معروف اداکارہ اور میزبان جگن کاظم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میرا اصل نام مہربانو ہے البتہ مشہور فلمی نام جگن سے ہوگئی۔

نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ میں، یعنی کہ مہر بانو کاظم جب پہلی بار شوبز انڈسٹری میں آئی، تو مجھے "جگن" کا نام دیا گیا تھا۔

مہربانو کاظم نے بتایا کہ مجھے جگن نام پسند نہیں آیا اور نہ میں اس نام سے شہرت حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن پراجیکٹ ایسا تھا۔ میں انکار نہ کرسکی۔

انھوں نے مزید کہا کہ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جگن اس طرح میرے نام کے ساتھ جڑ گیا کہ جو لوگ مہربانو کو جانتے تھے وہ بھی اسے جگن کہنے لگے۔

مہر بانو (جگن) نے مزید کہا کہ بہت سی چیزیں آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں۔ میرے نام کی تبدیلی بھی ایسے ہی میرے قابو سے باہر تھی۔

ادکارہ و میزبان جگن کاظم نے شکوہ کیا کہ آج کل لوگ اس قدر بےتکلفی سے بات کرتے ہیں کہ کبھی کبھی چھوٹے بڑے کا فرق سمجھ نہیں آتا۔

انھوں نے کہا کہ میں پرانے خیالات کی مالک ہوں اور سمجھتی ہوں کہ بات کرتے یا مخاطب ہوتے ہوئے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

جگن کاظم نے کہا کہ چھوٹی عمر والوں کو مجھے جگن آنٹی یا جگن آپی کہنا چاہیے۔ مجھے اس میں برا نہیں بلکہ اچھا لگے گا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جگن کاظم نے

پڑھیں:

یہ غلط ہو رہا ہے

پہلے دنیا ہر دس برس بعد اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کرتی تھی مگر اب بدلاؤ کا عمل بہت تیزی اختیارکرچکا ہے، ہر شے ہی ٹھہراؤ کے معنی سے انجان ہوتی جا رہی ہے، جدیدیت کی جدت بھی مانند پڑنے لگی ہے، نئے اطوار پرانے اور پرانے اطوار فرسودہ بہت کم وقت میں ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی طرح کی تبدیلی جب اپنے روایتی طریقہ کار کے تحت رونما ہوتی ہے تو وہ معاشرے اور اُس کے افراد کو خوشگواری کی نوید سناتی ہے۔

مگر مسلسل آنے والی غیر معمولی تبدیلیاں معاشرے کو صرف اور صرف بربادی کی جانب دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ قدرت نے اس دنیا میں ہونے والے ہر کام کا ایک مخصوص عمل موجود رکھا ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، دنیا والوں کی جانب سے قدرتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں زمین پر تباہی کا نزول ناگزیر ہے۔

اس کرہ ارض پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مختلف اقسام کی ایجادات جہاں ایک طرف ابنِ آدم کو سہولیات فراہم کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف اُن کے مضر اثرات پوری قومِ انسانی کو شدید نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ انسانوں کا مشترکہ مزاج اس طرزکا ہے کہ وہ تھوڑے فائدے کے آگے بڑے نقصان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب کسی چیز سے اُنھیں بیشمار فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے تو اُن کی آنکھیں اُس کے ہمراہ آنے والی بڑی خرابی کو دیکھنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ہم سبھی نے یہ سن رکھا ہے کہ ’’ لالچ بری بلا ہے‘‘ دراصل مزید اور مزید کی خواہش ہم سے میسر آیا ہوا بھی چھین لیتی ہے، زیادہ کی تمنا انسان کے وجود میں بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔

نعمت کا اصل مزا انتظار میں ہے کیونکہ ہر شے کا فوراً مل جانا زندگی کا حُسن ختم کر دیتا ہے۔ محرومی انسان کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے اور بہتری کی جانب سفر کرنے پر اُکساتی ہے، اس کے علاوہ یہ انسانوں کے اندر قدرکا جذبہ بھی اُجاگر کرتی ہے۔ انسان کا شاکر ہونا اور تھوڑے کو بہت سمجھنا اُس کے ذہنی سکون کے لیے انتہائی اہم ہے، البتہ بِنا محنت، بغیر مانگے اور وقت سے پہلے کیسی چیز کا مل جانا انسان کی طبیعت میں اُچاٹ پن اور بیزاری کو جنم دیتا ہے۔ 

اگر انسان کا دماغ اور جسم دونوں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے، تبھی وہ صحیح معنوں میں صحت مند گردانا جائے گا، بصورت دیگر وہ خود پر خود ہی بوجھ بن کر رہ جائے گا جسے اُٹھانا اُس کے اعصاب کو تھکا کر شل کردے گا۔ ہر انسانی ترقی قابلِ ستائش نہیں ہوتی ہے بلکہ کچھ تو بِلا ضرورت وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو سکون کے بجائے بے سکونی کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔

تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان کے پاس آسائشیں کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں مگر اطمینان اور خوشی کا احساس اپنی انتہا پر موجود تھا، اس کے برعکس زمانہ حال میں بنی نوع انسان کے پاس تقریباً ہر شے بے حساب ہے، ماسوائے چین و سکون کے۔

دورِ ماضی میں جب انسان خوش ہوتا تھا تو سرشاری اُس کے پورے وجود سے عیاں ہوتی تھی اور جب کبھی وہ رنج، پریشانی اور بے چینی کی کیفیات میں مبتلا ہو جاتا تھا تب وہ رنجیدگی اور دل گیری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر رہا ہوتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہر انسان اپنے آپ میں ایک بہترین اداکار ہے جن کو اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر ہونے سے روکنا باخوبی آتا ہے، ظہورِ احساسات کے سامنے زبردستی بند باندھنے کے اس عمل نے موجودہ دور کے ہر دوسرے انسان کو ذہنی طور پر بیمار کر کے رکھ دیا ہے۔

نئے دورکے انسان کی کوئی ذاتی پسند یا ناپسند نہیں ہے بلکہ زمانے کا چلن اُن کا منظورِ نظر بن جاتا ہے، وہ شوق بھی صرف وہی پالتے ہیں جن کو اشرافیہ قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اپنی جڑوں میں موجود تخلیقی عنصرکی بیدردی سے ناقدری کرتے ہوئے انسان خود سے بہتر لگنے والے افراد کی نقول بننے کو ترجیح دیتا ہے۔

یہاں ہرکوئی اپنی کھوکھلی ذات کو دنیا کے سامنے سجا، سنوار کر پیش کرنے کے قابل بنانے کے جتن کرنے میں اتنا مصروف ہوچکا ہے کہ اپنے اصل کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے۔ ماڈرن ورلڈ کے انسانوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو مسلسل اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلائیں گے تو وہ اُنھیں بھول جائیں گے تبھی وہ جگ بھاتے معیار پر پورا اُترنے کی کوششوں میں خود کو ہلکان کر کے رکھ دیتے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ آج کا انسان اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جی رہا ہے تو اس میں قطعی مبالغہ آراء نہیں ہوگی۔جدید دنیا نے یہاں بسنے والے تقریباً تمام نوجوانوں کو ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے، ہنسنے کھیلنے اور موج مستی کی عمر میں وہ اپنے دماغ پر بلاضروری بوجھ ڈال کر وقت سے پہلے سنجیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

انٹرنیٹ سرفنگ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری نوجوان نسل کے دماغ کوکھانے کا کام کر رہے ہیں جب کہ موبائل اسمارٹ فون، ایٹم بم سے کم خطرناک ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ گزرے ہوئے وقتوں میں کبھی موبائل فون رابطے کا ذریعہ مانے جاتے تھے لیکن اب یہ ہماری ذہنی و جسمانی صحت اور نسلوں کو تباہ کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے انسان کو سماج میں متحرک تو نہیں کیا بلکہ الٹا ایسی بھیانک تنہائی میں جھونک دیا ہے جہاں اُن کا جسم اور روح بھی ایک دوسرے سے انجان انجان دکھائی دیتے ہیں۔روشنی جب تک نورکی حیثیت سے ہماری زندگیوں میں رمق بکھیرتی ہے تب تک ہی وہ قلب کو بھاتی ہے، ساتھ ہمارے پورے وجود کو منور اور پر رونق بنا کر خوشنمائی کا پیکر بنا دیتی ہے جب کہ اُسی روشنی کی زیادتی اور بھڑکیلا پن ہماری آنکھوں کو چندھیا کر بینائی سے محروم کردیتا ہے۔

کسی بھی شے کو ضرورت سے بڑھ کر استعمال کرنا اُس کو امرت سے زہر میں تبدیل کر دیتا ہے، لفظ معتدل کو اُس کے صحیح معنوں اور پوری افادیت کے ساتھ زندگی میں اپنانے سے ترنم کا احساس تادمِ مرگ زندہ رہتا ہے۔ زمانے کی چکا چوند میں اپنی ذات کوگم ہونے سے بچانے کے لیے میسر آئی تمام طرزکی تسہیل کو صرف اور صرف اُس کی مثبتیت کے ساتھ بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے لہذٰا خود کو خود ہی سے بچانے کی حکمتِ عملی مرتب کرنے میں دیر نہ لگائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے اور آپ کی بقاء کے سارے در مقفل ہو جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • میرے بیٹے احتجاج کے لیے پاکستان نہیں آئیں گے، عمران خان
  • عمران خان کے بیٹے قاسم اور سلیمان پاکستان کب آئیں گے؟ علیمہ خان نے پورا پلان بتادیا
  • قید تنہائی کیاہے، عمران خان کو جیل میں کوئی ساتھی دیدیں جو ان کے ساتھ سیل میں رہے؟ خواجہ آصف 
  • ملک کی خوشحالی کے پیمانے
  • اداکارہ منسا ملک مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں، علیزے شاہ کا الزام
  • امریکہ بار بار پاکستان کی تعریفیں کیوں کر رہاہے ؟ اعزاز سید کا وی لاگ میں انکشاف 
  • نہ اولاد ، نہ سابقہ بیویاں ، عامر خان کی مالی سلطنت کا دربان کون؟
  • ’گاندھی نہیں کہ دوسرا گال آگے کر دوں‘ علیزے شاہ نے ایسا کیوں کہا؟
  • کاش آج میں عمران خان سے مل سکتا اور ان کے گلے لگ کر اپنا دکھ کم کرسکتا، حماد اظہر
  • یہ غلط ہو رہا ہے