بھارت کی آبی جارحیت، دریائے جہلم میں پانی چھوڑ دیا، عوام میں خوف و ہراس
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد جارحانہ دعوے کرنے والا بھارت، پاکستان کا پانی بند کرنے کے خواب سے جاگ گیا اور گھبراہٹ میں دریائے جہلم میں پانی چھوڑ دیا، اچانک پانی چھوڑنے سے دریائے جہلم میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے نکل کر اوڑی سے ہٹیاں بالا چکوٹھی داخل ہونے والے دریائے جہلم میں بھارت نے پانی کا بڑا ریلا چھوڑ دیا ہے جب کہ مظفرآباد انتظامیہ نے آبی ایمرجنسی نافذ کردی۔
رپورٹ کے مطابق بغیر اطلاع کے دریائے جہلم کی سطح آب بلند ہونے کے باعث اس کے کنارے بسنے والے لوگوں میں افراتفری کا عالم تھا۔
صورتحال کے بعد دریا کے کنارے بستیوں میں مساجد میں اعلانات شروع کر دیے گئے جب کہ مظفرآباد انتظامیہ نے آبی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات کا آغاز کردیا۔
رپورٹ کے مطابق پانی چھوڑنے سے دریائے جہلم میں اونچے درجے کا سیلاب ہے، اس کی سطح معمول سے 7 سے 8 فٹ بلند ہوگئی، لوگوں کو دریا کے کناروں سے دور رہنے کا الرٹ جاری کردیا گیا۔
ماہرین نے کہا کہ پاکستان کی جانب پانی چھوڑنے سےثابت ہو گیا کہ مودی حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہے، مودی حکومت کے پانی بند کرنے کے دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
صدر پاکستان مرکزی مسلم لیگ خالد مسعود سندھو نے کہا کہ بھارتی آبی جارحیت، مودی نے پانی چھوڑ کر جنگ کا آغاز کر دیا، قوم متحد و بیدار ہے، مودی سرکار ہوش کے ناخن لے، بھارتی آبی حملے کا منہ توڑ جواب ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لئے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہے، پاکستان اقوام متحدہ ، او آئی سی کا فوری اجلاس بلا کر بھارتی اقدامات سے عالمی دنیا کو آگاہ کرے۔
خالد مسعود سندھو نے کہا کہ کارکنان بھارتی آبی جارحیت کے سلسلے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں، دریا کنارے آباد آبادیوں کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان دریائے جہلم میں پانی چھوڑ
پڑھیں:
دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، دریائے نیلم آزاد کشمیر میں ٹاؤ بٹ پر بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم پر اڑی ون 480 میگا واٹ پراجیکٹ سے بھی پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے، اڑی ٹو 240 میگا واٹ پروجیکٹ سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردیپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔