متعدد ممالک میں امریکی گوشت کی برآمد پر پابندی کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ حال میں ہی اس بات پر شکوہ کناں نظر آئے کہ کئی ممالک امریکی گوشت برآمد کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ امریکہ ان ممالک سے اربوں ڈالر کا گوشت برآمد کرتا ہے۔
ٹرمپ نے آسٹریلیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے پچھلے سال آسٹریلیا سے تین ارب ڈالر کا گوشت خریدا مگر آسٹریلیا اب بھی امریکی گوشت لینے سے انکاری ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے برطانیہ اور یورپی یونین کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہاں امریکی گوشت پر پابندیاں ’’سائنسی بنیادوں کے بغیر‘‘ لگائی گئی ہیں۔امریکی صدر نے ارجنٹائن پر بھی تنقید کی، جو تاحال زندہ امریکی مویشیوں کی درآمد پر پابندی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
(جاری ہے)
ان غیر منصفانہ تجارتی رویوں کو بنیاد بنا کر ٹرمپ انتظامیہ نے محصولات کا ایک نیا نظام بھی متعارف کروایا ہے۔
لیکن امریکی گوشت کا مسئلہ محض سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ بیماریوں، سائنسی اختلافات اور خوراک کی حفاظت سے متعلق مختلف نظریات کا عکاس ہے ۔ میڈ کاؤ 'بیماری سے متعلق خدشات‘آسٹریلیا اور ارجنٹائن نے 2003ء میں امریکی گوشت کی برآمد پر پابندی اس وقت لگائی، جب امریکہ میں پہلی بار ''بی ایس ای‘‘ یعنی میڈ کاؤ بیماری کی تشخیص ہوئی۔
یہ بیماری گائے کے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے اور اس کی وجہ مخصوص بگڑے ہوئے پروٹین ہوتے ہیں، جنہیں پرائیون کہا جاتا ہے۔اگر انسان ایسا آلودہ گوشت کھا لیں تو وہ بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں، جسے انسانی سطح پر کریوٹسفیلڈ جیکب کی بیماری کے نام سے جانا جاتا ہے۔1986ء میں برطانیہ میں پہلی بار سامنے آنے کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں اس بیماری کے سبب دو سو تینتیس افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اگرچہ امریکی ادارے بی ایس ای پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکےتھے اور آسٹریلیا نے2019 میں امریکی گوشت کی برآمد سے پابندی اٹھا دی تھی مگر آسٹریلیا کے حیاتیاتی تحفظ کے قوانین اب بھی کافی سخت ہیں۔
آسٹریلیا کی مویشیوں کے امراض سے متعلق ماہر روبن آلڈرز کے مطابق، ''امریکہ میں کچھ لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ آسٹریلیا نے ان کے گوشت پر پابندی لگا رکھی لیکن حقیقت میں کوئی سرکاری پابندی نہیں ہے۔
‘‘البتہ آسٹریلیا کی حیاتیاتی تحفظ کی پالیسیاں بہت سخت ہیں۔ امریکی کمپنیوں کو گوشت بھیجنے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مویشی مکمل طور پر امریکہ میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور ذبح ہوئے۔ آلڈرز کے مطابق یہ عمل مہنگا اور پیچیدہ ہے اور بہت کم کمپنیاں اسے اپنانے کو تیار ہیں۔
ارجنٹائن نے سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکی گوشت پر بی ایس ای کی پابندی ختم کر دی تھی لیکن دونوں ممالک کے درمیان نیا ''سینیٹری سرٹیفکیٹ‘‘مکمل ہونے تک زندہ مویشیوں کی درآمد پر پابندی برقرار رکھی گئ ہے۔
یورپ اور برطانیہ کا ہارمونز اور کلورین پر اعتراضیورپی یونین (ای یو) اور برطانیہ نے 1989ء سے امریکی گوشت پر پابندی لگا رکھی ہے مگر اس کی وجہ کوئی بیماری نہیں بلکہ امریکہ میں گائے کو دیے جانے والے ہارمونز ہیں۔ ان ہارمونز کا مقصد گوشت کی پیداوار بڑھانا ہے۔ امریکہ میں یہ عمل قانونی ہےلیکن یورپ میں اسے انسانی صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
ای یو کی اپنی تحقیقات کے مطابق ان ہارمونز سے چند اقسام کے کینسر کا خدشہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر جب یہ گوشت بچے، بزرگ یا بیمار افراد کھائیں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے خوراک اور سائنسی پالیسی کے ماہر ایرک مِل اسٹون کہتے ہیں، ''یورپی حکام نے ان ہارمونز کے ممکنہ خطرات پر امریکہ سے زیادہ مفصل تحقیق کی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے اخراج یعنی بریگزٹ کے بعد بھی امریکی گوشت پر پابندی برقرار رکھی ہے۔
ایک سروے کے مطابق اسیّ فیصد برطانوی شہری ایسے گوشت کے حق میں نہیں، جس میں مصنوعی طریقے سے ہارمونز شامل کیے گئے ہوں۔یورپی یونین اور برطانیہ امریکہ میں مرغیوں کے گوشت کی پراسیسنگ کے عمل پر بھی اعتراض رکھتے ہیں، خاص طور پر چکن کو کلورین سے دھونے کے عمل کے سبب۔ امریکی فوڈ سیفٹی حکام مرغی کے گوشت کو کلورین سے اس لیے دھوتے ہیں تاکہ نقصان دہ بیکٹیریا جیسے کہ کیمپائلوبیکٹر کو ختم کیا جا سکے، جو عموماً فوڈ پوائزننگ کا سبب بنتا ہے۔
اگرچہ یہ طریقہ بھی امریکی قوانین کے مطابق جائز ہے تاہم یورپی حکام سمجھتے ہیں کہ آخر میں مرغی کے گوشت کو کلورین سے دھونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پروڈکشن کے شروع میں صفائی اور جانوروں کی فلاح پر توجہ نہیں دی گئی۔
یورپ میں''فارم سے دسترخوان تک‘‘ کے اقدام کے تحت غذائی اشیاء کے لیے سخت معیارات مقرر ہیں، جن پر پورا اترنا ضروری ہے۔
پروفیسر مل اسٹون کے مطابق، ''کلورین ملا پانی جراثیم کو مارنے میں مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ بیکٹیریا وہیں موجود رہتا ہے اور بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بس نظر نہیں آتا۔‘‘ اس کے نیتجے میں امریکہ میں فوڈ پوائزننگ کے کیسز کی شرح یورپ سے کہیں زیادہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں رائے عامہ بھی امریکی گوشت کی درآمد کے خلاف ہے، جس کا ثبوت سن دو ہزار بیس میں کیا گیا ایک سروے ہے، جس کے کے مطابق اسی فیصد برطانوی عوام کلورین سے دھوئی گئی مرغی کی درآمد کے خلاف ہے۔
امریکی گوشت برآمدکنندگان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟امریکہ میں جانوروں کی پرورش کے موجودہ طریقے یا تو بین الاقوامی منڈیوں کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتے یا پھر وہ غیر عملی ہیں۔
آسٹریلیا اور ارجنٹینا امریکی بیف کی درآمد کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ امریکی پیداوار ان ممالک کے مقرر کردہ ضوابط پر پوری اترے۔ آسٹریلیا میں درآمد کی اجازت کے لیے ضروری ہے کہ گوشت مکمل طور پر امریکہ میں ہی پیدا، پالا اور ذبح کیا جائے جبکہ ارجنٹائن کی جانب سے صفائی یعنی ہائجین کے نئے سرٹیفکیٹ کا مطالبہ رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب یورپ اور برطانیہ میں امریکی گوشت کی برآمد کے لیے ضروری ہے کہ امریکی کمپنیاں افزائشی ہارمونز کے استعمال کو مکمل طور پر بند کریں اور مرغی کو کلورین سے دھونے سے بھی گریز کریں۔
اگر امریکی گوشت برآمدکنندگان واقعی عالمی منڈیوں خصوصاً یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا اور ارجنٹائن میں قدم جمانا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنے موجودہ فارمنگ سسٹمز میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی اور عالمی اصولوں کو مکمل طور پر اپنانا ہو گا۔
میتھیو وارڈ ایجیئس (اریدہ خان)
ادارت: شکور رحیم
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں امریکی گوشت کی گوشت پر پابندی امریکی گوشت پر کو کلورین سے مد پر پابندی یورپی یونین اور برطانیہ امریکہ میں بھی امریکی ضروری ہے کی درآمد کے مطابق کے گوشت کے لیے
پڑھیں:
یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے امریکہ کی جانب سے ادارے کی رکنیت چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کثیرالطرفہ نظام کے بنیادی اصولوں سے متضاد قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے لیے گئے اس فیصلے سے ملک میں ادارے کے بہت سے شراکت داروں کو نقصان ہو گا جن میں عالمی ثقافتی ورثے میں شمولیت کے خواہش مند علاقوں کے لوگ، تخلیقی شہروں کا درجہ اور یونیورسٹیوں کی چیئر شامل ہیں۔
Tweet URLڈائریکٹر جنرل نے اس فیصلے کو افسوسناک اور متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ نجی و تعلیمی شعبوں اور غیرمنفعی اداروں میں اپنے امریکی شراکت داروں کے تعاون سے کام جاری رکھے گا اور اس معاملے پر امریکہ کی حکومت اور کانگریس کے ساتھ سیاسی بات چیت کرے گا۔
(جاری ہے)
خود انحصاری اور غیرمعمولی کامآدرے آزولے کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ادارہ اپنے ہاں کئی بڑی اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات لایا ہے اور اس نے مالی وسائل کے حصول کے ذرائع کو متنوع بھی بنایا ہے۔ 2018 سے جاری ادارے کی کوششوں کی بدولت امریکہ کے مہیا کردہ مالی وسائل پر انحصار میں کمی آئی جو اس وقت یونیسکو کے مجموعی بجٹ کا 8 فیصد ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے بعض اداروں کا 40 فیصد بجٹ امریکہ مہیا کرتا رہا ہے۔
اس وقت ادارہ مالیاتی اعتبار سے کہیں بہتر طور پر محفوظ ہے اور اسے رکن ممالک کی بڑی تعداد سمیت بہت سے نجی اداروں اور افراد کا مالی تعاون بھی میسر ہے جبکہ 2018 کے بعد اسے دیے جانے والے عطیات دو گنا بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس موقع پر ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں کمی بھی نہیں کر رہا۔
2017 میں بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ آنے کے بعد ادارے نے ہر جگہ فروغ امن کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت ثابت کی۔
ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اُس دوران ادارے نے عراقی شہر موصل کے قدیم حصے کی تعمیرنو کرائی جو ادارے کی تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر پہلا اور واحد عالمی معاہدہ بھی منظور کرایا گیا اور یوکرین، لبنان اور یمن سمیت جنگ سے متاثرہ تمام ممالک میں ثقافتی ورثے کی حفاظت اور تعلیم کے لیے پروگرام شروع کیے۔
یہی نہیں بلکہ، یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع اور قدرتی ورثے کی حفاظت اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی اپنے اقدامات میں اضافہ کیا۔امریکی دعووں کی تردیدان کا کہنا ہےکہ امریکہ نے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کی جو وجوہات پیش کی ہیں وہ سات سال پہلے بیان کردہ وجوہات سے مماثل ہیں جبکہ حالات میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے، سیاسی تناؤ کم ہو گیا ہے اور آج یہ ادارہ ٹھوس اور عملی کثیرالطرفہ طریقہ ہائے کار پر اتفاق رائے کا ایک غیرمعمولی فورم بن چکا ہے۔
امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے موقع پر کیے گئے دعوے ہولوکاسٹ سے متعلق دی جانے والی تعلیم اور یہود مخالفت کو روکنے کے لیے یونیسکو کی کوششوں کی حقیقت سے بھی متضاد ہیں۔
یونیسکو اقوام متحدہ کا واحد ادارہ ہے جو ان موضوعات اور مسائل پر کام کرتا ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم، عالمی یہودی کانگریس بشمول اس کے امریکی شعبے اور امریکی یہودی کمیٹی (اے جے سی) جیسے اداروں نے بھی اس کام کو سراہا ہے۔
علاوہ ازیں، یونیسکو نے 85 ممالک کو ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینے اور اس سے انکار اور نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے درکار ذرائع اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔آدرے آزولے نے کہا ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود یونیسکو اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کا اپنے ہاں خیرمقدم کرنا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔