دیکھ کر۔ اگر اس کے جسم میں خون ہوتا تو یہ تلک خشک ہوتا، خون اس کا خشک ہو چکا تھا، اس لیے ماتھے کا تلک تر تھا۔‘‘ حکیم صاحب نے کہا، اسے کہتے ہیں شادیٔ مرگ۔
’’تو ہوا یوں کہ اس کامریڈ پریس میں مولانا محمد علی جوہر کے پاس ایک انگریز آیا جو بہادر شاہ ظفر پر تحقیقی کام کر رہا تھا، اس انگریز نے مولانا محمد علی سے درخواست کی کہ مجھے اس گھڑ سوار سے ملوائیے جو بہادر شاہ ظفر کے رسالے میں تھا اور اسی محلے میں رہتا ہے۔ مولانا نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ ہے تو سہی لیکن اس کی عمر سو سے اوپر ہے اور خانہ نشین ہے کہیں آتا جاتا بھی نہیں ہے، مولانا محمد علی کی فرمائش پر یہ بزرگوار ڈولی میں بیٹھ کر تشریف لائے، اس انگریز نے اس نحیف و نزار اور ہڈیوں کے ڈھانچے ضعیف انسان کو دیکھا تو بہت مایوس ہوا، لیکن پھر بھی اس نے پوچھا کہ آپ اب بھی گھوڑے کی سواری کرسکتے ہیں؟ بڑے میاں بولے کہ گھوڑا کہاں ہے؟ چنانچہ لال قلعے سے انگریزی رسالے کا ایک فوجی گھوڑا منگوایا گیا جب گھوڑا آگیا تو ان بزرگوار نے کہا کہ ہمیں اس پر چڑھا دیجیے۔
تین چار آدمیوں نے مل کر اس بوڑھے گھڑ سوارکو گھوڑے پر بٹھایا، یہ بہادر شاہ ظفر کے رسالے کا سوار تھا جسے گھوڑے پر بٹھانے کے لیے تین چار آدمی لگے تھے، لیکن اسے اس گھوڑے سے اتارنے کے لیے تین چار ہزار بھی کم ہوتے۔ یہ بزرگوار گھوڑے پر بیٹھ کرکوئی دس قدم گئے اور پھر انھی قدموں پر اسے واپس موڑ لائے اور کہا ’’ بس اب اتنا ہی دکھا سکتا ہوں۔‘‘ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ کیا بات ہوئی، بزرگوار بولے ’’ گھوڑے کے تسموں کے نشان دیکھیے، جن قدموں پہ گھوڑا گیا تھا انھی قدموں پہ ہم اسے واپس لے آئے ہیں۔
اس لیے سموں کے نشان کے گول گول دائرے بن گئے ہیں۔ جاتے وقت نصف دائرے بنے اور واپسی میں ان پر نصف دائرے بنے، نتیجہ یہ کہ گول دائرے نمایاں ہیں۔ سب حیران رہ گئے کہ اس عمر میں بھی کتنا قابو ہے، گھوڑے پر اور یہ فن اس لیے تھا کہ گھوڑا جتنا آگے چلتا تھا، اتنا ہی پیچھے چل کرگول دائرے بنا دے تاکہ دشمن کو یہ پتا نہ چلے کہ گھڑ سوار سالہ گیا کدھر؟ وہ انگریز گھڑسوار کے فن سے بہت محظوظ ہوا اورکہا میں نے جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔
یہ اقتباس تھا ’’ دہلی مرحوم کے گمنام ستارے‘‘ کا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکیم صاحب نے گھوڑے پر سول سرجن گیا تھا کے لیے نے کہا اور اس
پڑھیں:
ہم ہمیشہ چین کو اپنا قابل اعتماد دوست اور پارٹنر سمجھتے ہیں، سید عباس عراقچی
اپنے ایک ٹویٹ میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ 4 ماہ کے کم تر عرصے میں، میں دوسری بار چین میں ہوں۔ اچھے دوستوں کو آپس میں ملنا اور بات چیت کرتے رہنا چاہئے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے ایک روزہ دورہ بیجنگ کے موقع پر اپنے چینی ہم منصب "وانگ وایی" سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایرانی وزیر خارجہ نے چینی زبان میں ایک ٹویٹ پوسٹ کی۔ جس میں انہوں لکھا کہ مجھے خوشی ہے کہ 4 ماہ کے کم تر عرصے میں، میں دوسری بار چین میں ہوں۔ اچھے دوستوں کو آپس میں ملنا اور بات چیت کرتے رہنا چاہئے۔ ایک معروف چینی کہاوت ہے کہ راستہ دوستوں کے ساتھ ہموار ہوتا ہے۔ سید عباس عراقچی نے مزید لکھا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عالمی حالات کیسے بدلیں گے، مہم یہ ہے کہ ایران ہمیشہ چین کو اپنا قابل اعتماد دوست اور شراکت دار سمجھتا ہے۔ واضح رہے کہ آج صبح بیجنگ پہنچنے پر سید عباس عراقچی نے کہا کہ چین نے ماضی میں بھی ایرانی جوہری مسئلے پر اہم و تعمیری کردار ادا کیا، یقیناً آگے بھی اسی کردار کی ضرورت ہے۔