UrduPoint:
2025-09-18@12:56:32 GMT

متعدد ممالک میں امریکی گوشت کی برآمد پر پابندی کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

متعدد ممالک میں امریکی گوشت کی برآمد پر پابندی کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ حال میں ہی اس بات پر شکوہ کناں نظر آئے کہ کئی ممالک امریکی گوشت برآمد کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ امریکہ ان ممالک سے اربوں ڈالر کا گوشت برآمد کرتا ہے۔

ٹرمپ نے آسٹریلیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے پچھلے سال آسٹریلیا سے تین ارب ڈالر کا گوشت خریدا مگر آسٹریلیا اب بھی امریکی گوشت لینے سے انکاری ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے برطانیہ اور یورپی یونین کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہاں امریکی گوشت پر پابندیاں ’’سائنسی بنیادوں کے بغیر‘‘ لگائی گئی ہیں۔

امریکی صدر نے ارجنٹائن پر بھی تنقید کی، جو تاحال زندہ امریکی مویشیوں کی درآمد پر پابندی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

(جاری ہے)

ان غیر منصفانہ تجارتی رویوں کو بنیاد بنا کر ٹرمپ انتظامیہ نے محصولات کا ایک نیا نظام بھی متعارف کروایا ہے۔

لیکن امریکی گوشت کا مسئلہ محض سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ بیماریوں، سائنسی اختلافات اور خوراک کی حفاظت سے متعلق مختلف نظریات کا عکاس ہے ۔ میڈ کاؤ 'بیماری سے متعلق خدشات‘

آسٹریلیا اور ارجنٹائن نے 2003ء میں امریکی گوشت کی برآمد پر پابندی اس وقت لگائی، جب امریکہ میں پہلی بار ''بی ایس ای‘‘ یعنی میڈ کاؤ بیماری کی تشخیص ہوئی۔

یہ بیماری گائے کے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے اور اس کی وجہ مخصوص بگڑے ہوئے پروٹین ہوتے ہیں، جنہیں پرائیون کہا جاتا ہے۔

اگر انسان ایسا آلودہ گوشت کھا لیں تو وہ بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں، جسے انسانی سطح پر کریوٹسفیلڈ جیکب کی بیماری کے نام سے جانا جاتا ہے۔1986ء میں برطانیہ میں پہلی بار سامنے آنے کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں اس بیماری کے سبب دو سو تینتیس افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

اگرچہ امریکی ادارے بی ایس ای پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکےتھے اور آسٹریلیا نے2019 میں امریکی گوشت کی برآمد سے پابندی اٹھا دی تھی مگر آسٹریلیا کے حیاتیاتی تحفظ کے قوانین اب بھی کافی سخت ہیں۔

آسٹریلیا کی مویشیوں کے امراض سے متعلق ماہر روبن آلڈرز کے مطابق، ''امریکہ میں کچھ لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ آسٹریلیا نے ان کے گوشت پر پابندی لگا رکھی لیکن حقیقت میں کوئی سرکاری پابندی نہیں ہے۔

‘‘

البتہ آسٹریلیا کی حیاتیاتی تحفظ کی پالیسیاں بہت سخت ہیں۔ امریکی کمپنیوں کو گوشت بھیجنے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مویشی مکمل طور پر امریکہ میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور ذبح ہوئے۔ آلڈرز کے مطابق یہ عمل مہنگا اور پیچیدہ ہے اور بہت کم کمپنیاں اسے اپنانے کو تیار ہیں۔

ارجنٹائن نے سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکی گوشت پر بی ایس ای کی پابندی ختم کر دی تھی لیکن دونوں ممالک کے درمیان نیا ''سینیٹری سرٹیفکیٹ‘‘مکمل ہونے تک زندہ مویشیوں کی درآمد پر پابندی برقرار رکھی گئ ہے۔

یورپ اور برطانیہ کا ہارمونز اور کلورین پر اعتراض

یورپی یونین (ای یو) اور برطانیہ نے 1989ء سے امریکی گوشت پر پابندی لگا رکھی ہے مگر اس کی وجہ کوئی بیماری نہیں بلکہ امریکہ میں گائے کو دیے جانے والے ہارمونز ہیں۔ ان ہارمونز کا مقصد گوشت کی پیداوار بڑھانا ہے۔ امریکہ میں یہ عمل قانونی ہےلیکن یورپ میں اسے انسانی صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

ای یو کی اپنی تحقیقات کے مطابق ان ہارمونز سے چند اقسام کے کینسر کا خدشہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر جب یہ گوشت بچے، بزرگ یا بیمار افراد کھائیں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے خوراک اور سائنسی پالیسی کے ماہر ایرک مِل اسٹون کہتے ہیں، ''یورپی حکام نے ان ہارمونز کے ممکنہ خطرات پر امریکہ سے زیادہ مفصل تحقیق کی ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے اخراج یعنی بریگزٹ کے بعد بھی امریکی گوشت پر پابندی برقرار رکھی ہے۔

ایک سروے کے مطابق اسیّ فیصد برطانوی شہری ایسے گوشت کے حق میں نہیں، جس میں مصنوعی طریقے سے ہارمونز شامل کیے گئے ہوں۔

یورپی یونین اور برطانیہ امریکہ میں مرغیوں کے گوشت کی پراسیسنگ کے عمل پر بھی اعتراض رکھتے ہیں، خاص طور پر چکن کو کلورین سے دھونے کے عمل کے سبب۔ امریکی فوڈ سیفٹی حکام مرغی کے گوشت کو کلورین سے اس لیے دھوتے ہیں تاکہ نقصان دہ بیکٹیریا جیسے کہ کیمپائلوبیکٹر کو ختم کیا جا سکے، جو عموماً فوڈ پوائزننگ کا سبب بنتا ہے۔

اگرچہ یہ طریقہ بھی امریکی قوانین کے مطابق جائز ہے تاہم یورپی حکام سمجھتے ہیں کہ آخر میں مرغی کے گوشت کو کلورین سے دھونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پروڈکشن کے شروع میں صفائی اور جانوروں کی فلاح پر توجہ نہیں دی گئی۔

یورپ میں''فارم سے دسترخوان تک‘‘ کے اقدام کے تحت غذائی اشیاء کے لیے سخت معیارات مقرر ہیں، جن پر پورا اترنا ضروری ہے۔

پروفیسر مل اسٹون کے مطابق، ''کلورین ملا پانی جراثیم کو مارنے میں مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ بیکٹیریا وہیں موجود رہتا ہے اور بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بس نظر نہیں آتا۔‘‘ اس کے نیتجے میں امریکہ میں فوڈ پوائزننگ کے کیسز کی شرح یورپ سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں رائے عامہ بھی امریکی گوشت کی درآمد کے خلاف ہے، جس کا ثبوت سن دو ہزار بیس میں کیا گیا ایک سروے ہے، جس کے کے مطابق اسی فیصد برطانوی عوام کلورین سے دھوئی گئی مرغی کی درآمد کے خلاف ہے۔

امریکی گوشت برآمدکنندگان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

امریکہ میں جانوروں کی پرورش کے موجودہ طریقے یا تو بین الاقوامی منڈیوں کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتے یا پھر وہ غیر عملی ہیں۔

آسٹریلیا اور ارجنٹینا امریکی بیف کی درآمد کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ امریکی پیداوار ان ممالک کے مقرر کردہ ضوابط پر پوری اترے۔ آسٹریلیا میں درآمد کی اجازت کے لیے ضروری ہے کہ گوشت مکمل طور پر امریکہ میں ہی پیدا، پالا اور ذبح کیا جائے جبکہ ارجنٹائن کی جانب سے صفائی یعنی ہائجین کے نئے سرٹیفکیٹ کا مطالبہ رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب یورپ اور برطانیہ میں امریکی گوشت کی برآمد کے لیے ضروری ہے کہ امریکی کمپنیاں افزائشی ہارمونز کے استعمال کو مکمل طور پر بند کریں اور مرغی کو کلورین سے دھونے سے بھی گریز کریں۔

اگر امریکی گوشت برآمدکنندگان واقعی عالمی منڈیوں خصوصاً یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا اور ارجنٹائن میں قدم جمانا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنے موجودہ فارمنگ سسٹمز میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی اور عالمی اصولوں کو مکمل طور پر اپنانا ہو گا۔

میتھیو وارڈ ایجیئس (اریدہ خان)

ادارت: شکور رحیم

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں امریکی گوشت کی گوشت پر پابندی امریکی گوشت پر کو کلورین سے مد پر پابندی یورپی یونین اور برطانیہ امریکہ میں بھی امریکی ضروری ہے کی درآمد کے مطابق کے گوشت کے لیے

پڑھیں:

امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران

امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ 

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!

تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!

متعلقہ مضامین

  • چین میں حلال گوشت کی طلب، نیا آرڈر مل گیا
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • امریکی صدر ٹرمپ کا آسٹریلوی صحافی سے جھگڑا کس سوال پر ہوا؟
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ اور برطانیہ کی بحیرہ احمر میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں، یمن
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • عرب جذبے کے انتظار میں