دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے کیخلاف وکلا کے دھرنے، گڈز ٹرانسپورٹ بند WhatsAppFacebookTwitter 0 27 April, 2025 سب نیوز

سکھر: دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں مختلف مقامات پر وکلا کے دھرنے جاری ہیں۔

تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف خیر پور میں ببرلو بائی پاس پر وکلا کا دھرنا دسویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔

ببرلو بائی پاس سمیت دیگر مقامات پر جاری دھرنوں کے باعث سندھ اور پنجاب کے درمیان گڈز ٹرانسپورٹ مکمل بند ہے جس کی وجہ سے اشیائے خورونوش اور دیگر اشیاء کے ٹرک اور ٹریلر پھنس گئے۔

اس حوالے سے ٹرانسپورٹز کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کے باعث مشکلات کا سامنا ہے جبکہ گاڑیوں میں موجود سامان بھی خراب ہونے لگا ہے۔

دوسری جانب وزیر داخلہ سندھ ضیاءالحسن لنجار نے ببرلو بائی پاس پر دھرنا ختم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے ملک کے لوگوں کو دھرنے کے باعث پریشانی کا سامنا ہے۔

وزیر داخلہ سندھ کا مزید کہنا تھا کہ دھرنے کے شرکا پر طاقت کے استعمال کا کوئی آپشن زیرغور نہیں ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت نے در اندازی کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا، وزیر دفاع خواجہ آصف کا روسی ٹی وی کو انٹرویو بھارت نے جارحیت کی تو قوم کا ہر فرد سپاہی بن کر لڑےگا، مولانا فضل الرحمان بھارتی فوج کا کسانوں کو 48 گھنٹے میں سرحدوں پر موجود کھیت خالی کرنے کا حکم پہلگام واقعے پر بھارت کی حقائق چھپانے کی ناکام کوشش پاناما اور نہرسویزسے امریکی جہازوں کومفت سفرکی اجازت ہونی چاہیے، ٹرمپ غزہ: حماس نے تمام قیدیوں کی رہائی، 5 سالہ جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، بچہ بچہ سرحد پر کٹ مرنے کو تیار ہے، شیخ وقاص اکرام TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے

پڑھیں:

دریائے سندھ وفاق کی علامت

دریا محض پانی کا بہاؤ نہیں ہوتا وہ تہذیبوں کو جنم دیتا ہے، زمینوں کو سیراب کرتا ہے، ثقافتوں کو پروان چڑھاتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں جڑیں پیوست کرتا ہے۔ دریائے سندھ صرف سندھ کا دریا نہیں یہ برصغیرکی قدیم ترین تہذیب کی آبی آغوش ہے، وہ عظیم دریا ہے جس کی روانی نے ہڑپہ، موہنجو دڑو اورکئی دوسرے شہر تخلیق کیے۔ آج جب اس دریا پر چھ نہریں نکالنے کا منصوبہ سامنے آیا ہے تو سندھ کے باسی اسے صرف ایک ماحولیاتی یا زرعی مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ انھیں اپنا وجود خطرے میں نظر آتا ہے اور وہ ایسا کیوں نہ سمجھیں؟ جب ایک قوم کی روح زخمی کی جائے تو وہ چیخ اٹھتی ہے۔

سندھ کے لوگ برسوں سے پانی کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ کوٹری بیراج کے نیچے کا علاقہ جہاں کبھی پانی کی روانی معمول کی بات تھی، اب خشک ہو چکا ہے۔ ماہی گیری تباہ ہوگئی، زراعت دم توڑ رہی ہے اور دریا کے ڈیلٹا پر نمکین پانی چڑھتا جا رہا ہے۔

ایسے میں چھ نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ جو دریا کا پانی پنجاب کی چولستان کی زمینوں کی طرف موڑے گا، سندھ کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ گرین پاکستان کے تحت ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر ایک حصے کو سبزکرنے کے لیے دوسرے کو بنجرکیا جائے تو کیا یہ انصاف ہوگا؟ اگر وفاق کا مطلب صرف مرکز کے فیصلے اور دیگر اکائیوں کی خاموشی ہے تو پھر اس وفاق کو ازسر نو سوچنے کی ضرورت ہے۔

سندھ کے زخم صرف پانی تک محدود نہیں، مردم شماری میں آبادی کو کم ظاہر کرنا، وسائل کی تقسیم میں ناانصافی، ملازمتوں میں حصہ کم دینا اور اب پانی جیسا بنیادی حق چھیننا یہ سب مل کر سندھ کے احساسِ محرومی کو گہرا کرتے جا رہے ہیں۔ مردم شماری کی بنیاد پر ہی وسائل اور پانی کی تقسیم کے فارمولے طے ہوتے ہیں، جب سندھ کی آبادی ہی درست شمار نہ کی جائے تو اسے اس کا حصہ کیسے ملے گا؟ کیا یہ وفاق کی روح کے خلاف نہیں کہ ایک اکائی کو جان بوجھ کرکمزورکیا جائے؟

سندھ بھر میں ہونے والے احتجاج صرف غصے کا اظہار نہیں یہ اجتماعی شعورکی بیداری کا اعلان ہے۔ خیرپور، ٹھٹھہ، نوشہرو فیروز، بدین، میرپور خاص، عمرکوٹ، سجاول اور دیگر شہروں میں عوام نے ریلوے لائنیں بند کیں، شاہراہیں جام کیں اور واضح پیغام دیا کہ اب مزید خاموشی ممکن نہیں۔

یہ مظاہرے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر عوامی وحدت کا عکس تھے۔ کسان ماہی گیر خواتین نوجوان وکلاء سب ایک ہی صدا بلند کررہے تھے ’’دریا بچاؤ، سندھ بچاؤ‘‘ یہ نعرہ کسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بلکہ اپنے وجود اپنی زمین اپنی شناخت کو بچانے کی جنگ ہے۔ٹھٹھہ میں وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی پر مظاہرین کا ٹماٹر اور آلو پھینکنا اس شدید غم و غصے کی علامت ہے جو عوام کے دلوں میں ابل رہا ہے، یہ حملہ نہیں ردِعمل ہے ۔

وزیراعظم شہباز شریف نے واقعے کی مذمت کی اور تحقیقات کا حکم دیا لیکن اگر وہ واقعی مسئلے کی جڑ تک پہنچنا چاہتے ہیں تو انھیں سندھ کے عوام کی بات سننی ہوگی۔ دریائے سندھ وہ دریا ہے جس کے نام پر اس ملک کا نام پاکستان رکھا گیا Indus  یعنی سندھ جس کے کنارے ثقافت، شاعری، زبان، رقص اور موسیقی نے جنم لیا۔ سندھ کی ثقافت اس کی شاعری شاہ لطیف سچل سرمست شیخ ایاز سب نے اس دریا کو ماں کا درجہ دیا۔ یہ دریا صرف سندھ کی زمین نہیں سیراب کرتا یہ دلوں کو سیراب کرتا ہے اور ماں کا پانی اگر چھین لیا جائے تو اس کے بچے کب خاموش رہتے ہیں؟

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ 1991 میں چاروں اکائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہوا تھا جسے واٹر اپورشنمنٹ اکارڈ کہا جاتا ہے، اس معاہدے کے تحت سندھ کو 14.82 ملین ایکڑ فٹ پانی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن حقیقت میں یہ وعدہ ہمیشہ ٹوٹا ہے اور سندھ کو اس کے حصے کا مکمل پانی بہت کم مواقعے پر ملا ہے۔ جب معاہدے کے ہوتے ہوئے سندھ کے ساتھ یہ سلوک ہو تو بغیر کسی نئے معاہدے کے نئی نہریں نکالنا کیا معنٰی رکھتا ہے؟

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر سندھ کے ڈیلٹا میں پانی نہیں پہنچتا تو سمندر آگے بڑھے گا۔ زمینیں نمکین ہو جائیں گی، ہزاروں خاندان بے گھر ہو جائیں گے اور قدرتی ماحول مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔ کیا یہ کسی ایک خطے کا نقصان ہے یا پورے ملک کا؟ اگر وفاق واقعی متحد رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنے چھوٹے صوبوں کو صرف سُننا نہیں بلکہ سمجھنا اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا ہوگا۔

یہ دریا صرف زمین کا نہیں تاریخ کا بھی ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں اس دریا کو زندگی کا استعارہ بتایا۔ انھوں نے کہا تھا کہ سندھ کا وجود اس وقت تک ہے جب تک دریا بہتا ہے، اگر دریا کو روکا گیا اس کا بہاؤ چھینا گیا تو صرف پانی نہیں رکے گا، سانس رکے گی، زندگی رکے گی۔

وفاق کا مطلب طاقت کا توازن ہوتا ہے، انصاف پر مبنی اشتراک ہوتا ہے، اگر وفاقی حکومت سندھ سے اس کی مرضی کے بغیر اس کے دریاؤں پر فیصلے کرے تو یہ اشتراک نہیں حکم ہے اور سندھ اب مزید حکم نہیں سنے گا وہ شراکت چاہتا ہے وہ عزت چاہتا ہے وہ اپنا حق چاہتا ہے۔

دریائے سندھ کے پانی پر سندھ کا پہلا حق ہے اور یہ کوئی احسان نہیں یہ اس کا آئینی اخلاقی اور تاریخی حق ہے۔ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دریاؤں کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا نہ ہی تہذیبوں کو بند باندھ کر روکا جا سکتا ہے، اگر ہم نے دریائے سندھ کو نقصان پہنچایا تو صرف سندھ نہیں پورا پاکستان پیاسا رہ جائے گا۔ دریا صرف پانی نہیں ہوتا وہ وحدت کی علامت ہوتا ہے اور دریائے سندھ وفاق کی سب سے گہری علامت ہے۔ اس علامت کو چھیڑنا اس ملک کی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہے۔ اس لیے میں صدائے احتجاج بلند کرتی ہوں دریائے سندھ کو نہ چھیڑو یہ وفاق کی علامت ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں کینالز کیخلاف احتجاج کرنیوالے وکلا، قوم پرستوں پر پولیس کا دھاوا، لاٹھی چارج اور شیلنگ
  • کینالز کیخلاف احتجاج کرنیوالے وکلا اور پولیس آمنے سامنے، لاٹھی چارج، مظاہرین منتشر
  • دریائے سندھ وفاق کی علامت
  • ’’پوسٹ ببرلو‘‘ سندھ
  • سندھ میں پانی کا موجودہ بحران
  •   دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ: مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 2 مئی کو طلب
  • کینال منسوخی تحریری نوٹیفکیشن ملنے تک وکلا دھرنا جاری رکھنے کا اعلان
  • گھوٹکی: کینال منصوبے کیخلاف قومی شاہراہ پر 2 دھرنے جاری
  • ںہروں کا مسئلہ حل، دھرنے ختم کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ