Express News:
2025-11-04@04:36:51 GMT

گورننس سسٹم کی خامیاں

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

پاکستان میں طرز حکمرانی اور داخلی و خارجی معاملات پر مسلسل سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اس نظام پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔اسی کے ساتھ ملک کو سیکیورٹی و معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اصل میں حکمران طبقہ حکمرانی کی فرسودگی کو یا تو سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتے یا ان کی ترجیحات میں ان مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عملاً حکمرانی کے نظام کے تناظر میں متعدد تجربات کے باوجود ناکامی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا میں ہونے والے بہتر حکمرانی کے تجربات کی بنیاد پر بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں طرز حکمرانی کے مسائل کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی نشاندہی کی تھی اور ان کے بقول اگر ہم نے گورننس کے بحران کو ترجیح بنیادوں پر حل نہ کیا تو دہشت گردی سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔

حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے قانونی مشن نے اپنے 12 روزہ دورے کا اختتام کیا ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ اس برس اگست میں آنے کی توقع ہے۔یہ رپورٹ کرپشن کی امکانات کو ختم کر کے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلوں کے ذریعے زیادہ شفافیت کو یقینی بنا نے اور پبلک سیکٹر کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

آئی ایم ایف نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں سیاست زدہ بیورو کریسی،کمزور احتساب پر مبنی نظام،قلیل مدتی اہداف پاکستان کی اہم خامیاں ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اہم افراد یا عہدے دار سیاسی وفاداریاں رکھتے ہیں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔اسی طرح پاکستان پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف بھی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے ۔

 آئی ایم ایف نے ابتدائی طور پر جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ ہمارا بیوروکریسی پر مبنی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کی موجودگی میں گورننس کے نظام کی شفافیت کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہے۔اس بات کی درست طورپر نشاندہی کی گئی ہے کہ جب حکمران طبقہ انتظامی اداروں کو سیاسی بنیادوں پر چلائے گا یا اہم عہدوں پر میرٹ سے زیادہ سیاسی بنیادوں کو بنیاد بنا کر تقرریاں اور تبادلے کیے جائیں گے تو پھر نظام کی شفافیت کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

آئی ایم ایف نے کمزور احتساب کے نظام کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی پنڈت یا دانشور یا کاروباری طبقات کے بڑے افراد کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ان کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن اس نظام کا حصہ ہے اور ہمیں اس کو قبول کرنا ہی ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی کرپشن کی یا احتساب پر مبنی نظام کی بات کی جاتی ہے تو یہ سارا عمل سیاسی طور پر متنازعہ بن جاتاہے یا اس کو متنازعہ بنادیا جاتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی ادارے بنائے گئے ہیں وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہیںیا ان پر اس حد تک سیاسی دباؤ ہے کہ وہ شفافیت کی بجائے سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں گورننس کے مسائل محض آئی ایم ایف کی پیش کردہ نکات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اور بھی مسائل ہمیں حکمرانی کے نظام میں درپیش ہیں۔مثال کے طور پر عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت پر مبنی نظام جہاں اختیارات کا مرکز کسی ایک سطح تک محدود ہوتا ہے یا ہم سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح سے پاکستان میں حکمرانی کے نظام میں موجود جو سائز آف گورننس ہے وہ ریاستی اور حکومتی نظام پر نہ صرف سیاسی اور انتظامی بوجھ ہے بلکہ اس کی بھاری مالیاتی قیمت بھی ہمیں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

بے تحاشہ ادارے،محکمے اور ان کے سربراہان کی فوج در فوج سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ یہ موجودہ نظام میں کوئی شفافیت کا عمل پیدا کر سکے ہیں۔دنیا کے جدید حکمرانی کے نظام میں نچلی سطح پر موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ہم مسلسل مقامی حکومتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔

حالانکہ پاکستان کے آئین میں اس وقت بھی تین سطحوں پر حکومت کا تصور موجود ہے یعنی وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتیں لیکن اس کے باوجود ہمارا ریاستی نظام مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کا شکار نظر آتا ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی بنیادی طور پر ریاست،حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج کو پیدا کرتی ہے اور یہ خلیج ان فریقوں میں بد اعتمادی کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

بااختیار مقامی حکومتی نظام معاشرے میں موجود کمزور اور محروم طبقات کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام طبقاتی تقسیم کا شکارہے اور اس تقسیم میں طاقتور طبقات کے مفادات کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں کمزور طبقات مختلف سطح پر استحصال کاشکار ہوتے ہیں۔

 18 ویں ترمیم کی منظوری کہ باوجود بھی ہم صوبائی یا مقامی سطح پر حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل حل نہیں کر سکے ہیں۔ماضی میں وفاق کا نظام مرکزیت پر مبنی تھا تو آج صوبائی حکومتوں کا نظام صوبائی مرکزیت کا شکار نظر آتا ہے۔

اس طرز عمل کی وجہ سے صوبوں میں موجود ضلعوں کا نظام نہ صرف کمزور ہے بلکہ اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔ایک طرف سیاسی نظام میں موجود سیاسی طاقتور افراد ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی صورت میں سیاسی نظام پر قابض نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی ہے جو نظام کی شفافیت میں خود بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اسی طرح سے ہمیں سیاسی اور بیوروکریسی پر مبنی نظام کا ایک ایسا کٹھ جوڑ بالادست نظر آتا ہے جو عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی سطح کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ہمارے ہاں وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ادارے اپنے اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے عادی نہیں ہیں۔

ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہمارے نظام کی اہم خصوصیت بن چکی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی دلچسپی قانون سازی یا پالیسی سازی کی شفافیت کی بجائے ترقیاتی فنڈ تک محدود ہوتی ہے اور اس وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود بھی ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کے عملی طور پر خلاف ہیں ۔

ایک طرف ہم اپنے نظام کو عوام کے منتخب نمائندوں کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری ترجیحات عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی پر حد سے بڑھتا ہواانحصار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود ارکان اسمبلی موجودہ نظام سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ 

ہم عملاًحکومتوں کے مقابلے میں یا منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے کمپنیوں اوراتھارٹیوں کی بنیاد پر صوبوں کے نظام کوچلانااپنی ترجیح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرے معیارات اورمختلف تضادات پر مبنی پالیسیوں نے حکمرانی کے نظام کواور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

یہ نظام جہاں اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے وہیں اس کی ساکھ پر بھی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔حکمران طبقات کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں یا ان کی پسند پر مبنی حکمرانی کا یہ نظام لوگوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر رہا ہے۔ان کو لگتا ہے کہ اس نظام میں بہتری کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں توان کے بقول ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ و فکر میں یہ تضاد ہمارے حکمرانی کے نظام کی خرابی کواور زیادہ نمایاں کرتاہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مقامی حکومتوں کے حکمرانی کے نظام کے مقابلے میں پاکستان میں آئی ایم ایف کی بنیاد پر اور صوبائی نشاندہی کی کے نظام کی ان کے بقول سیاسی اور کی شفافیت نہیں ہیں کے مسائل نظام کو کا نظام کا شکار عوام کے ہے اور

پڑھیں:

مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں تیسرا باب شامل کیا جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خاں نے اسموگ پر قابو پانے کے لیے نئے انوائرمنٹ ایکٹ سمیت مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا مؤقف تھا کہ انوائرمنٹ ایکٹ کے بغیر انتظامی ہدایات مؤثر ثابت نہیں ہوسکتیں۔

’آپ سیکریٹریز کو جتنی مرضی ہدایات دے دیں، انوائرمنٹ ایکٹ کے بغیر سموگ پر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

یہ بھی پڑھیں: اینٹی اسموگ گنز سے لاہور میں پانی کا بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ، ماہرین نے خبردار کردیا

اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک محمد احمد خاں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایک اہم اور بنیادی ایشو ہے، جسے آئینی تحفظ فراہم کرنا ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پارلیمنٹ آف پاکستان سے آئینی ترمیم کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے بتایا کہ اپوزیشن کے بعض اراکین نئے ایکٹ کی کمپوزیشن پر عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: اسموگ فری پنجاب: ’ایک حکومت، ایک وژن، ایک مشن، صاف فضا‘

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اسی کمپوزیشن پر مبنی آئینی ترمیم کا مطالبہ بھی پارلیمنٹ سے کیا گیا ہے۔

’پی ایل جی او کا ایک اچھا پہلو یہ تھا کہ اس نے مقامی حلقوں کو طاقت دی، چاہے اس کا طریقہ کار درست نہیں تھا۔ لیکن جب تک آئینی تحفظ نہیں ملے گا، کوئی بھی قانون فائدہ نہیں دے سکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے قانون بنایا لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی مقامی حکومتوں کی مدت ختم کردی۔

مزیدپڑھیں: اینٹی اسموگ گنز سے لاہور میں پانی کا بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ، ماہرین نے خبردار کردیا

’یہ بحث قانون کی نہیں، آئین کی ہے، جیسے آئین یہ طے کرتا ہے کہ وفاق کی حکومت کیسی ہوگی، اسی طرح مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں ایک تیسرا باب شامل کیا جانا چاہیے۔‘

ملک محمد احمد خاں نے اس بات کو ’آئینی جرم‘ قرار دیا کہ اب تک آئین میں مقامی حکومتوں سے متعلق تیسرا باب شامل نہیں کیا گیا۔

ان کے مطابق، یہ جرمِ ضعیفی ہے جو گزشتہ پچاس برس سے دہرایا جا رہا ہے۔

مزیدپڑھیں: اینٹی اسموگ آپریشن کے باوجود لاہور آلودہ ترین شہر، ’یہ پنجاب حکومت کر کیا رہی ہے؟‘

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ہم نے 9 کے قریب قوانین کا جائزہ لیا، تحریک انصاف کے دور میں کئی قوانین بنے اور ٹوٹے، لیکن یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب کسی حکومت کی اکثریت مقامی حکومت میں نہیں آتی تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ’یہ تعطل ختم کرنے کے لیے آئینی تحفظ ضروری ہے۔‘

ملک محمد احمد خاں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والی حالیہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس کی مخالفت کسی جماعت نے نہیں کی۔

مزیدپڑھیں: لاہور: آلودگی میں کمی کے لیے اسموگ ٹاور کا تجربہ ناکام، مطلوبہ نتائج نہ مل سکے

’یہ قرارداد 81 ارکان پر مشتمل کاکس سے آئی جس میں اپوزیشن بھی شامل تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ جب یہ کاکس بنایا جا رہا تھا تو مخالفت کا سامنا تھا، لیکن اس وقت بھی انہوں نے واضح کیا تھا کہ کاکس کا مقصد عوامی مسائل پر مل کر کام کرنا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی تحفظ اسپیکر انوائرمنٹ ایکٹ پنجاب اسمبلی پی ایل جی او تحریک انصاف سموگ کاکس مسلم لیگ ن مقامی حکومت ملک محمد احمد خان

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • پاکستان کا آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر قسط کے حصول کے لیے اہم اقدام
  • کراچی میں ای چالان سسٹم پر نبیل ظفر کا تبصرہ: “چالان نہیں، عوام کو انعام ملنا چاہیے”
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم
  • مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں تیسرا باب شامل کیا جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم