ایک حسینہ تھی، بدلاپور اور اندھادھن جیسی کامیاب فلمیں بنانے والے ہدایت کار سری رام راگھون نے شاہ رخ خان کی 1993 میں ریلیز ہونے والی فلم بازیگر سے متعلق اہم انکشاف کیا ہے۔

بھارتی میڈیا کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں سری رام راگھون نے انکشاف کیا کہ اپنے مشکل اور کٹھن دور میں ایک ناول پڑھنے کے دوران ان کے ذہن میں ایک کہانی نے جنم لیا تھا۔

ہدایتکار نے مزید بتایا کہ میں پوری تندہی کے ساتھ کہانی لکھنے بیٹھ گیا اور فلمی کہانی کو کاغذ پر منتقل کرکے پروڈیوسر ڈھونڈنے نکل پڑا۔

سری رام راگھون نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے مزید کہا کہ مجھے اُس وقت تک کہانی کے حقوق لینے یا دیگر قانونی معاملات کا کوئی خیال نہیں تھا۔

ہدایتکار نے مزید بتایا کہ جب میں نے یہ کہانی تجربہ کار اداکار ٹنّو آنند کو سنائی تو وہ حیرت میں مبتلا ہوگئے اور مجھے بتایا کہ جو کہانی تم مجھے سنا رہے ہو وہ بازیگر ہے اور اس وقت بن رہی ہے جس میں، میں بھی کام کر رہا ہوں۔

یاد رہے کہ فلم بازيگر کو عباس مستان نے 'اے کس بیفور ڈائنگ' نامی ناول سے ماخوذ کر کے وینس فلمز کے بینر تلے بنایا تھا۔

سری رام راگھون نے مزید بتایا کہ جب سنیما گھر میں 'بازيگر' دیکھنے گیا تو سب فلم کے کلائمکس سین سے لطف اندوز ہو رہی تھے اور میں خاموش بیٹھا تھا۔ مجھے معلوم تھا آگے کیا ہونے والا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بتایا کہ

پڑھیں:

بجٹ کی کہانی اور عوامی مفادات

عمومی طور پر ہمارے جیسے ملک کے بجٹ میں کئی طرح کے مغالطے پائے جاتے ہیں اور ہمیں کئی طرح کے سوالات کا چیلنج درپیش رہتا ہے۔حکومت کسی کی بھی ہو، اس کے لیے بجٹ عوام دوست اور ملکی ترقی کا ضامن ہوتاہے ۔اسی طرح حزب اختلاف کوئی بھی ہو، اس کی نظر میں بجٹ عوام دشمن اور ملکی ترقی یا عوامی مفادات کے برعکس ہوتا ہے۔

حکومت اور حزب اختلاف کے مقابلے میں معاشرے کے دیگر طبقات بھی ہوتے ہیں، ان کی نظر میں بھی بجٹ خوش کن نہیں ہوتا ۔عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ بجٹ کی کہانی طاقت ور طبقات کے مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے اور محروم طبقہ کے مفادات کی قربانی دے کر نظام کو چلایا جاتا ہے۔

ایک دور میں بجٹ سالانہ بنیادوں پر جاری ہوتا تھا ، طاقت ور طبقات پر بڑا بوجھ ڈال کر کمزور طبقات کو ہی ریلیف دیا جاتا تھا ،مگر اب کہانی مختلف ہے اور طاقت ور طبقات کے مفادات کو باقاعدہ تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ جب طاقت ور اور کاروباری طبقات خود حکومت کا حصہ ہوں توو ہ کیسے خود کو قانون کے دائرہ کار میں لائیں گے۔  اس لیے ریاست اور حکومت کا طاقت ور طبقات کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ ایک منصفانہ اور شفاف بجٹ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اسی طرح ایک بنیادی سوال معاشی فیصلوں اور معیشت کی خود مختاری کا ہے جو ہمیں اپنے نظام میں بہت کمزور نظر آتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بجٹ کی تیاری میں عوامی مفادات کے مقابلے میں آئی ایم ایف سے کیے گئے بڑے وعدے اور ترجیحات کا تعین دیکھنے کو ملتا ہے۔ بجٹ میں حکومت اور حزب اختلاف یا پارلیمنٹ کا کردار محدود اور آئی ایم ایف کے نمائندے جو خود حکومت کا حصہ ہوتے ہیں ان کی بالادستی کا پہلو زیادہ مضبوط نظر آتا ہے ۔

ایک دلچسپ لطیفہ جو آج کل سوشل میڈیا پر موجود ہے کہ اس حکومت کی اہم اتحادی پیپلز پارٹی نے حکومت اور وزیر اعظم سے گلہ کیا کہ ہمیں بجٹ مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا اور سارے فیصلے خود ہی کرلیے گئے ہیں۔اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ پریشان نہ ہوں ہم تو خود بجٹ مشاورت کا حصہ نہیں تھے اور ہماری حیثیت بھی بس بجٹ کو پیش کرنے کی تھی اور ہم بھی آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

عوامی مسائل کو سمجھنا ہے تو یہ چار مسائل سمجھنے ہوںگے۔اول، عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 44.07  فیصدافراد خط غربت سے نیچے کی زندگی گزاررہے ہیں اور یہ ملک کے 12کروڑ افراد ہیں۔ دوئم،اسی برس ملک سے نو لاکھ نوجوانوںنے ہجرت کی ، ان میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب سے اور پڑھے لکھے افراد کی ہے۔جو لوگ برسر روزگار ہیں اور اعلی عہدوں پر ہیں وہ بھی ملک چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ادارہ شماریات کے بقول ملک میں لوگوں کی قوت خرید میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔

سوئم، اقتصادی سروے کے مطابق اس برس ہم نے تعلیم پر جی ڈی پی کا 0.08 فیصد اور صحت پر ہم نے 0.09فیصد خرچ کیا ہے جو تاریخ کی سب سے کم شرح ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ مہنگائی کم ہوئی ہے مگر ادارہ شماریات کے بقول اس برس پاکستان میںآٹا، گھی ،چینی ، ادویات،کوکنگ آئل،مرغی،گائے اور بکرے کے گوشت،دودھ، دہی، دالوں، انڈے، پیازسمیت دیگر روزمرہ کی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ریگولیٹ کرنے والے حکومتی ادارے بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میںعملاً ناکام ہوئے ہیں۔

چہارم، ایک طرف تنخواہوں میں دس فیصد اور پنشن میں سات فیصد اضافہ اور دوسری طرف اسپیکر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے چیئرمین کی تنخواہوں میں 600فیصد اضافہ اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دوسو سے تین سو فیصد اضافہ، بیوروکریٹ اور طاقت ور طبقہ کی مراعات میں بے تحاشہ شاہانہ اخراجات میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر معیشت کی شفافیت کے نظام میں کہاں کھڑے ہیں۔اسی طرح یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت نے اقتصادی سروے کے نتائج پر جو اعداد وشمار پیش کیے ہیں ان کی صحت اور شفافیت پر بھی مختلف سطح پر ماہرین سوالات اٹھارہے ہیں۔

دنیا میں جس تیزی سے ای کامرس بڑھ رہی ہے اور لوگ خاص طورپر نئی نسل اس سے روزگار تلاش کررہی ہے اس پر 18فیصد ٹیکس لگادیا گیا ہے جو اس کاروبار کو متاثر کرے گا۔ہم عمومی طور پر بجٹ کی کہانی میں آئی ایم ایف پر تو بہت تنقید کرتے ہیںمگر حکومت اور ریاستی نظام پر تنقید نہیں کرتے جن کی ترجیحات ریاستی نظام اور عوام کے مفادات کے برعکس ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ویسے تو کڑی نگرانی،جوابدہی اور احتساب یا شفافیت کی بات توکرتا ہے مگر ہمارے جیسے ملکوں میں اپنے دیے گئے پیسے کی شفافیت اور عدم یا غیر منصفانہ ترجیحات پر حکمرانوں کو جوابدہ نہیں بناتا۔ ایک طرف قوم کا مسئلہ مہنگی بجلی اور بجلی کے بلوں میں اضافہ تھا۔لوگوں کو متبادل بجلی یعنی سولر کی طرف دھکیلا گیا اور اب اس بجٹ میں سولر پر 18فیصد سیلز ٹیکس لگادیا گیا ہے اور اس کا مقصد سولر کی حوصلہ شکنی اور آئی پی پی ایز کے مفادات کو زیادہ تحفظ دینا ہے۔

ایک طرف ہم زور دیتے ہیں کہ ہمیں میثاق معیشت درکار ہے مگر جب تک سیاست کی سمت اور سیاسی استحکام کو ممکن نہیں بنایا جائے گا سیاست اور معیشت میں بنیادی سطح پر تبدیلی کا عمل نئی رکاوٹوں کو جنم دے گا۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کا حکمران طبقہ یا طاقت ور طبقات اپنے مفادات کی عملا قربانی دینے کے لیے تیار ہیںتواس کا جواب نفی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔پاکستان میں سیاست سمیت معیشت کی درستگی کے لیے ہمیں ایک بڑی مزاحمتی تحریک درکار ہے مگر ملک کے کمزور سیاسی نظام اور کمزور حکومت میںیا کمزور سطح کی سیاسی جماعتوں اور قیادت کی موجودگی یا سمجھوتوں کی سیاست میں مزاحمتی تحریک کے امکانات بھی محدود ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سمندر کی تہہ میں موجود اربوں ڈالر مالیت کے جہاز سے متعلق دلچسپ انکشاف
  • ٹک ٹاکر کنول آفتاب کا والد سے متعلق حیران کن انکشاف
  • خلیل الرحمان قمر کا ہمایوں سعید سے متعلق حیران کن انکشاف
  • جبراً بے گھر ہونے والوں کی تعداد ’ناقابل یقین حد تک زیادہ‘، اقوام متحدہ
  • بجٹ کی کہانی اور عوامی مفادات
  • سب کو معلوم ہوگیا ہوگا شوہر کے فراڈ کیس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں: اداکارہ نادیہ حسین
  • سندھ کی 80 فیصد صنعتوں میں کم از کم اجرت کے قانون کی خلاف ورزی کا انکشاف
  • سندھ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس میں 80 فیصد سے زائد نجی صنعتی اداروں کے مقررہ کم از کم تنخواہ ادا نہ کرنے کا انکشاف
  • سرخیوں کیلئے مجھے کال کریں! سکندر سے متعلق بیان پر عماد کی وضاحت
  • سلیم نے شادی کیلئے کئی سال تک منایا: ماہرہ کا انکشاف