معروف اداکارہ اور میزبان جگن کاظم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میرا اصل نام مہربانو ہے البتہ مشہور فلمی نام جگن سے ہوگئی۔

نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ میں، یعنی کہ مہر بانو کاظم جب پہلی بار شوبز انڈسٹری میں آئی، تو مجھے "جگن" کا نام دیا گیا تھا۔

مہربانو کاظم نے بتایا کہ مجھے جگن نام پسند نہیں آیا اور نہ میں اس نام سے شہرت حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن پراجیکٹ ایسا تھا۔ میں انکار نہ کرسکی۔

انھوں نے مزید کہا کہ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جگن اس طرح میرے نام کے ساتھ جڑ گیا کہ جو لوگ مہربانو کو جانتے تھے وہ بھی اسے جگن کہنے لگے۔

مہر بانو (جگن) نے مزید کہا کہ بہت سی چیزیں آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں۔ میرے نام کی تبدیلی بھی ایسے ہی میرے قابو سے باہر تھی۔

ادکارہ و میزبان جگن کاظم نے شکوہ کیا کہ آج کل لوگ اس قدر بےتکلفی سے بات کرتے ہیں کہ کبھی کبھی چھوٹے بڑے کا فرق سمجھ نہیں آتا۔

انھوں نے کہا کہ میں پرانے خیالات کی مالک ہوں اور سمجھتی ہوں کہ بات کرتے یا مخاطب ہوتے ہوئے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

جگن کاظم نے کہا کہ چھوٹی عمر والوں کو مجھے جگن آنٹی یا جگن آپی کہنا چاہیے۔ مجھے اس میں برا نہیں بلکہ اچھا لگے گا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جگن کاظم نے

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد

اسرائیل کا ایران پر حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اسرائیل کی اعلانیہ پالیسی تھی کہ جب بھی ایران ایک خاص حد سے آگے اپنا نیوکلیئر پروگرام لے جائے گا تب اسرائیل اس پر اسٹرائک کرے گا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے جب یہ رپورٹ کیا کہ ایرانی پروگرام ریڈ لائین سے آگے چلا گیا ہے تو اس کے بعد حملہ ہونا دنوں کی بات تھی۔ حملے کے نتیجے میں اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسدران انقلاب سربراہ میجر جنرل حسین سلامی سمیت 6 جوہری سائنسدان بھی نشانہ بنے ہیں۔

درجنوں اسرائیلی طیاروں نے اس حملے میں حصہ لیا۔ یہ شام اور عراق کے راستے ایران پر حملہ آور ہوئے۔ دنیا نے اس حملے کی مذمت شروع کردی ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے اس حملے میں شامل نہیں ہیں۔ اگر ایران نے جوابی کارروائی کی تو ہم اس حملے کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔ اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم میزائل حملوں کو روکنے کے لیے خاصا موثر ہے۔

یہاں رک کر ہمیں دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ ایران پر حملوں کی نوبت آئی کیسے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملوں کا نتیجہ یہ نکلا کے حماس کی ساری ٹاپ قیادت ماری گئی۔ لبنان میں حزب اللہ کی قیادت بھی نشانہ بنی۔ شام میں ایران کی حمایتی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے ساتھ ایران کے پاکستان پر اسٹرائک اور پاکستانی جواب کو بھی جوڑ کر دیکھ لیں۔ ایران جو اپنی پراکسیوں کے ذریعے سب کو آگے لگائے پھر رہا تھا۔ اس کے باوجود ایران مخالف بلکہ دشمن بھی اس کے خلاف براہراست لڑائی سے گریز کر رہے تھے۔

پاکستان ایران کے خلاف کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنے گا، یہ ہماری طے شدہ پالیسی ہے۔ ہم برادر مسلمان ملکوں کے آپسی تنازعات سے دُور رہتے ہیں تو اس کے بعد سوال بنتا ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو افغانستان میں کیوں کود جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت ہم ادھر کھڑے ہوتے ہیں جدھر دنیا کھڑی ہوتی ہے۔

اگر مرشد کے الفاظ سے مدد لی جائے تو اسرائیلی پاکستان کو پاکستانیوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ہم سے کبھی کوئی ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ پنگا نہیں لیں گے۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ جتھے رولا ہوسی اوتھے ڈھولا ہوسی۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا جدھر کوئی پنگا ہوگا ادھر ہمارا کچھ چنگا ہی ہوگا۔ اگر آپ کو پنگا اور چنگا والی بات سمجھ نہیں آئی تو سرینڈر مودی جی کو دھیان میں لائیں اور دل میں ہی پوچھیں کہ مہاراج ہنڑ آرام اے؟

امریکی فوج کی 250 سالہ تقریبات 14 جون کو ہونی ہیں۔ اسی دن ڈونلڈ ٹرمپ کی سالگرہ بھی ہے۔ ان تقریبات میں صرف ایک مہمان خصوصی بلائے گئے ہیں، بھلا کون؟ فیلڈ مارشل عاصم منیر۔ پاکستان نے انڈیا کو جو چپیڑیں کرائی ہیں اس سے پہلے ہی ٹرمپ ہماری بلائیں لے رہا ہے۔ ہر ہفتے کشمیر پر ثالثی کرانا اور پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لینا نہیں بھولتا۔

یہ جو کام شروع ہوگیا ہے، اس میں قطار وہاں لگے گی جہاں ہم کھڑے ہوں گے۔ ہمارا جواب یہی ہوگا کہ ہم مصروف ہیں، لڑائیوں جنگوں سے پک چکے ہیں۔ پاکستان میں موجود شدت پسندوں دہشتگردوں کا شافی علاج کرنے پر یکسو ہیں۔ حکومت ترقیاتی کاموں پر کٹ لگا کر 20 فیصد دفاعی بجٹ بڑھا چکی ہے۔ اب دہشتگردی اور رنگ برنگ مسلح گروپوں کا علاج ہوگا۔

ازبکستان سے ریلوے ٹریک خرلاچی کرم ایجنسی سے پاکستان آنا ہے۔ ریکوڈک سے ریلوے ٹریک کراچی گوادر جانا ہے۔ ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں ہے کہ کسی اور طرف دیکھیں۔ پاکستان 4 دہائیوں سے مسلسل جنگ کا عملی تجربہ رکھنے اور اس کے نتائج بھگتنے والا ملک ہے۔ اب ہماری بس ہے اور مودی کی بھی ہم نے بس کرا دی ہے۔ جس کا جنگ کو جتنا دل کرتا کرلے اپنا شوق پورا کرے۔

سر جی نے جب پاکستان ہمیشہ زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا تو آپ کیا سمجھے تھے؟ اس کا مطلب تھا اب ہم کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنیں گے، ترقی پر فوکس کریں گے پڑھ لکھ کر بڑا انسان (ملک) بنیں گے، خوشیوں میں اپنا حصہ بڑھائیں گے۔ آپ کچھ اور سمجھے تھے تو غلط سمجھے تھے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب اسمبلی: ’میرے ساتھ نہ بگاڑیں‘، اسپیکر ملک احمد کی اپوزیشن کو وارننگ
  • ایران میں کتنے پاکستانی زائرین موجود ہیں؟ دفتر خارجہ نے بتادیا
  • ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد
  • تعوُّذات: تعارف، اہمیت، فوائد
  • فن، محبت اور غزل کا نام مہدی حسن کو بچھڑے 13 سال بیت گئے
  • ایٹمی ادارے نے قرارداد کیوں منظور کی
  • سب کو معلوم ہوگیا ہوگا شوہر کے فراڈ کیس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں: اداکارہ نادیہ حسین
  • سرخیوں کیلئے مجھے کال کریں! سکندر سے متعلق بیان پر عماد کی وضاحت
  • میراکسی قسم کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر
  • فیروز خان کا اپنے ساتھ کام سے انکار کرنے والی اداکاراؤں کے ساتھ کام نہ کرنے کا اعلان