ستاروں کی روشنی میں آج بروزاتوار،20اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT
آج بروزاتوار،20اپریل 2025 :آج کے دن آپ کے ستارے آپ کی زندگی کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ۔ آپ کے کیرئیر ، ملازمت، محبت، صحت، پیسے، کیریئر سے متعلق اپنے گہرے سلگتے سوالات کے جوابات تلاش کریں
برج حمل ، سیارہ مریخ، 21 مارچ سے 20 اپریل
اللہ پاک پر توکل رکھ کر قدم اٹھائیں گے تو کامیابی ضرور حاصل ہوگی۔ آپ کافی دنوں سے جن جن مشکلات اور پریشانیوں کا شکار تھے، انشاءاللہ اب بڑی تیزی سے ان میں سے نکلنے میں کامیاب ہوں گے جو لوگ عرصہ دراز سے بیماری میں تھے وہ صرف دعا کریں۔ اللہ پاک اس سے نکال دیں گے ہر طرح کی نحوست اب ختم ہو جائے گی، فکر مند نہ ہوں اچھے دنوں کا آغاز ہونے والا ہے۔
برج ثور، سیارہ زہرہ، 21 اپریل سے 20 مئی
اگر آپ کو کسی نے تنگ کر رکھا ہے۔ آپ پر کسی قسم کا وار کررہا ہے تو فکر مند نہ ہوں۔ وہ آپ کو چاہ کر بھی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ اللہ ہے نا۔ اس سے طاقتور کون ہے اور جو لوگ بے گناہ جیل میں بند ہیں، وہ انشاءاللہ آزاد ہوں گے۔ انکوائری، مقدمے وغیرہ سے نجات حاصل ہوگی اور نئی نوکری یا تبدیلی کا حصول بھی آسان ہوگا۔ اب راستے صاف ہونا شروع ہو گئے ہیں، فکر نہ کریں۔
برج جوزہ، سیارہ عطارد، 21 مئی سے 20 جون
جس شخص نے اپنا کام شروع کرنا ہے، وہ اللہ کا نام لے کر بسم اللہ کریں۔ اللہ ضرور اس میں برکت ڈال دیں گے اور آپ کی زندگی میں برسوں سے جو پریشانی چل رہی ہے، اب اس کا خاتمہ ہونے والاہے۔ اب گھریلو حالات بھی بدلیں گے جوائنٹ فیملی میں رہنے والے اب الگ رہنے کی کوشش کریں گے جس میں وہ کامیاب ہوں گے جو لوگ بے روزگار ہیں، ان کا روزگار اب لگ جائے گا۔
برج سرطان، سیارہ چاند، 21 جون سے 20 جولائی
آپ کی ایک پرانی اہم خواہش پوری ہونے جا رہی ہے۔ آپ کو برسوں کے بعد قسمت کا ایسا ساتھ ملے گا کہ عقل حیران رہ جائے گی جن افراد نے اپنے راستے اب الگ کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے وہ بڑااچھا کریں گے۔ اب حالات ساتھ دیں گے اور جس مقصد کے لئے بھی رقم کی ضرورت ہوگی۔ اس کا بندوبست ہو جائے گا۔ فرض وغیرہ کے حوالے سے بھی سکون والی ہی خبر موجو دہے۔
برج اسد، سیارہ شمس، 21 جولائی سے 21 اگست
ایک پرانا دوست عزیز کسی حوالے سے بحکم اللہ مددگار ہو سکتا ہے اور جو مشکل محسوس کررہے ہےں، اس کا حل نکل آئے گا جو لوگ کاروباری حوالے سے پریشان ہیں، ان کو اب بہترین اسباب مل سکتے ہیں ، جو لوگ اپنا کام بدلنا چاہتے ہیں، وہ ابھی انتظار کریں۔ اللہ سے بڑی امید ہے وہ اسی میں سلسلہ بنا دیں گے۔ ان دنوں آپ کی مالی پوزیشن بھی انشاءاللہ مضبوط ہوگی۔
برج سنبلہ ، سیارہ عطارد، 22 اگست سے 22 ستمبر
جو راستہ کبھی بند تصور کررہے تھے، وہ اب کھل رہا ہے اور اس میں آپ کے لئے کیا کیا ہے اگر آپ کو معلوم ہو جائے تو سجدے سے سر نہ اٹھائیں، مگر یہ اس ہوگا جب آپ کی مکمل توجہ اس پر ہوگی۔ اس وقت دوسروں کے ساتھ آپ کو رابطے رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بعد میں آپ کے بہت کام آئیں گے جو لوگ کسی کے ساتھ دل لگی میں لگے ہوئے ہیں، وہ باز آ جائیں ، زبردست نقصان اٹھا سکتے ہیں، خیال رہے۔
برج میزان ، سیارہ زہرہ، 23 ستمبر سے 22 اکتوبر
اب بھی وقت ہے اپنے تمام فیصلوں پر اچھی طرح نظرثانی کریں اور کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو پھر استخارے سے مدد لے لیں۔ خاص طور پر خانگی اور خاندانی معاملات خاصے توجہ طلب ہیں۔ آپ کی تھوڑی سی کوشش سے انشاءاللہ یہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ ان دنوں آپ کو ایک اہم خبر مل سکتی ہے جس کا تعلق مستقبل سے ہوگا جو لوگ کافی دنوں سے مالی معاملات کو لے کر پریشان تھے ،وہ اچھی خبریں سن سکیں گے۔
برج عقرب ، سیارہ مریخ، 23 اکتوبر سے 22 نومبر
ایک بار غور کرلیں آپ نے کس طرف جانا ہے، روزانہ اپنی پوزیشن بدلیں گے توبڑا نقصان ہوگا۔ اب ویسے حالات نہیں رہے کہ آپ اپنی من مانی کرتے رہیں جو لوگ مناسب وقت پر قدم اٹھالیں گے وہ کامیاب رہیں گے۔مالی حوالے سے ایک اچھی خبر ملنے کی امید ہے ،جن لوگوں کو کاروبار میں مسلسل نقصان ہو رہا تھا، وہ اب تیزی سے انشاءاللہ بہتری میں آ سکتے ہیں۔ اب بڑ امال ہاتھ میں آ سکتا ہے۔
برج قوس ، سیارہ مشتری، 23 نومبر سے 20 دسمبر
جو بھی فیصلہ مناسب وقت پر ہو جائے، وہی بہتر رہتا ہے اور آپ زیادہ تر وقت ضائع کرکے اپنا نقصان کررہے ہیں۔ان دنوں آپ کو اپنے سارے معاملات کا از سر نو جائزہ لینا ہے جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں، وہ ٹھیک کرنی ہیں تاکہ اگلا قدم اٹھانے کے بعد ناکامی نہ ہو، جو لوگ اپنی یا اولاد کی شادی کے حوالے سے پریشان ہیں، وہ انشاءاللہ اب جلد خوشخبری سن سکیں گے، فکر نہ کریں۔
برج جدی ، سیارہ زحل، 21 دسمبر سے 19 جنوری
آپ کی ایک مشکل دو تین دن میں حل ہو جائے گی اور جو رکاوٹیں محسوس کی جا رہی تھیں، وہ تیزی سے ختم ہو سکیں گی۔ اس طرف سے بھی فائدہ ہوگا جہاں سے امید نہیں تھی،جو لوگ دوسروں کی باتوں میں آ کر اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے وہ نقصان میں رہیں گے، لگتا تو یہ ہے کہ آپ کا سفر مناسب سمت پر ہے، ان دنوں آپ مالی حوالے سے بھی اچھی خبریں سن سکیں گے۔
برج دلو ، سیارہ زحل، 20 جنوری سے 18 فروری
اپنے آپ کو تھوڑا سا تبدیل کریں، وقت کے تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ ہر چیز اپنی مرضی سے نہیں ہوتی آپ کو چاہیے کہ گھر میں اور باہر وہ عمل کریں جو وقت کی ضرورت ہے۔ پرانے خےالات سے باہر آئیں۔ ان دنوں آپ کی زندگی میں ایک بار پھر بڑی تبدیلی ہونے کے اشارے موصول ہو رہے ہیں۔ اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ اس کو قبول کرتے ہیں کہ نہیں۔ اگر استخارہ کرلیں گے تو بہتر رہے گا۔
برج حوت ، سیارہ مشتری، 19 فروری سے 20 مارچ
بدنظری بار بار ہو جاتی ہے۔ روزانہ سورة قلم کی آخری دو آیات ضرور پڑھا کریں۔ صبح و شام اور صدقہ دیں۔ یاحی یا قیوم کا ورد چلتے پھرتے کرتے رہا کریں، ان دنوں اپنوں کی مخالفت یا ان سے کسی معاملے میں جھگڑنے کا اندیشہ بھی ہے اور یاد رکھیں کہ حسد کرنے والے بھی ان میں ہی ہیں جو عمل بتایا گیا ہے وہ کرلیں گے تو وہ انشاءاللہ بچ جائیں گے اور اپنے پیٹ میں بھی کوئی بات رکھ لیا کریں۔
کے پی حکومت کا صحت کارڈ میں تین بڑی بیماریوں کا علاج شامل کرنے کا فیصلہ
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حوالے سے ہو جائے ہے اور جو لوگ دیں گے
پڑھیں:
خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
اگرچہ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی وسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دل بے چین، ذہن پریشان اور زندگی بے سکون نظر آتی ہے۔
جدید معاشرہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔ تعلقات کی کمزوری، اقدار کی پامالی اور دینی شعور کی کمی نے معاشرے کو فکری اور جذباتی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر امن، عدل، شکر اور سادگی پر مبنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 13)۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 1924)۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے اندر احسان، محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ایک خوشحال معاشرہ دراصل امن کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور اسلام نے قرآن اور رسول اللہ ؐ کی سنت کے ذریعے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف انفرادی سکون بلکہ اجتماعی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان کو انصاف، رحم، محبت، اور بھائی چارے کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن و حدیث میں انسانیت کی عظمت اور سب انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کرو جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی نہ کریں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالیں۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ (60:8)
’’ان سے حسن سلوک کے ساتھ بات کرو۔ شاید اللہ ان میں سے کوئی ہدایت یافتہ کرے یا وہ خوف سے ڈریں۔‘‘ (سورۃ النحل 16:125)
نبی ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘
یقیناً! ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد معافی، درگزر، نرم دلی، اور باہمی احترام پر قائم ہوتی ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اگر ہم ایک پرامن اور خوبصورت معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا، برداشت کرنا اور اصلاح کی نیت سے خیرخواہی کرنا سیکھنا ہوگا۔
’’اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہے، مگر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
(سورۃ الشوریٰ 42:40)
معاف کرنا نہ صرف اخلاقی برتری ہے، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔
’’اور تم میں سے جو صاحبِ فضل اور کشادگی والے ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجرین کو کچھ نہیں دیں گے۔ بلکہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟‘‘
(سورۃ النور 24:22)
جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، وہی اللہ سے معافی کے حق دار بنتے ہیں۔
جب طائف کے لوگوں نے نبی ؐ کو پتھر مارے اور زخمی کر دیا، تو فرشتے نے عرض کی کہ ان پر پہاڑ گرا دوں؟ نبی ؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث 1759)
ایک مثالی معاشرے کی قیادت وہی کرتا ہے جو درگزر کو اپنی طاقت بناتا ہے۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ظلم کے نظام کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2442)۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری: حدیث 2448 / صحیح مسلم: حدیث 19)
انسانی جان کا تقدس اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، سوائے حق کے‘‘ (سورۃ الاسراء ، آیت: 33)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی نفس کو ناحق قتل کرے گا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 10)۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 93)۔ ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ناحق قتل کو بدترین جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت میں شدید بتائی گئی ہے۔
غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے اور یہیں سے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جو مال تم خرچ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں کیا جائے گا‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 272)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 261)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دنیاوی مشکل کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکلات کو دور فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2699) غریبوں کی مدد سے معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تفریق ختم کر کے انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے کے درد کو محسوس کرے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرے، اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، وہی حقیقی خوبصورت معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کھانا کھلانا اسلام میں ایک عظیم عمل اور خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود خواہش کے کہ خود انہیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (سورۃ الانسان، آیت: 8)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5081)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بھوکے کو کھانا کھلایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5545)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر جان پہچان والے اور نا جاننے والے کو سلام کرنا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6236)۔
رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو (سورۃ النسآء، آیت: 1)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور رشتہ دار اپنے حق میں ایک دوسرے پر (دوسروں سے) زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال، آیت: 75)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت دی جائے، وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1961)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکا دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع تعلقی کرنے کے باوجود تعلق جوڑے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5991)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)۔ جب ہم رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں گے، خاندانی نظام کو مضبوط کریں گے، اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پرسکون اور خوبصورت بنے گا۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد محفوظ اور خوش ہو، وہی حقیقی اسلامی معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔
ہمارے قریب رہنے والا اور دفتر میں ساتھ کام کرنے والا دونوں ہی ہمارے پڑوسی ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرو‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 36)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کو بارہا واضح فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1125)۔ ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کا پڑوسی اس کی اذیتوں (اور شر) سے محفوظ نہ رہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5665)۔
اگر ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا پرامن، خوشحال اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بے چینی، اضطراب، ذہنی دباؤ اور انتشار سے پاک ہو۔ یہ اعمال درحقیقت ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہمیں انسانی ہمدردی سکھاتے ہیں، اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ایک خاص قسم کی تسلی اور سکون نازل فرماتے ہیں جو دنیاوی comforts سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ روحانی سکون ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔
ایلن مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور دیگر ارب پتی افراد انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرکے ایک قسم کا ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ ایلن مسک خلائی ٹیکنالوجی اور پائیدار توانائی کے ذریعے، بل گیٹس صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، اور مارک زکربرگ طبی تحقیق اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کی خدمت کے ذریعے اطمینانِ قلب کی تلاش میں ہیں۔ بلاشبہ دولت، شہرت اور عیش و آرام کی فراوانی ذہنی سکون کے حصول کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ یہ سب فانی اور عارضی ہیں۔ خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے اگر مندرجہ بالااصولوں پر عمل کیا جائے، تو ایک خوبصورت اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو سکون قلب سے بھی مالا مال ہو۔
(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے ہیں۔)