Islam Times:
2025-09-18@13:28:04 GMT

ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی کنونشن میں ''محفل مذاکرہ'' 

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

محفل مذاکراہ میں وائس چیئرمین ایم ڈبلیو ایم علامہ سید احمد اقبال رضوی، مجلس علمائے مکتب اہلبیت پاکستان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید حسنین عباس گردیزی، مرکزی جنرل سیکرٹری ایم ڈبلیو ایم پاکستان سید ناصر عباس شیرازی، معروف تعلیمی شخصیت و سابق مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سید امتیاز علی رضوی، سابق صوبائی وزیر و اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان میثم کاظم بطور مہمان شریک ہوئے۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں

اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی بقیۃ اللہ کنونشن میں تنظیم کے ماضی، حال اور مستقبل کی صورتحال کے حوالے سے ''محفل مذاکرہ'' کا اہتمام کیا گیا، محفل مذاکرہ کی نظامت مرکزی صدر عزاداری ونگ ملک اقرار حسین علوی نے کی، جبکہ وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ سید احمد اقبال رضوی، مجلس علمائے مکتب اہلبیت پاکستان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید حسنین عباس گردیزی، مرکزی جنرل سیکرٹری ایم ڈبلیو ایم پاکستان سید ناصر عباس شیرازی، معروف تعلیمی شخصیت و سابق مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سید امتیاز علی رضوی، سابق صوبائی وزیر و اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان میثم کاظم نے بطور مہمان شرکت کی۔ محفل مذاکرہ میں تنظیم کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے شوریٰ عمومی کی جانب سے سوالات کیے گئے، جن کے مقررین نے احسن انداز میں جوابات دیئے۔.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی کنونشن میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان سید محفل مذاکرہ علامہ سید

پڑھیں:

وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء

متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں ہسپتال تباہی کے دہانے پر، ڈبلیو ایچ او کے سربراہ
  • جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
  • جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
  • اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش
  • سپیکرقومی اسمبلی سے مالدیپ کی عوامی مجلس کے سپیکر کی ملاقات، دوطرفہ پارلیمانی تعلقات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • کمیٹیاں بلدیاتی اداروں پر عوام کا دباؤ بڑھائیں گی‘ وجیہہ حسن
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • پاراچنار، آئی ایس او کے زیرِ اہتمام جشنِ معصومین (ع)
  • پشاور، اتحاد امت و استحکام پاکستان کانفرنس