کبھی لاہور کے باسی چاروں موسموں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ خوشگوار گرمی، خنک خزاں، سردیاں اور بہار کی رونقیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے شہر کو صرف دو موسموں، دم گھٹاتی اسموگ اور جھلسا دینے والی گرمی تک محدود کر دیا ہے۔

پنجاب کے مختلف اضلاع سمیت لاہور میں شدید گرمی کی نئی لہر کا آغاز ہو چکا ہے اور محکمہ موسمیات نے آئندہ دس دنوں کے دوران غیر معمولی درجہ حرارت کی پیش گوئی کی ہے۔ اپریل میں عمومی طور پر درجہ حرارت 30 سے 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے، تاہم پچھلے چند سالوں میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل 2020 میں اوسط درجہ حرارت 33 ڈگری تھا، جو 2021 میں 35، 2022 میں 42، 2023 میں 35 اور 2024 میں 37 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔ رواں برس 2025 میں یہ درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچنے کا امکان ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں بڑھتی آبادی اور تیز رفتار تعمیرات درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔ تحقیق کے مطابق 1990 سے 2020 کے دوران شہر کے بڑے حصے پر موجود سبزہ ختم ہو کر کنکریٹ، سڑکوں اور عمارتوں میں تبدیل ہو گیا۔ 2010 سے 2017 کے درمیان لاہور کا 70 فیصد درختوں کا احاطہ ختم ہو چکا ہے۔

پنجاب اربن یونٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں لاہور کا تعمیراتی رقبہ 438 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 759 مربع کلومیٹر تک جا پہنچا ہے جبکہ شہر کے مجموعی رقبے کا صرف 2.

8 فیصد حصہ اب سبزہ زاروں پر مشتمل ہے۔ درختوں کی کٹائی کے باعث لاہور ’’اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ‘‘ کا شکار ہو چکا ہے، جہاں عمارتیں اور سڑکیں دن بھر گرمی جذب کر کے رات کو اسے آہستہ آہستہ خارج کرتی ہیں، جس سے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

محکمہ موسمیات کے ماہرین نے عالمی حدت، سبزہ زاروں کی کمی، صنعتی آلودگی اور ناقص شہری منصوبہ بندی کو گرمی کی لہروں کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ جامعہ پنجاب کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ ’’جب کئی دن تک درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہتا ہے اور قدرتی ٹھنڈک کے ذرائع موجود نہ ہوں، تو گرمی کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘‘

شدید گرمی کی ممکنہ لہر کے پیش نظر، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے شہریوں کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں۔

شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ دن 11 بجے سے 4 بجے کے دوران غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، زیادہ پانی پئیں، ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنیں، ٹھنڈے مشروبات استعمال کریں اور بچوں و بزرگوں کا خصوصی خیال رکھیں۔ گرمی کی شدت سے چکر آنا، بخار، نقاہت، متلی یا بے ہوشی کی شکایت ہو تو متاثرہ شخص کو فوراً سائے میں لے جاکر پانی یا او آر ایس پلایا جائے، اور ضرورت پڑنے پر طبی امداد حاصل کی جائے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ عارضی احتیاطی تدابیر وقتی ریلیف تو دے سکتی ہیں، لیکن اس سنگین ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مستقل اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں، جن میں سبزہ زاروں کا تحفظ، نئے درختوں کی شجر کاری، موسمیاتی تبدیلی کو شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانا اور عوامی آگاہی شامل ہیں۔

اگر فوری اور جامع اقدامات نہ کیے گئے، تو گرمی کی یہ شدید لہریں لاہور جیسے بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن سکتی ہیں، جس کے اثرات نہ صرف انسانی صحت بلکہ معیشت، زراعت اور شہری زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گرمی کی

پڑھیں:

لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو نے لگی

لاہور میں تیزی کے ساتھ زمین سے پانی نکالے جانے کیوجہ سے خطے میں زیر زمین شدید پانی کی قلت ہوگئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق محکمہ ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ لاہور میں حالیہ بارشیں بھی زیر زمین پانی کی سطح کو قدرتی طور پر بلند کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔

ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کو بلند رکھنے کے لیے ہنگامی صورتحال کے تحت تمام چھوٹے بڑے نجی سرکاری اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت ہاؤسنگ سوسائٹی میں ری چارجنگ کنویں بنانا ہونگے۔ کیونکہ لاہور زیر زمین پانی کی سطح خطر ناک حد تک کم ہو رہی ہے۔

محکمہ ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ذاکر حسین سیال نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا زیر زمین پانی کی ری چارجنگ بہت کم ہوئی جس کی وجہ سے زیر زمین لاہور کے مختلف علاقوں میں ایک فٹ سے لے کر چار فٹ تک سالانہ پانی کی سطح کم ہونے لگی ہے۔

ریچارجنگ کر کے پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے محکمہ ایریگیشن کے ریسرچ انسٹیٹیوشن نے 70 سے زائد ریچارج ویل لگا دیے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں 10 سے پندرہ  ایکڑ فٹ کے بجائے صرف 15 لاکھ لیٹر پانی کو ریچارج کیا جا سکا ہے۔ اس کے علاوہ گلبرگ کے ایریا میں پانی کی سطح 125 سے 30 فٹ پر ہے۔

لاہور شہر کے دیگر علاقوں میں کھارے پانی کی سطح کم ہوتے ہوتے ڈیڑھ سو فٹ  تک چلی گئی ہے جبکہ پینے کا پانی سات سو فٹ تک پہنچ چکا ہے۔ 

لاہور میں پانی کی سپلائی زیادہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل کی تعداد بھی سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑھنے لگی ہے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/sl54dtPk-jBGrqoj9.html?fbclid=IwY2xjawM0pj5leHRuA2FlbQIxMABicmlkETFnN1dKajNuMHFKS0Z0dUd0AR72qgeLa0LXYPKvg4udCdkJJcE66i21GTCPqgDQOsyfyp7qLSyQaf-sC7dE0g_aem_iYGYuHLvWcaHP5WwmMjhWg

ایک سروے کے مطابق لاہور میں 1500 سے 1800 تک ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں جو 24 گھنٹے ہی چلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی کے ساتھ گر رہی ہے۔

ریسرچ کے ڈائریکٹر ذاکر سیال نے بتایا کہ  لاہور میں جس تیزی کے ساتھ زمین سے پانی نکالا جا رہا ہے اس کے حساب سے ریچارجنگ نہ ہونے کے برابر ہے بڑے بڑے ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ انڈر گراؤنڈ ڈیمز کی بھی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کے لیے نئی منصوبہ بندی
  • نارتھ کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کا شدید بحران، شہری پریشان
  • حب کینال کی تباہی کے بعد کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، حلیم عادل شیخ
  • مظفرآباد: شہری آبادی میں گھسنے والا تیندوا 2 روز بعد قابو کر لیا گیا
  • اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
  • لاہور کے 6 سکولوں کو سکول آف ایمی نینس کا درجہ دینے کا فیصلہ
  • متحدہ عرب امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی
  • امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی کرلی گئی
  • تیندوا شہری آبادی میں داخل، مظفرآباد میں خوف و ہراس
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو نے لگی