Daily Ausaf:
2025-11-03@02:03:47 GMT

معرکۂ فلسطین کی معروضی صورتحال پر ایک نظر

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

فلسطین انبیاء کرام علیہم السلام کا وطن ہے، بیت المقدس کی سرزمین ہے، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت سے ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے والد آذر کے ساتھ آخری مکالمہ کے بعد اہلیہ محترمہ حضرت سارہؓ اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ بابل سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تھی اور اس سرزمین کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ خطہ اہم دینی، سیاسی، تہذیبی واقعات اور تاریخی تبدیلیوں کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ اس پر گفتگو کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کے ماضی کی تاریخ کو سامنے لایا جائے جو سینکڑوں کتابوں میں بکھری ہوئی ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر آج بھی گفتگو جاری ہے۔
جبکہ اس کے بارے میں بات چیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے مستقبل کے بارے میں آسمانی کتابوں بالخصوص قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کا تذکرہ کیا جائے جو وسیع دائرے میں احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے، جن میں سے بطور مثال صرف ایک کا ذکر کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب تمہارا آخری دور آئے گا ’’جئنا بکم لفیفا‘‘ ہم تمہیں سمیٹ کر ایک جگہ جمع کر دیں گے، وغیر ذٰلک۔مگر آج کی نشست میں ان دونوں پہلوؤں یعنی ماضی اور مستقبل کی بجائے ارضِ فلسطین کے حال کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ اس وقت وہ کس ماحول سے دوچار ہے اور فلسطین کے قضیہ کی معروضی صورتحال کیا ہے۔
اس وقت فلسطین میں جو معرکہ جاری ہے وہ اپنے طویل ماضی اور مستقبل کے حوالے سے نہ صرف عرب دنیا بلکہ عالمِ اسلام اور پوری دنیائے انسانیت کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کے تینوں دائروں سے کوئی بھی ملک اور قوم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ باقی ساری تفصیلات سے قطع نظر اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جن قوتوں کے درمیان کشمکش جاری ہے اس کے بنیادی فریق چار ہیں: ایک فریق اسرائیل ہے جس کا بطور ریاست اب سے ایک صدی پہلے کوئی وجود نہیں تھا ، بلکہ فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا صوبہ تھا جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ نے اپنی نوآبادی بنا کر دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا کر بسانے کی مہم چلائی تھی۔ اس مہم میں برطانیہ نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے محروم کر کے ان کی جگہ یہودیوں کو باہر سے لا کر بسانے کی عالمی سازش کی قیادت کی تھی، جس کے نتیجے میں پون صدی قبل اسرائیل بطور ریاست کے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ اقوامِ متحدہ کی تقسیم کے مطابق قائم ہونے والے اسرائیل کو فلسطینیوں کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر بہت سے مسلم ممالک نے اب تک تسلیم نہیں کیا۔ جس کی تعبیر بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے یوں کی تھی کہ ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ اقوام متحدہ کے تحت قائم ہونے والی اس ناجائز ریاست میں ’’بیت المقدس‘‘ اور غزہ اسرائیل کا حصہ نہیں تھے اور ان علاقوں پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کر کے وہاں تسلط جما لیا تھا۔ اسرائیل کا اس خطہ میں اصل ہدف ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ہے یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی عالمی حکومت کو دوبارہ یہودی اقتدار کے تحت قائم کرنا اسرائیل کا اصل مقصد ہے، جس کی طرف وہ مسلسل بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کو ہر وقت تیار ہے۔ اس کشمکش کا دوسرا بڑا فریق ایران ہے جس کا ٹارگٹ وہ ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ ہے جو خلافتِ عباسیہ کے خاتمہ کے بعد قائم ہوئی تھی، اس خطہ کے بہت سے ممالک کو اس نے اپنی حدود میں شامل کر لیا تھا، حتیٰ کہ کچھ عرصہ حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی اس کے دائرے میں شامل رہے ہیں۔ ایران اپنے پورے وسائل کے ساتھ اس ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ کے احیا کی طرف بڑھ رہا ہے اور یمن، عراق، شام، لبنان اور خطہ کے بعض دیگر علاقوں میں اس کی حالیہ موجودگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ اس مہم کا بہت سا حصہ عبور کر چکا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے صرف پرعزم ہی نہیں بلکہ مصروفِ کار بھی ہے۔اس کشمکش کا تیسرا بڑا فریق ترکیہ ہے جس کا ماضی ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کی صورت میں اب پھر اس کے پیشِ نظر ہے۔ اس کے لیے اس کا وژن اور ایجنڈا تو واضح دکھائی دے رہا ہے البتہ ابھی اس کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ اپنے اس ہدف کی طرف بڑھنے کی پوزیشن میں ہو گا، اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے دھیرے دھیرے تیاری کر رہا ہے۔ اس کشمکش کا چوتھا فریق عرب دنیا ہے جس کا مجموعی ایجنڈا اور وژن ابھی تک واضح نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل مصر نے اس سمت پیشرفت کا آغاز کیا تھا مگر وہ عرب حکمرانوں کے باہمی تحفظات کی نذر ہو گیا تھا۔ عرب دنیا کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس خطہ کے حکمران سارے معاملات چند خاندانوں کے دائرے میں طے کرنے پر اصرار کر رہے ہیں، اور ان خاندانوں کا تحفظ ہی اس وقت عرب حکمرانوں کا سب سے بڑا ہدف دکھائی دیتا ہے، جس کے لیے وہ کسی بھی طاقتور فریق کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دینے کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں۔
غزہ کے حوالے سے فلسطین کے حالیہ بحران کا وقتی پس منظر بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مذاکرات کا ایک نیا دور سامنے آیا اور یوں لگا کہ اس راؤنڈ کے بعد اسرائیل پہلے سے زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے گا، جسے روکنے کے لیے فلسطینی حریت پسندوں نے وہ انتہائی اقدام کر ڈالا جسے بہت سے لوگ ’’خود کش حملہ‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں اگر وہ اس سے اسرائیل کو بعض اہم مسلم اور عرب ممالک سے تسلیم کرانے کی مہم کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ان کا یہ وار رائیگاں نہیں گیا، اور وہ اپنے اس مقصد میں بہت حد تک سرخرو نظر آ رہے ہیں، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔ اس میں فلسطینیوں کو بہت زیادہ قربانیاں دینی پڑی ہیں جس کی گہرائی اور گیرائی کا صحیح اندازہ مستقبل کا مؤرخ ہی کر پائے گا مگر دنیا میں ہلچل کی صورتحال بہرحال پیدا ہو گئی ہے اور ارضِ فلسطین پر اسرائیل کے عنوان سے یہود کا قبضہ اب دنیا کے لیے اتنی معمے والی بات نہیں رہی۔
اس صورتحال میں ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں اور معاملہ کی نوعیت اور سنگینی ہم سے کیا تقاضے کر رہی ہے، ان کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا: سب سے پہلے تو عرب اور مسلم حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے جس کے لیے ’’عرب لیگ‘‘ اور ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ کے سربراہی اجلاس فوری طور پر منعقد ہونے ضروری ہیں تاکہ امتِ مسلمہ یا کم از کم مسلم حکمرانوں کا اجتماعی نقطۂ نظر اور پروگرام سامنے آئے۔ فلسطینی عوام کے حق میں اور اسرائیلی بربریت کے خلاف سفارتی سطح پر منظم مہم اہم ترین ضرورت ہے جس کے لیے بہرحال پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ اور مصر کو بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں مسلم عوام اور حلقوں کی طرف سے فلسطینی عوام کے حق میں عوامی مظاہروں، اجتماعات اور بیانات کا جو سلسلہ جاری ہے اسے تسلسل اور وسعت دینا ضروری ہے تاکہ عالمِ اسلام کی رائے عامہ کی بیداری کا اظہار ہوتا رہے، جو فلسطینی عوام کی حوصلہ افزائی اور اسرائیل نوازوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے، بالخصوص خطباء، ائمہ مساجد اور دینی جماعتوں کو مسلسل سرگرم رہنا چاہیے۔ مظلوم فلسطینی بھائیوں کی عملی امداد کے جو ذرائع اور طریقے بھی محفوظ اور قابلِ عمل دکھائی دیں ان کو استعمال میں لا کر ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کا اہتمام ضروری ہے، جس کے لیے بزنس کمیونٹی اور تاجر برادری کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے اور رفاہی و سماجی تنظیموں کو منظم مہم کا اہتمام کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے بارے میں کرنا چاہیے اس کے لیے جس کے لیے ہے کہ اس ہے جس کا ہے اور ا کے ساتھ جاری ہے رہے ہیں رہا ہے اور اس کی طرف کے بعد

پڑھیں:

ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی

یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔

آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔

یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔

انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔

یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔

گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔

بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔

امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔

ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔

مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔

گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔

یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔

اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔

آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں اس وقت ایسی صورتحال نہیں کہ گورنر راج لگانا پڑے، فیصل کریم کنڈی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
  • اسرائیل کے فلسطین پر حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں، طیب اردوان