معرکۂ فلسطین کی معروضی صورتحال پر ایک نظر
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
فلسطین انبیاء کرام علیہم السلام کا وطن ہے، بیت المقدس کی سرزمین ہے، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت سے ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے والد آذر کے ساتھ آخری مکالمہ کے بعد اہلیہ محترمہ حضرت سارہؓ اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ بابل سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تھی اور اس سرزمین کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ خطہ اہم دینی، سیاسی، تہذیبی واقعات اور تاریخی تبدیلیوں کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ اس پر گفتگو کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کے ماضی کی تاریخ کو سامنے لایا جائے جو سینکڑوں کتابوں میں بکھری ہوئی ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر آج بھی گفتگو جاری ہے۔
جبکہ اس کے بارے میں بات چیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے مستقبل کے بارے میں آسمانی کتابوں بالخصوص قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کا تذکرہ کیا جائے جو وسیع دائرے میں احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے، جن میں سے بطور مثال صرف ایک کا ذکر کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب تمہارا آخری دور آئے گا ’’جئنا بکم لفیفا‘‘ ہم تمہیں سمیٹ کر ایک جگہ جمع کر دیں گے، وغیر ذٰلک۔مگر آج کی نشست میں ان دونوں پہلوؤں یعنی ماضی اور مستقبل کی بجائے ارضِ فلسطین کے حال کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ اس وقت وہ کس ماحول سے دوچار ہے اور فلسطین کے قضیہ کی معروضی صورتحال کیا ہے۔
اس وقت فلسطین میں جو معرکہ جاری ہے وہ اپنے طویل ماضی اور مستقبل کے حوالے سے نہ صرف عرب دنیا بلکہ عالمِ اسلام اور پوری دنیائے انسانیت کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کے تینوں دائروں سے کوئی بھی ملک اور قوم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ باقی ساری تفصیلات سے قطع نظر اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جن قوتوں کے درمیان کشمکش جاری ہے اس کے بنیادی فریق چار ہیں: ایک فریق اسرائیل ہے جس کا بطور ریاست اب سے ایک صدی پہلے کوئی وجود نہیں تھا ، بلکہ فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا صوبہ تھا جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ نے اپنی نوآبادی بنا کر دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا کر بسانے کی مہم چلائی تھی۔ اس مہم میں برطانیہ نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے محروم کر کے ان کی جگہ یہودیوں کو باہر سے لا کر بسانے کی عالمی سازش کی قیادت کی تھی، جس کے نتیجے میں پون صدی قبل اسرائیل بطور ریاست کے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ اقوامِ متحدہ کی تقسیم کے مطابق قائم ہونے والے اسرائیل کو فلسطینیوں کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر بہت سے مسلم ممالک نے اب تک تسلیم نہیں کیا۔ جس کی تعبیر بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے یوں کی تھی کہ ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ اقوام متحدہ کے تحت قائم ہونے والی اس ناجائز ریاست میں ’’بیت المقدس‘‘ اور غزہ اسرائیل کا حصہ نہیں تھے اور ان علاقوں پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کر کے وہاں تسلط جما لیا تھا۔ اسرائیل کا اس خطہ میں اصل ہدف ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ہے یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی عالمی حکومت کو دوبارہ یہودی اقتدار کے تحت قائم کرنا اسرائیل کا اصل مقصد ہے، جس کی طرف وہ مسلسل بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کو ہر وقت تیار ہے۔ اس کشمکش کا دوسرا بڑا فریق ایران ہے جس کا ٹارگٹ وہ ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ ہے جو خلافتِ عباسیہ کے خاتمہ کے بعد قائم ہوئی تھی، اس خطہ کے بہت سے ممالک کو اس نے اپنی حدود میں شامل کر لیا تھا، حتیٰ کہ کچھ عرصہ حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی اس کے دائرے میں شامل رہے ہیں۔ ایران اپنے پورے وسائل کے ساتھ اس ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ کے احیا کی طرف بڑھ رہا ہے اور یمن، عراق، شام، لبنان اور خطہ کے بعض دیگر علاقوں میں اس کی حالیہ موجودگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ اس مہم کا بہت سا حصہ عبور کر چکا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے صرف پرعزم ہی نہیں بلکہ مصروفِ کار بھی ہے۔اس کشمکش کا تیسرا بڑا فریق ترکیہ ہے جس کا ماضی ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کی صورت میں اب پھر اس کے پیشِ نظر ہے۔ اس کے لیے اس کا وژن اور ایجنڈا تو واضح دکھائی دے رہا ہے البتہ ابھی اس کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ اپنے اس ہدف کی طرف بڑھنے کی پوزیشن میں ہو گا، اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے دھیرے دھیرے تیاری کر رہا ہے۔ اس کشمکش کا چوتھا فریق عرب دنیا ہے جس کا مجموعی ایجنڈا اور وژن ابھی تک واضح نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل مصر نے اس سمت پیشرفت کا آغاز کیا تھا مگر وہ عرب حکمرانوں کے باہمی تحفظات کی نذر ہو گیا تھا۔ عرب دنیا کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس خطہ کے حکمران سارے معاملات چند خاندانوں کے دائرے میں طے کرنے پر اصرار کر رہے ہیں، اور ان خاندانوں کا تحفظ ہی اس وقت عرب حکمرانوں کا سب سے بڑا ہدف دکھائی دیتا ہے، جس کے لیے وہ کسی بھی طاقتور فریق کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دینے کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں۔
غزہ کے حوالے سے فلسطین کے حالیہ بحران کا وقتی پس منظر بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مذاکرات کا ایک نیا دور سامنے آیا اور یوں لگا کہ اس راؤنڈ کے بعد اسرائیل پہلے سے زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے گا، جسے روکنے کے لیے فلسطینی حریت پسندوں نے وہ انتہائی اقدام کر ڈالا جسے بہت سے لوگ ’’خود کش حملہ‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں اگر وہ اس سے اسرائیل کو بعض اہم مسلم اور عرب ممالک سے تسلیم کرانے کی مہم کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ان کا یہ وار رائیگاں نہیں گیا، اور وہ اپنے اس مقصد میں بہت حد تک سرخرو نظر آ رہے ہیں، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔ اس میں فلسطینیوں کو بہت زیادہ قربانیاں دینی پڑی ہیں جس کی گہرائی اور گیرائی کا صحیح اندازہ مستقبل کا مؤرخ ہی کر پائے گا مگر دنیا میں ہلچل کی صورتحال بہرحال پیدا ہو گئی ہے اور ارضِ فلسطین پر اسرائیل کے عنوان سے یہود کا قبضہ اب دنیا کے لیے اتنی معمے والی بات نہیں رہی۔
اس صورتحال میں ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں اور معاملہ کی نوعیت اور سنگینی ہم سے کیا تقاضے کر رہی ہے، ان کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا: سب سے پہلے تو عرب اور مسلم حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے جس کے لیے ’’عرب لیگ‘‘ اور ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ کے سربراہی اجلاس فوری طور پر منعقد ہونے ضروری ہیں تاکہ امتِ مسلمہ یا کم از کم مسلم حکمرانوں کا اجتماعی نقطۂ نظر اور پروگرام سامنے آئے۔ فلسطینی عوام کے حق میں اور اسرائیلی بربریت کے خلاف سفارتی سطح پر منظم مہم اہم ترین ضرورت ہے جس کے لیے بہرحال پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ اور مصر کو بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں مسلم عوام اور حلقوں کی طرف سے فلسطینی عوام کے حق میں عوامی مظاہروں، اجتماعات اور بیانات کا جو سلسلہ جاری ہے اسے تسلسل اور وسعت دینا ضروری ہے تاکہ عالمِ اسلام کی رائے عامہ کی بیداری کا اظہار ہوتا رہے، جو فلسطینی عوام کی حوصلہ افزائی اور اسرائیل نوازوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے، بالخصوص خطباء، ائمہ مساجد اور دینی جماعتوں کو مسلسل سرگرم رہنا چاہیے۔ مظلوم فلسطینی بھائیوں کی عملی امداد کے جو ذرائع اور طریقے بھی محفوظ اور قابلِ عمل دکھائی دیں ان کو استعمال میں لا کر ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کا اہتمام ضروری ہے، جس کے لیے بزنس کمیونٹی اور تاجر برادری کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے اور رفاہی و سماجی تنظیموں کو منظم مہم کا اہتمام کرنا چاہیے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے بارے میں کرنا چاہیے اس کے لیے جس کے لیے ہے کہ اس ہے جس کا ہے اور ا کے ساتھ جاری ہے رہے ہیں رہا ہے اور اس کی طرف کے بعد
پڑھیں:
ٹرمپ کا بے سمت طرز حکمرانی
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر جب اپنے فیصلے کسی اصول، منصوبہ بندی یا عالمی تدبر کے بجائے ذاتی جبلت اور فوری مفادات کی بنیاد پر کرنے لگیں، تو اس کے اثرات صرف قومی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گہرے اور سنگین ہو جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت کو سمجھنے کے لیے اب مزید کسی قیاس آرائی کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ خود انہوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان کے فیصلوں کی بنیاد کوئی مدبرانہ حکمت عملی نہیں بلکہ محض انسٹنکٹ یعنی فوری اندرونی جذبہ ہے۔ یہ اعتراف نہ صرف ان کے سابقہ طرز عمل کی تصدیق کرتا ہے بلکہ دنیا کو بھی متنبہ کرتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے غیر متوقع فیصلوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں اگر کوئی مستقل عنصر ہے تو وہ ہے بےترتیبی، عدم تسلسل اور ذاتی مفاد کا غلبہ۔ چین کے ساتھ ان کے تعلقات اس رویے کی واضح مثال ہیں۔ ایک طرف وہ بیجنگ پر سخت معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، تو دوسری طرف کبھی کبھار مثبت بیانات دے کر ماحول کو نرم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض مبصرین نے اسے نکسن کی دور اندیش ’’ریورس نکسن‘‘حکمت عملی کا عکس قرار دیا، مگر نکسن اور کسنجر نے جس منصوبہ بندی اور عالمی فہم کے ساتھ سفارتی چالیں چلی تھیں، ٹرمپ کے اقدامات میں اس کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔اسی طرح بعض نے ٹرمپ کے غیر متوقع رویے کو نکسن کی ’’پاگل پن‘‘ حکمت عملی سے تشبیہ دی ہے، مگر وہ حکمت عملی مخصوص اور نازک مواقع پر استعمال کی جاتی تھی، جبکہ ٹرمپ کا رویہ عمومی بےسمتی اور غیر متوقع پن کا شکار ہے۔ درحقیقت ان کے فیصلے زیادہ ترداخلی سیاسی ضروریات ، ذاتی مفاد اورلمحاتی فائدے کے تابع ہوتے ہیں، نہ کہ کسی دیرپا قومی یا عالمی مفاد کے۔ ٹرمپ کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی پیچیدہ نظریے کی ضرورت نہیں۔ سب سے سادہ وضاحت سب سے درست ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹرمپ محض ذاتی مفادات اور فوری سیاسی فائدے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے گزشتہ تیس سالہ عوامی کیریئر میں بھی کہیں کوئی گہری فکری سوچ یا عالمی وژن نہیں دکھائی دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ صدر بنے تو ان کے فیصلے اسی غیر منظم سوچ کا نتیجہ بنے۔ان کی پالیسیوں میں ایک چیز مستقل رہی ہے، محصولات (ٹیرف) کا استعمال۔ ٹرمپ نے 1980 کی دہائی سے ہی عالمی تجارتی نظام پر تنقید شروع کر دی تھی اور آج بھی وہ محصولات کو ایک دھمکی یا سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن جہاں دنیا میں ٹیرف مخصوص قومی صنعتوں کو بچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ٹرمپ کا استعمال زیادہ تر ذاتی سیاسی فائدے کےلیے ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک یا کسی بھی مصنوعات پر اچانک محصولات لگا دینا اور پھر کچھ رعایت حاصل ہوتے ہی انہیں واپس لے لینا ان کے طرز عمل کی پہچان بن چکی ہے۔حالیہ برسوں میں، ٹرمپ نے کئی بار بڑے پیمانے پر محصولات عائد کیے اور پھر چند ہی دنوں میں انہیں واپس بھی لے لیا، محض اس لیے کہ وال اسٹریٹ میں شدید مندی یا عوامی ردعمل نے ان پر دباؤ ڈالا۔ چین اور یورپی یونین کی طرف سے جوابی اقدامات نے امریکی معیشت پر دباؤ بڑھایا، لیکن ٹرمپ کی بنیادی سوچ میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ ان کے نزدیک عالمی تجارت ایک گیم ہے، اگر کوئی دوسرا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے تو لازمی طور پر امریکہ نقصان اٹھا رہا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عالمی خوشحالی دراصل امریکہ کے اپنے مفاد میں رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ نے جس لبرل عالمی تجارتی نظام کی قیادت کی، اس نے نہ صرف عالمی امن کو فروغ دیا بلکہ امریکی معیشت کو بے مثال فوائد پہنچائے۔ امریکی متوسط طبقے کی خوشحالی اور دنیا بھر میں امریکہ کی سافٹ پاور اسی نظام کی مرہون منت رہی ہے، مگر ٹرمپ کی سوچ محدود ہے۔ وہ عالمی معیشت کے پیچیدہ تانے بانے کو نہیں دیکھتے، بلکہ ہر تعلق کو ایک سادہ کاروباری سودا سمجھتے ہیں جس میں جیت یا ہار کا فوری تعین ہونا چاہیے۔ٹرمپ کا انداز، ان کی بے ربط گفتگو اور عالمی امور کی عدم تفہیم شیکسپیئر کے مشہور المیے ’’روزن کرانٹز اور گلڈنسٹرن‘‘ کی یاد دلاتی ہے، جنہیں ٹام اسٹوپارڈ نے اپنی شاہکار تصنیف میں جدید انسان کی بے یقینی اور بے سمتی کی علامت بنا دیا تھا۔ ٹرمپ بھی اسی طرح عالمی سیاست کے طوفانی دریا میں ایک بےخبر ملاح کی مانند بہتے چلے جا رہے ہیں، جنہیں نہ منزل کا پتا ہے اور نہ راستے کا۔اگر دنیا نے ٹرمپ کے طرز حکمرانی سے کوئی سبق سیکھا ہے تو وہ یہی ہے کہ قیادت کے لیے صرف عوامی مقبولیت یا جارحانہ لب و لہجہ کافی نہیں ہوتا۔ قیادت کے لیے طویل مدتی وژن، مستقل مزاجی اور عالمی حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ جب سربراہان مملکت صرف ذاتی فائدے، انتخابی سیاست یا وقتی شہرت کے اسیر ہو جائیں، تو پوری دنیا عدم استحکام، اقتصادی بحرانوں اور سفارتی تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے۔آج عالمی برادری کو سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ موجودہ بین الاقوامی نظام کو ایسے غیر سنجیدہ عناصر سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ ٹرمپ جیسے رہنماؤں کی موجودگی میں عالمی تجارت، ماحولیاتی تحفظ، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، لہٰذا آنے والے وقتوں میں یہ عالمی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ قیادت میں فکری بلوغت، دور اندیشی اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کو اولین ترجیح دی جائے۔اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو مستقبل کی دنیا مزید غیر مستحکم، متضاد اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں نہ قانون کی حکمرانی ہو گی اور نہ ہی عالمی امن کی کوئی ضمانت۔