میں نے چار ماہ قبل اپنے ایک کالم میں اس بات کا ذکرکیا تھا کہ اب سندھ ان وڈیروں کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ میری اس بات پر جن لوگوں نے طنزکے تیر برسائے، وہ بھی ریکارڈ پر ہیں۔ اس بات کی سمجھ مجھے تب بھی آرہی تھی اور اب بھی آرہی ہے مگرآج جو سندھ میں تحریک جاری ہے، وہ وکیلوں کی تحریک ہے یا پھر دہقانوں کی، مزدروں کی،کسانوں کی تحریک ہے۔
ایک تاریخ ہے کسانوں اور دہقانوں کی تحریک کی، جس کا آغاز پاکستان بننے کے بعد ہوا۔ میں اور میرا گھرانہ بھی تحریک کا حصہ تھے بلکہ اس تحریک کا محور تھے۔ یہ تحریک جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی تحریک بن کر ابھری اور پھر سترکی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیڈر بن کر ابھرے تو یہ تحریک ماند پڑگئی۔
سندھی صحافت کا ایک بہت بڑا نام فقیرلاشاری، کہتے تھے کہ بھٹو صاحب نے ’’روٹی کپڑا اور مکان ‘‘ کا نعرہ ہاری کمیٹی سے چرایا تھا۔ ایلس البینا اپنی کتاب ’’ ایمپائرز آف انڈس‘‘ میں لکھتی ہیں کہ پیرس کمیون سے پہلے اگرکوئی دہقانوں کی تحریک ابھری تھی تو وہ تھی، شاہ عنایت کی صوفی تحریک۔ جس میں 1710 عیسوی کے لگ بھگ دہقانوں نے مغل بادشاہ کو لگان دینے سے انکارکردیا تھا اور یہ کہا تھا کہ زمینیں دہقانوں کی ہیں، سرکار یا پھرکسی اورکی نہیں۔ جس کو سندھی میں کہتے ہیں کہ ’’جوکھیڑے سوکھائے‘‘ اور یہی نعرہ سندھی ہاری کمیٹی کا تھا۔
آج بظاہر تو یہ تحریک وکیلوں کی ہے، جو آج ببر لو بائی پاس (سکھر) پر چھ کینالوں اور سندھ میں پانی کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں مگر حقیقت میں کیا ایسا ہی ہے یا پھر ماجرا کچھ اور ہے؟ دہائیوں سے قوم پرست اس دھرتی پر سیاست کر رہے ہیں مگر یہ ایوانوں تک نہ پہنچ سکے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی رہی کہ سندھ سے شہری مڈل کلاس لوگ ہجرت کرگئے۔ جاگیرداروں نے ان کی جگہ کو پرکیا اور جو مسلمان مڈل کلاس تھی، وہ کمزور ثابت ہوئی، جو مڈل کلاس شہروں میں ہجرت کر کے آئی، ان کا بیانیہ سندھ سے جُڑ نہ سکا اور اس کا بھر پور فائدہ وڈیروں نے ا ٹھایا یا پھر ملک میں آمریتوں کو ملا۔ سندھ میں وڈیروں کو عوام نے ووٹ پیپلز پارٹی کی وجہ سے دیا اور دیتے رہے ۔
پیپلزپارٹی، بے نظیرکی زندگی تک جمہوریت کی علمبردار تھی اور اسی طرح پی ایم ایل این بھی جب تک وہ نواز شریف کی قیادت میں تھی۔ اب یہ دونوں پارٹیاں اپنی پرانی حیثیت کھوچکی ہیں۔ عام لوگ کبھی قوم پرستوں کے ساتھ جُڑ نہ سکے۔ پھر آہستہ آہستہ جب بھٹوکا سحر تمام ہوا تو پیپلز پارٹی نے وڈیروں کا سہارا لیا۔ بے نظیرکے زمانے میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات کو پیپلز پارٹی کے چھوٹے لیڈروں نے الیکشن میں شکست دی۔ ہم نے 2007 کی وکلاء تحریک بھی دیکھی تھی۔ یقینا عام لوگ بھی اس تحریک میں تھے مگر وکلاء کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ سندھ میں آج کینالوں کے خلاف وکلاء تحریک مختلف نوعیت کی ہے۔
یہ بات کہیں وہم وگمان میں بھی نہیں تھی کہ سندھ کے بچے، دہقان، مرو و عورت وکیلوں کی قیادت پر اتنا بھروسہ رکھتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ قوم پرستوں کی یہ پہنچ نہیں کہ وہ سندھ میں وڈیروں کے خلاف ان کو جیلوں سے آزاد کروا سکتا ہے یا پھر ان کے لیے کورٹ کچہریوں میں جا سکتا ہے، مگر وکیل ایسا کرسکتا ہے۔
وکیل پولیس سے بھی لڑسکتا تھا، ان کو کالے کوٹ پر اعتبار تھا۔ ایسا گمان ہی نہ تھا وہ دہقان جو وڈیروں کے جبر تلے دبے ہوئے تھے وہ اس طرح سے نکل آئیں گے۔ یہ لوگ جو ببرلو دھرنے میں آئے ہیں وہ سندھ کو کونے کونے سے یہاں پہنچے ہیں۔ قوم پرست لیڈران تو سات یا آٹھ لوگ ہیں مگر جو اس وقت متحرک ہیں وہ دو یا چار لوگ ہیں۔ ان قوم پرستوں کے خیالات میں بھی تضادات ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ان قوم پرستوں کو یہ پلیٹ فارم بھی وکیلوں نے مہیا کیا اور سب وہاں پہنچے۔
میں خود بھی سندھی ہوں، مگرگاؤں میرا بھی جانا نہیں ہوتا۔ سال میں ایک مرتبہ ہی شاید جانا ہوتا ہے، اپنے ماں باپ کی قبروں کی حاضری کے لیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ’’سندھی‘‘ دنیا کی بدحال ترین قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔ نہ ہی ان کو صحیح غذا میسر ہے، نہ پینے کا پانی، نہ تعلیمی معیار، نہ ہی صحتی ادارے اور نہ ہی اسکول۔
وہاں اب بھی بیل گاڑیاں چلتی ہیں۔80% فیصد سندھی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں، ان کو نوکریاں بھی یہیں ملتی ہیں۔ شہروں میں جا کر یا تو ڈرائیور بن جاتے ہیں،گھروں میں نوکر لگ جاتے ہیں اورگاؤں جاتے ہیں تو کھیتی باڑی کر لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سولہ سالہ حکومت میں بری حکمرانی کی مثالیں قائم کردیں اور یہی بری حکمرانی اس تحریک اور دھرنے کا ایندھن بنی۔
آج کا سندھ وہ سندھ نہیں جو ببرلو دھرنے سے پہلے تھا۔ یہ سندھ پوسٹ ببرلو سندھ ہے اور اس سندھ میں پچھتر سال کا غم وغصہ، وڈیرا شاہی اور وفاق کا نہ چلنا، ان کی گیس اورکوئلہ اور اس کا صحیح حساب نہ ملنا ہے۔ سندھ کی زمینوں کی بندر بانٹ۔ یہ تمام مسائل قوم پرستوں نے اٹھائے اور آج جب بات ہوئی پانی کی تو پھر ان کو یہ بات سمجھ آئی کہ اب ان کا پانی بھی جا رہا ہے۔ پورے سندھ میں خشک سالی ہورہی ہے۔ انڈس ڈیلٹا کے رہواسی وہاں سے ہجرتیں کررہے ہیں۔
اس پسِ منظر میں لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ پیپلز پارٹی مصلحت پرستی کا شکار ہے، وہ لوگو ں کے مفادات کی صحیح طرح سے ترجمانی نہیں کر رہے ہیں اور لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی وڈیروں کی پارٹی ہے اور یہ وڈیروں کے مفادات کی ترجمان ہے۔ایسی ہی تبدیلیاں دوسرے صوبوں میں آئی ہیں۔ بلوچستان، سرداروں کو الوداع کہہ چکا۔ خیبر پختونخوا میں اب بھی نیشنل عوامی پارٹی ہے، واحد نمایندہ پارٹی نہیں۔ پنجاب میں مڈل کلاس سیاست چھائی ہوئی ہے اور اب سندھ بھی اسی ڈگر پر چل نکلا ہے۔
سندھ میں وکلاء کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور یہ وکلاء انھیں دہقانوں کی اولاد ہیں، یہ خوش آئند بات ہے۔ صدقِ دل سے اس بات کو قبول کرنا چاہیے، جو لوگ وڈیروں اور ان کی ترجمان پیپلز پارٹی کے چنگل سے آزاد ہو نا چاہتے ہیں وہ یہاں فیصلے ہونے دیں۔ پورے پچپن سال پیپلز پارٹی نے سندھ پر راج کیا ہے۔
اب چونکہ دنیا تبدیلی کی لپیٹ میں ہے تو وڈیروں کی اس تبدیلی میں کوئی جگہ ہی نہیں بنتی۔ اب سندھیوں کو بہتر حکمرانی کی ضرورت ہے مگر کوشش یہ کرنی ہے کہ یہاں بلوچستان کی طرح علیحدگی پرست سیاست جنم نہ لے سکے۔ ہم میں بھی ایسے لوگ ہوںگے جو دوسرے ممالک کے ایجنٹ ہوںگے اور ان کی یہ کوشش ہوگی کہ یہاں تشدد کی فضاء قائم رہے اور پیپلز پارٹی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے اقدام اٹھا سکتی ہے۔آج کی یہ تحریک صحت مند ہے۔ اب سندھ مصنوعی اندازمیں، بھٹو کے نام پر، مصنوعی قیادت کے ذریعے نہیں چل سکتا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی قوم پرستوں دہقانوں کی وڈیروں کے کی تحریک یہ تحریک اور اس کے لیے اور یہ ہیں کہ ہیں وہ ہے اور اس بات
پڑھیں:
سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز
لاہور(سب نیوز)وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کا پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی پریس کانفرنس پر ردعمل آگیا۔صوبائی وزیراطلاعات عظمی بخاری نے کہا کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں اس لیے اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، اتحادی ہونے کا یہ مطلب نہیں اب آپ کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنتے جائیں،عظمی بخاری نے کہا کہ منظور چودھری اور حسن مرتضی اپنے فلسفے اور دکھ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو ریلیف دینے میں مصروف ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ الحمدللہ پنجاب حکومت سیلاب متاثرین کی ہر قسم کی مدد اپنے وسائل سے کر رہی ہے۔عظمی بخاری نے کہا کہ سندھ میں ابھی سیلاب سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک سے امداد مانگنے پر فورس کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے تمام وسائل اور حکومتی مشینری کا رخ سیلاب متاثرین کی طرف موڑ دیا ہے، مریم نواز نے وفاق سمیت کسی بھی تنظیم کی طرف مدد کیلئے نہیں دیکھا۔صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے ہارے ہوئے لوگوں کو سندھ کے لوگوں کی فکر کرنی چاہئے، 2022 کے سندھ کے سیلاب متاثرین آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی ٹی آئی نے ہمیشہ ٹی ٹی پی اور دہشتگردوں کے موقف کی تائید کی، بیرسٹر عقیل ملک پی ٹی آئی نے ہمیشہ ٹی ٹی پی اور دہشتگردوں کے موقف کی تائید کی، بیرسٹر عقیل ملک امت مسلمہ کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے،مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین... وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد کے درمیان انتہائی اہم ملاقات طے پاک بھارت ٹاکرے میں میچ ریفری کا تنازع، قومی ٹیم نے دبئی میں شیڈول پریس کانفرنس ملتوی کر دی حیدر آباد، بحریہ ٹاون کی 893ایکڑ زمین کو غیر قانونی قرار،خالی کروانے کا حکمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم