سرحدی تنازع شدت اختیار کر گیا، کمبوڈیا کا تھائی لینڈ سے ہر قسم کی آمد و رفت بند کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
کمبوڈیا نے تھائی لینڈ کے ساتھ جاری سرحدی کشیدگی اور حالیہ خونی جھڑپوں کے بعد ہفتے کے روز دونوں ممالک کے درمیان تمام سرحدی راستے بند کر دیے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان پرانے سرحدی تنازع کے باعث حالیہ دنوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں چار تھائی فوجی بھی شامل ہیں۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں جانب تقریباً پانچ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
کمبوڈیا کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ فوری طور پر تمام کمبوڈیا-تھائی لینڈ سرحدی گزرگاہوں پر آمد و رفت معطل کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب، تھائی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فائر بندی پر اتفاق ہو چکا ہے۔
تھائی وزیر اعظم انوتن چارن ویراکول کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں جنگ بندی پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ جبکہ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک نے فائرنگ روکنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے پر شہری آبادی کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ تھائی فوج کے مطابق کمبوڈین راکٹ حملوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے، جبکہ کمبوڈیا نے الزام لگایا ہے کہ تھائی فورسز نے شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے دونوں ممالک سے فوری طور پر لڑائی بند کرنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے، تاہم سرحدی علاقوں میں صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں ممالک تھائی لینڈ
پڑھیں:
تھائی وزیراعظم نے کمبوڈیا کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے بعد پارلیمنٹ تحلیل کر دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تھائی لینڈ کے وزیراعظم انوتن چرن وراکل نے کمبوڈیا کے ساتھ حالیہ ایک ہفتے سے جاری سرحدی جھڑپوں میں شدت اور بڑھتے ہوئے حکومتی دباؤ کے پیش نظر پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق تھائی وزیراعظم نے شاہی فرمان پڑھتے ہوئے کہا کہ تین ماہ قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی ان کی اقلیتی حکومت کو کمبوڈیا کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور دیگر پیچیدہ مسائل کا سامنا رہا ہے، تمام بحرانوں کا حقیقی حل سیاسی طاقت کو عوام کے سپرد کرنے میں مضمر ہے، اس لیے پارلیمنٹ تحلیل کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق انوتن چرن وراکل نے حکومت سنبھالے صرف تین ماہ ہی ہوئے تھے، مگر ان کی اقلیتی حکومت کو متعدد سنگین مسائل کا سامنا تھا، جن میں سرحدی کشیدگی، گزشتہ ماہ آنے والے شدید سیلاب اور اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کے خطرات شامل تھے۔ ان چیلنجز نے حکومتی دباؤ میں اضافہ کیا اور پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے فیصلے کی راہ ہموار کی۔
تھائی لینڈ میں پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد ملکی سیاست میں نئے انتخابات کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور بین الاقوامی برادری اس خطے کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے
یاد رہے کہ انوتن چرن وراکل نے ستمبر 2025 میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ جنوری 2026 کے آخر تک پارلیمنٹ تحلیل کریں گے، تاہم حالیہ بدترین سیلاب اور کمبوڈیا کے ساتھ تازہ جھڑپوں نے حکومت پر دباؤ مزید بڑھا دیا۔ ان حالات میں انوتن کی کابینہ شدید تنقید کی زد میں رہی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاری بھی جاری تھی۔
تھائی سیاست میں یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیراعظم شدید سیاسی دباؤ کا سامنا کر رہے ہوں۔ انوتن سے قبل پائیتونترانگ شیناوترے کو اخلاقیات کی خلاف ورزی اور سرحدی معاملات میں تنازعات کی وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ شیناوترے پر اس وقت شدید تنقید ہوئی تھی جب انہیں کمبوڈیا کے سابق لیڈر ہون سونگ کو ‘انکل’ کہتے ہوئے سنا گیا، جس نے عوامی اور سیاسی حلقوں میں اشتعال پیدا کر دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور قدرتی آفات کی سنگینی کے درمیان وزیراعظم کا یہ فیصلہ ملکی استحکام اور عوامی اعتماد کے لیے اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔