بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
لاہور:
لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے کہا ہے کہ بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، کیا سندھ میں گندم کا ریٹ سامنے آیا؟ سندھ میں کیا کسان کارڈ دیا گیا؟
ڈی جی پی آر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل پنجاب جلوسوں دھرنوں اور نعروں کا گڑھ ہے، ہر سیزن میں کوئی نہ کوئی نکلتا ہے کوئی کسانوں کا مسیحا بن جاتا ہے کوئی ڈاکٹروں کا مسیحا بن جاتا ہے یہ کسی نہ کسی مافیا سے جڑے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ سیاسی پارٹیوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں لوگوں کے جذبات کو ابھارنا پنجاب میں حالات کو خراب کرنا ایک روٹین ہے۔
انہوں ںے کہا کہ پنجاب حکومت نے کسی بھی جگہ طاقت کا استعمال نہیں کیا ہمارے کسان بھائیوں کے تلخ بیانات آرہے ہوتے ہیں کسانوں کا نام استعمال کرکے سیاست کی جاتی ہے کسانوں کے ایشو پر بلاول بھٹو نے تڑکا لگایا اور پنجاب کی قیادت تلخ جملے استعمال کیے، میں کوئی بھی سوال پوچھ لوں تو وہ توہین ہوجاتی ہے کسانوں کے حوالے سے پالیسی بلاول بھٹو کے پاس نہیں پہنچی۔
انہوں ںے کہا کہ بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آیا لیکن سندھ کے کسان کی کسی نے بات نہیں کی، کیا سندھ میں گندم کا ریٹ سامنے آیا؟ سندھ میں کیا کسان کارڈ دیا گیا ہے؟ پالیسی کے تحت حکومت نے گندم نہیں خریدی تو کسانوں کو لاوارث بھی نہیں چھوڑا ہے، 110 ارب روپے کا پیکج کسانوں کے لئے دیا ہے، پانچ ہزار روپے فی ایکڑ کسان کو دیا جائے گا، پچیس ارب کا ویٹ سپورٹ پروگرام بھی دیا جائے گا حکومت نے گندم کی خریداری نہیں کی لیکن نجی طبقے کو کہا گیا ہے کہ وہ گندم کی خریداری کرے فلور ملز مالکان کو پابند کیا گیا ہے پچیس فیصد گندم کی خریداری کریں۔
انہوں نے کہا کہ بینک آف پنجاب کے ذریعے کسانوں کے لئے سو ارب کی کریڈٹ لائن دیں گے، کسان کارڈ کے ذریعے پچپن ارب کی خریداری کسان کرچکے ہیں، گندم کے کاشت کاروں کو نو ہزار پانچ سو ٹریکٹر دیئے گئے ہیں جس پر دس ارب کی سبسڈی دی گئی،
ہمارے کسان بھائیوں کے لئے اربوں روپے کے ٹریکٹر دیئے گئے ہیں، پانچ ہزار سپر سیڈر دیئے جائیں گے جس پر آٹھ ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی، دنیا میں جو آلات استعمال کیے جارہے ہیں گورنمنٹ آف پنجاب خریدے گی وہ آلات منافع کے بغیر کسانوں کو دے گی۔
عظمی بخاری نے کہا کہ جس نے سب سے زیادہ گندم اگائی اس کو 45 لاکھ روپے ہارس پاور کا ٹریکٹر مفت ملے گا، ہر ضلع میں جو سب سے زیادہ گندم اگائے گا اس کو 10 لاکھ روپے دیئے جائیں گے، جلسوں میں کھڑے ہوکر باتیں کرنا اور طعنے دینا آسان ہے،
کسی صوبے نے نہ امدادی قیمت کا اعلان کیا ہے نہ ایسے فیصلے کیے ہیں ہمارا کاشت کار ہمارے سر کا تاج ہے، اگر ہم نے گندم کو نہیں خریدا تو یقینی بنایا جارہا ہے کہ نجی طبقہ گندم خریدے۔
وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ ہمارے پاس نہ کسان مزارع ہوتے ہیں نہ ان سے یہ سلوک کیا جاتا ہے، گندم کے باہر جانے کا پورا ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے، کسان اور کاشتکار کا مفاد وزیر اعلی پنجاب کو عزیز ہے لیکن پورے صوبے کے عوام کی بھی فکر ہے،
گندم کا وافر اسٹاک پنجاب حکومت کے پاس موجود ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی خریداری کسانوں کے نے کہا کہ پنجاب کے کے کسان کسان کا نہیں کی
پڑھیں:
گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل
ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے، یہ خوشیوں اور موج میلے کا زمانہ ہوتا ہے لیکن اس بار یہ کسان کی خوشیوں کی بجائے ماتم اور دکھ و کرب کے زمانے میں بدل چکا ہے۔ گندم کی موجودہ مارکیٹ قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے، جو کاشتکار کی لاگت سے کہیں کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کیوں مجبور ہے، اور ذمہ دار کون ہے؟
ایک اوسط درجے کے کسان کے لیے گندم کی کاشت پر آنے والے اخراجات کچھ یوں ہیں: زمین کا ششماہی کرایہ(ٹھیکہ) تقریباً 50,000 روپے فی ایکڑ، بیج 4,000 تا 5,000 روپے، کھاد (ڈی اے پی، یوریا)16,000 تا 20,000 روپے، زرعی ادویات 3,000 روپے، زمین کی تیاری و مشینری 7,000 روپے، پانی و مزدوری 8,000 روپے۔ کٹائی و گہائی (ہارویسٹر تھریشر کا خرچہ )15,000 روپے فی ایکٹر، اس طرح مجموعی لاگت تقریباً ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10 ہزار روپے فی ایکڑ بنتی ہے۔
اگر پیداوار 40 من فی ایکڑ ہو، اور قیمت 2000 روپے فی من ملے تو گندم کی کل آمدن 80,000 روپے بنتی ہے۔ توڑی (بھوسہ) کی قیمت شامل کر لیں تو یہ آمدن 88,000 روپے فی ایکڑ بنتی ہے یوں کسان کو 12,000سے 22,000 روپے فی ایکڑ کا سیدھا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی گواہی ہے جو کسان کو زندہ درگور کر رہا ہے۔
اس بار پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت (پاسکو) نے گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز ہی نہیں کیا اور یہ کام بے رحم پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے لگا دیا ہے جس کے سینے میں دل کی بجائے پتھر ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسان کھلے بازار میں مڈل مین کے رحم و کرم پر ہے، جو 1800 سے 2200 روپے فی من گندم خرید رہے ہیں۔ کسان اپنی فصل اس لیے بیچنے پر مجبور ہے کیونکہ اس نے زمین کا کرایہ اور مزدوری دینی ہے، اور قرض واپس کرنا ہے، اور تاخیر کی گنجائش نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کی گندم درآمد کرنے والی حکومت کسان کو اس کی اپنی اگائی گئی فصل کا مناسب نرخ نہیں دے سکتی۔ 2022-23 ء میں یوکرین اور روس سے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جس سے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں زمین بوس ہوگئیں۔ کسان کی محنت کی کوئی قدر نہ رہی، جیسے یہ ملک کسی زرعی معیشت پر نہیں بلکہ درآمدی بیساکھیوں پر کھڑا ہو۔
یہ سب صرف معاشی ناکامی نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی اظہار ہے۔ ایک طرف اخراجات کا بوجھ، دوسری طرف قیمتوں کی گراوٹ، اور تیسرے جانب سرکار کی بے حسی ‘ ایک طرف کسان کو دیوالیہ کر دینا اور پھر اسے ہی غفلت کا مورد الزام ٹھہرانا سخت زیادتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کسان زمین اور کاشتکاری چھوڑ کر دوسرے دھندوں میں لگ جائے گا، اور ہم خوراک کے لئے دوسروں کے دست نگر ہو کر رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں ہے اس وقت مناپلی کنٹرول اتھارٹی؟ یعنی کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے پر نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا، انسانی حقوق کا کوئی ادارہ یا کوئی بار کونسل اس حوالے سے عدالت عظمی میں رٹ پٹیشن دائر کیوں نہیں کرتی؟ کہاں ہے عوام کی منتخب پارلیمنٹ؟ افسوس صد افسوس کہ کوئی بھی کسان کے اس اجتماعی جنازے کو کندھا دینے پر تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری حرکت میں آئیں اور گندم کی سپورٹ پرائس 3000 روپے فی من فوری مقرر کی جائے۔ پاسکو اور صوبائی حکومتیں فوری خریداری کا شفاف نظام شروع کریں۔ ذخیرہ اندوزوں، فلور ملز اور مڈل مین مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کسانوں کو زرعی قرضوں میں ریلیف اور سبسڈی دی جائے۔ درآمدات و برآمدات کو مقامی پیداوار کی صورتحال سے مشروط کیا جائے۔اس صورتِ حال کی بڑی حد تک ذمے دار ملک کی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابات کے موسم میں تو ووٹ لینے کیلئے کسانوں کو یاد کرتی ہیں، ان کے کھیتوں میں تصویریں بنواتی ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے جھوٹے نعرے لگاتی اور جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ مگر انتخابی کامیابی کے بعد وہ دیہی اکثریت کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ صرف بے حسی نہیں بلکہ قومی مفادات سے کھلم کھلا غداری کے مترادف ہے۔
دوسری طرف، کسان خود بھی اس زبوں حالی کا کچھ نہ کچھ ذمے دار ضرور ہے۔ ملک میں کوئی مضبوط، منظم اور موثر کسان تنظیم، ٹریڈ یونین یا فیڈریشن موجود نہیں جو اجتماعی آواز بلند کرے، پالیسی سازی میں کردار ادا کرے اور حکومت کو جوابدہ بنائے۔ جب تک کسان اپنے حقوق کے لیے اجتماعی طور پر خود منظم نہیں ہوتا، استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی کی صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ کاشتکار ایک من گندم بیچ کر ایک کلو بکرے کا گوشت نہیں خرید سکتا جو 2200 سے 2400 روپے فی کلو ہے، ایک من گندم بیچ کر وہ اپنے بچوں کیلئے ایک دن کے 3 وقت کھانے کا انتظام نہیں کر سکتا، ان حالات میں اس نے اگلی فصل کپاس، چاول یا گنا بھی کاشت کرنی ہے، اور اگلے 6 ماہ اپنے گھریلو اور نئی فصل کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں، ان نازک ترین حالات میں ملک کی 60 سے 70 فیصد دیہی آبادی تھک ہار کر اب آرمی چیف کی طرف دیکھ رہی ہے، کیونکہ پاکستان میں اب تو یہ روایت ہی پڑ گئی ہے کہ سول حکومتوں کی ناکامی و نااہلی سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے حل کیلئے پھر مدد کیلئے پاک فوج کو ہی پکارا جاتا ہے، اس لئے سپہ سالار اعظم سے اپیل ہے کہ اب وہی کاشتکاروں کی خاموش چیخیں اور التجائیں سن کر فوری مداخلت کریں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے