امریکہ دورے میں نیتن یاہو کی ترجیحات
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: واضح ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں میں یہ مماثلت پائی جاتی ہے کہ وہ درپیش مسائل کے حل کے لیے شدت پسندانہ طریقوں پر انحصار نہیں کر سکتے اور بھاری قیمت کی حامل جنگ کا خطرہ مول لینے سے قاصر ہیں۔ لہذا یہ مفاہمت بنیادی طور پر نرم اور نیم سخت طریقوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ لبنان میں حزب اللہ کو بالواسطہ پیغام دے رہے ہیں کہ مزاحمتی حکمت عملی جاری رکھنے کے بجائے لبنان کے ساحل پر امریکہ کے ساتھ گیس کے معاہدے کریں اور جنوبی لبنان میں ٹرمپ کے اقتصادی منصوبے کو قبول کریں، یا یہ کہ نئے امریکی سفیر مشیل عیسی نے سرحدی علاقوں سے اسرائیل کے فوجی انخلا اور مقبوضہ علاقوں سے پسپائی کے بارے میں لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری سے بات چیت شروع کر دی ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اہم مسائل اور مشترکہ خدشات پر بات چیت کے لیے رواں سال کے آخری دنوں میں واشنگٹن جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ یہ دورہ ممکنہ طور پر ایک ہفتے تک جاری رہے گا جس میں نیتن یاہو کو متعدد اداروں سے مشاورت کرنے اور اپنی رابطہ کاری مہم کو حتمی شکل دینے کا موقع ملے گا۔ نیتن یاہو کے پاس ٹرمپ سے بات چیت کے لیے کئی ایشوز ہیں لیکن ان میں سے ایک ممکنہ طور پر زیادہ نمایاں اور مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ شام کا مسئلہ اور نیتن یاہو کی نظر میں مثالی معاہدے کے حصول میں ناکامی۔ اب تک کئی مہینوں سے شامی اور صیہونی حکام کے درمیان متعدد ملاقاتوں کے باوجود ایسا معاہدہ حاصل نہیں ہو پایا ہے۔ یہ ان اختلافی مسائل میں سے ایک ہے جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی حکام کی مرضی سے ہٹ کر اپنے انداز میں طے کرنے کے درپے ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026ء کے بجٹ کی منظوری دے کر اور قیصر پابندیوں کے حوالے سے چند سالہ عمل متعین کر کے ایک مختلف راستہ اختیار کیا ہے جبکہ وہ نیتن یاہو کو شام پر ایک حد سے زیادہ جارحانہ اقدامات انجام دینے کی اجازت بھی نہیں دے رہا۔ دوسری طرف لبنان میں اسلامی مزاحمت، خاص طور پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ اسرائیلی فوج خاص حالات کا شکار ہے اور زیادہ شدت کا حامل جنگی خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ موجودہ طرز عمل بھی بے نتیجہ اور مہنگا ہے۔ دوسری طرف لبنان سے متعلق امریکہ کی دو اسٹریٹجک اور آپریشنل ترجیحات ہیں۔ اس کی پہلی ترجیح پورے لبنان پر غلبہ حاصل کرنے اور اسلامی مزاحمت اور شیعہ طاقت کو ختم کر کے انہیں کمزور کر دینے پر مبنی ہے۔
امریکہ اس مقصد کے لیے لبنان حکومت سے مذاکرات اور تعاون کرنے اور تمام مواصلاتی، بینکنگ، مالیاتی، فوجی، مصنوعی ذہانت، اور معلومات اکٹھا کرنے کے شعبوں کے انفرااسٹرکچر پر تسلط پیدا کرنے کے درپے ہے۔ آپریشنل میدان میں امریکہ کم لاگت کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے تاکہ اگر حزب اللہ کو غیر مسلح نہ بھی کیا جا سکے تو وہ اتنی کمزور پوزیشن میں چلی جائے جو امریکی پالیسیوں میں زیادہ رکاوٹ نہ بنے۔ یہ امریکی نقطہ نظر، نیتن یاہو اور غاصب صیہونی رژیم کی ان فوری اور اہم ضروریات سے زیادہ ذہانت آمیز ہے جو طاقت پر مبنی ہتھکنڈوں کے ذریعے اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ غزہ کے مسئلے میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے منصوبے کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کروا کر اس کی پیش رفت ظاہر کرنا چاہتا ہے کیونکہ اب تک وہ دنیا میں قیام امن کا کوئی بھی بڑا معاہدہ کروانے میں ناکام رہا ہے۔
امریکی صدر غزہ میں ممکنہ امن معاہدے کی کامیابی کو بنیاد بنا کر مغربی ایشیا خطے میں علاقائی سطح کے ابراہیم معاہدے میں بھی بڑی پیش رفت چاہتا ہے۔ لیکن اس منصوبے کی تفصیلات پر نیتن یاہو اور ٹرمپ حکومت کے درمیان اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ مثال کے طور پر فلسطین اتھارٹی کو شریک کرنا یا اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے بین الاقوامی فورس کی تعیناتی یا حماس کے ساتھ بقائے باہمی وغیرہ پر ان میں بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس میں نیتن یاہو کے لیے بھی کوئی خاص فائدہ دکھائی نہیں دیتا جبکہ غزہ کے مسئلے میں متعدد کھلاڑیوں جیسے مصر، ترکی، قطر اور عرب اور یورپی ممالک کی شمولیت نے صیہونی رژیم اور خاص طور پر نیتن یاہو کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے جس سے اسے اپنی پوزیشن کسی حد تک کمزور محسوس ہو رہی ہے۔
غاصب صیہونی رژیم اندرونی پر بے شمار اور پیچیدہ قسم کے مسائل، چیلنجز اور بحرانوں سے روبرو ہے جنہوں نے نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر سایہ ڈال رکھا ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو سیاسی، سیکورٹی اور قانونی میدانوں میں شکست کھا کر ایک فاتح ہیرو کی حیثیت سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ چار مقدمات میں جاری سماعت، کابینہ کے اندر شدید اختلافات نیز وزراء اور فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تناو اور تقسیم، دو سالہ جنگ میں پیدا ہونے والے شدید معاشی مسائل اور وسیع علاقوں میں مالی نقصان، فوج کے حوصلے پست ہو جانا اور فوج کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جانا ان بحرانوں میں سے کچھ ہیں۔ یورپ یا سازباز کے حامی عرب ممالک سے تعلقات میں بنیادی چیلنج کابینہ میں انتہا پسند وزراء کا رویہ ہے۔ نیتن یاہو ان چیلنجز پر قابو پرنے کے لیے ٹرمپ سے تعاون پر مجبور ہے۔
واضح ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں میں یہ مماثلت پائی جاتی ہے کہ وہ درپیش مسائل کے حل کے لیے شدت پسندانہ طریقوں پر انحصار نہیں کر سکتے اور بھاری قیمت کی حامل جنگ کا خطرہ مول لینے سے قاصر ہیں۔ لہذا یہ مفاہمت بنیادی طور پر نرم اور نیم سخت طریقوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ لبنان میں حزب اللہ کو بالواسطہ پیغام دے رہے ہیں کہ مزاحمتی حکمت عملی جاری رکھنے کے بجائے لبنان کے ساحل پر امریکہ کے ساتھ گیس کے معاہدے کریں اور جنوبی لبنان میں ٹرمپ کے اقتصادی منصوبے کو قبول کریں، یا یہ کہ نئے امریکی سفیر مشیل عیسی نے سرحدی علاقوں سے اسرائیل کے فوجی انخلا اور مقبوضہ علاقوں سے پسپائی کے بارے میں لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری سے بات چیت شروع کر دی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نیتن یاہو کے حزب اللہ کو ڈونلڈ ٹرمپ علاقوں سے کرنے کے بات چیت کے لیے
پڑھیں:
چین کے وزیر خارجہ سعودیہ، متحدہ عرب امارات اور اردن کے دورے کا آغاز
چین نے مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورت حال اور خطے میں پائیدار امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا میں اس وقت نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ اور طاقت کے توازن کے لیے بھی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی آج کسی وقت سعودی عرب کے دورے پر جائیں گے جہاں سے ان کی منزل متحدہ عرب امارات اور پھر اردن ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وانگ یی کا یہ دورہ 12 سے 16 دسمبر تک کا ہے جس میں وہ ان ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کریں گے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاکون نے کہا کہ توقع ہے کہ اس دورے کے ذریعے تینوں ممالک کے ساتھ سیاسی باہمی اعتماد مزید مستحکم ہوگا۔
تاحال اس دورے کا ایجنڈا سامنے نہیں آیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دورہ دوطرفہ تعلقات، مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال اور مشترکہ مفادات بہت اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو مشرق وسطیٰ تک توسیع دینے کے لیے بھی متحرک ہے اور اس دورے کا ایک مقصد یہ منصوبہ بھی ہے۔
پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ مذکورہ اقدام صدر شی جن پنگ کی قیادت میں گذشتہ عشرے کے دوران تیار کردہ ایک وسیع عالمی منصوبہ ہے۔
یاد رہے کہ چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2023 میں سفارتی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔