اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نون کی حکومتوں کے دور میں ہمارے یہاں بہت سے ترقیاتی کام ہوتے رہے ہیں جن میں سب سے قابل ذکر موٹروے، بڑی بڑی شاہراہیں، نیو کلیئر ٹیسٹ اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر عمل درآمد مگر دیکھا جائے تو معیشت کو بہتر بنانے اور وطن عزیز کو ایک خود مختار اور خود انحصار ملک بنانے میں ابھی تک کوئی بڑا کا م دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
حکومت اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار کو ملک کی ترقی کا پیمانہ سمجھتی رہی ہے، جب کہ اسٹاک مارکیٹ کے بڑے بڑے ریکارڈوں سے عام آدمی کو نہ روزگار ملا کرتا ہے اور نہ غریب کا پیٹ بھرتا ہے، یہ چند بڑے مالداروں کا مشغلہ ہے جو جب چاہتے ہیں اسے بلندی پر لے جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں، مندی دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ غریب آدمی تو بیوقوف بن کر اپنا بچا کچا سرمایہ بھی اس میں لگا کر کنگال ہو جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کو تقریباً ڈیڑھ برس ہونے کو آیا ہے مگر عام آدمی کو باعزت روزگار فراہم کرنے کی سمت میں ابھی تک کوئی قابل قدر کام دکھائی نہیں دے رہا، جس زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو حکومت اپنی کارکردگی سمجھ رہی ہے وہ بھی مستعار لیے گئے کچھ دوست ممالک کے ڈالروں کی وجہ سے ہے، وہ اگر واپس کرنے پڑجائیں تو اس کامیابی کا سارا بھرم کھل جائے گا، خزانے میں صرف گیارہ ارب ڈالرز ہی رہ جائیں گے۔ اس کے برعکس ہم اگر اپنے پڑوسی ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن اس وقت 600 ار ب ڈالرز کے فارن ایکس چینج کا مالک بنا ہوا ہے، بنگلا دیش کو ہی لے لیجیے جس نے 1972 میں ہم اسے الگ ہوکر ایک علیحدہ مملکت بنالی تھی اورآج ہم سے بہت بہتر پوزیشن میں کھڑا ہے۔
اس کے بھی زرمبادلہ کے ذخائر چالیس ارب ڈالرز سے زیادہ ہی ہیں۔ افغانستان ہی کو لے لیجیے جس کے بہت قیمتی پچاس سال خانہ جنگی اور غیر ملکی مداخلت کی نذر ہوگئے مگر وہ اب خاموشی سے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے مراحل طے کررہا ہے، وہ ایک خود دار مملکت کے طور پر زندگی گزار رہا ہے اور چند ارب ڈالروں کے لیے کسی کے آگے منت و سماجت بھی نہیں کر رہا ہے۔ اُس پر کسی غیر ملک کا قرضہ بھی واجب الادا نہیں ہے، لہٰذا اسے ڈیفالٹ ہوجانے کا کسی خطرے کا سامنا بھی نہیں ہے۔
اس کے یہاں، بجلی اور توانائی کا کوئی بحران بھی نہیں ہے اور نہ اس کے عوام بھوک و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں بجلی اور گیس کی کوئی لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہے ، وہ اپنے شہروں کو آج اگر روشن کیے ہوئے ہیں تو اپنے وسائل اور کوششوں سے۔ آس پاس کے قریبی ممالک سے وہ اگر بجلی خرید رہے ہیں تو اس کی قیمت بھی ڈالروں میں ادا کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی وہاں بجلی ہمارے یہاں کے مقابلے میں بہت سستی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں حکومتی وزراء کے حالات عام آدمیوں جیسے ہیں۔ وہاں اشرافیہ جیسے کسی طبقے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جس طرز زندگی کو ہم قدامت پسند سمجھتے رہے، اسی قدامت پسند ملک کی کرکٹ ٹیم چند سالوں میں بڑے بڑے ملکوں کی ٹیموں کو شکست دے رہی ہے۔
صحت کے شعبے میں بھی اسے کسی غیرملکی امداد کی حاجت نہیں ہے ۔ عام آدمیوں کو صحت کی تمام سہولتیں اپنے ملک میں ہی دستیاب ہیں۔ وہاں کے ڈاکٹر ز بھی اب پوسٹ گریجویٹ کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کررہے ہیں۔ اس کا روپیہ ہمارے روپے کی نسبت بہت مستحکم ہے۔ وہاں پٹرول نہیں نکلتا لیکن درآمد کیا جانے والا پٹرول بھی اپنے لوگوں کو سستے داموں دستیاب ہے۔ انھوں نے پٹرول پر لیوی لگاکر اسے حکومتی آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا ہے۔
اس کے باوجود وہ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور حکومتی اخراجات بھی پورے کر رہے ہیں، وہ بڑی خاموشی سے ترقی کے منازل طے کررہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہ ترقی کرکے ہمارے مقابل کھڑے ہو جائیں گے ۔ انھوں نے اسٹاک مارکیٹ کو اپنی ترقی کا پیمانہ نہیں بنایا ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ وہاں اسٹاک مارکیٹ جیسے کسی کاروبار کا نام و نشان ہی نہیں ہے تو شاید غلط اور بے جا نہ ہوگا۔اس کے برعکس ہم ہر سال بارشوں اور سیلابوں کی تباہی سے دوچار ہوتے ہیں لیکن اس کے تدارک اور بچاؤ کے لیے کوئی کام نہیں کرتے۔ بلکہ اسے موقعہ غنیمت جان کر ساری دنیا میں امداد کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ CLIMATE CHANGE کے اثرات کا رونا روتے ہوئے کاسہ گدائی لے کر چالیس ارب ڈالرز کی ڈیمانڈ کرنے لگتے ہیں جیسے یہ سب انھی کا کیا دھرا ہے۔
دنیا ہمیں کب تک امداد دیتی رہے گی۔ ہم کب اپنے وسائل سے اِن قدرتی آفات سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو پائیں گے۔ دوسال قبل بھی سیلابی پانی نے ہمارے یہاں تباہی پھیلادی تھی مگر ہم نے اس سے نمٹنے کے لیے اِن دوسالوں میں کیا تدابیر اختیارکیں، اس کا جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس ابھی بھی نہیں ہے۔
بس پرانے مکانوں کے بدلے نئے مکانات بنا تو دیے ہیں لیکن اِنہیں سیلابوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہمارے یہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی مؤثر پلاننگ ہی نہیں ہے۔ اس بار پھر پنجاب اور گلگت بلتستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی ہے جس نے ہماری نام نہاد ترقی کا پول کھول کررکھ دیا ہے۔ ہم سارا سال اپنی فصلوں کے لیے پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں لیکن جب قدرت ہمیں یہ پانی بارشوں کی ذریعے فراہم کرتی ہے تو ہم اسے ذخیرہ بھی نہیں کرپاتے اور اسے ضایع کردیتے ہیں۔ ذرا سوچا جائے کہ اس دوران اگر بھارت بھی اپنا پانی ہماری جانب کھول دے تو پھرکیا حال ہوگا۔
ڈیموں کی مخالفت کرنے والوں کو اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ ہم نے اگر دیر کردی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیاں روک دیں تو پھر قحط اور خشک سالی سے ہمیں کوئی بچا نہیں پائے گا۔ہم نے اپنی ترقی اورخوشحالی کے پرفریب پیمانے بنا رکھے ہیں۔ دوسال سے حکومت اپنی اس ترقی کامیابی کے لیے اسٹاک مارکیٹ کا حوالہ دیتی ہے جب کہ اسے بھی معلوم ہے کہ یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیںہے۔ اِن کی اپنی پائیداری ہر وقت متزلزل اور غیر مستحکم رہتی ہے۔ اس پر بھروسہ کرکے ہم بڑے بڑے پروجیکٹ شروع نہیں کرسکتے ۔ اِن اعداد و شمار کی مدد سے توہم اپنے عوام کو روزگار بھی فراہم نہیں کرسکتے ۔
وزیراعظم صاحب نے اپنے اس دور اقتدار میں بے شمار غیرملکی دورے کیے اورہر دورے میں کئی کئی ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کے MOUسائن بھی کیے مگر ہمیں ابھی تک اِن MOU کی عملی شکل دکھائی نہیں دی۔ یہ سب کاغذوں پر ہی ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے۔ ہمارے یہاں نئے کارخانے تو کیا بنتے پہلے سے موجود فیکٹریاں اورکارخانے بھی بند ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی قدم بھی نہیں اُٹھایا ہے۔
فارن ایکس چینج بڑھانے کے لیے صرف تارکین وطن کی ترسیلات زر پر قناعت اور اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ ترقی کی نشاندہی کے لیے ہم صرف اسٹاک مارکیٹ اور ترسیلات زر دکھا کرخوش ہوجاتے ہیں، جب کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہے ۔ بھارت کی ایکسپورٹ ساری دنیا میں جگہ بنا چکی ہے جب کہ ہم اپنے برادر اسلامی ممالک میں بھی کوئی جگہ بنا نہیں پائے ہیں۔ وہاں کی منڈیوں میں بھی بھارت ہی چھایا ہوا ہے۔ خدارا، اپنی ترجیحات بدل کرحقیقی خوشحالی کے پیمانے سیٹ کریں، وگرنہ دیرکردی تو۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسٹاک مارکیٹ بھی نہیں ہے ہمارے یہاں ارب ڈالرز ہیں اور نہیں کر رہے ہیں ترقی کا کے لیے بھی نہ ا نہیں
پڑھیں:
پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-6
متین فکری
بظاہر سطح آب پر کوئی زیرو بم نظر نہیں آتا، حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ملکی حالات سے مطمئن مسلسل بیرونی دوروں میں مصروف ہیں اور سنا ہے کہ انہوں نے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں بڑی حوصلہ افزا باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن رزلٹ بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ناساز پا کر دھڑا دھڑا پاکستان چھوڑ رہی ہیں اور اب تک سترہ بڑی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور معیشت ترقی کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ شہباز شریف ہر بات مقتدرہ سے پوچھ کر کرتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے امریکا سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکا مخالف حکومت کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر وہ حکومت سیدھے طریقے سے رخصت نہ ہو تو وہ پاکستانی حکمران کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسا کہ اس نے لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق کے معاملے میں کیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے رخصت ہوگئے اور انہیں جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔
بات لمبی ہوگئی ہم پھر اپنے اصل موضوع یعنی پاکستانی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں پختون خوا کی سیاست نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس صوبے کی سیاست پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی قطعی اکثریت ہے اس لیے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبے میں اس کی حکومت چلی آرہی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فارم 47 کا جادو ایسا چلا کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں صرف سترہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن فارم 47 کے بَل پردہ اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور وفاق میں اقتدار اسے مل گیا۔ یہی معاملہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں بھی فارم 47 کے طفیل اکثریت حاصل کرلی اور مریم نواز ہار کر بھی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ سندھ کو سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا گیا، بلوچستان میں بھی ملا جلا معاملہ رہا۔ البتہ پختون خوا میں فارم 47 کا جادو نہ چل سکا۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہی کامیاب قرار پایا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھی اور حکومت بھی اس کی قائم رہی۔ واضح رہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان تو جیل میں تھے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں معرکہ سر کرلیا۔ نئی حکومت علی امین گنڈا پور کی قیادت میں تشکیل دی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان سے معاملات طے کرلیے اور گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور عمران خان نے محسوس کیا کہ اب گنڈاپور کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے گنڈا پور سے استعفا طلب کرلیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنسوں میں بالعموم یہ بات شدت سے باور کراتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی صحافی کوئی سیاسی سوال کر بیٹھے تو وہ ’’نو پالیٹکس‘‘ کہہ کر اس کا جواب دینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن جب خیبر پختون خوا میں گنڈاپور کے استعفے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر فوراً پشاور پہنچے اور وہاں ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خیبر پختون خوا میں کوئی مخالف حکومت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شاید یہ بھی فوج کو سیات سے دور رکھنے کی قابل تحسین کاوش تھی۔ الیکشن کمیشن تو ہمیشہ مقتدرہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی اس نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ارکان پی ٹی آئی سے ان کی سیاسی شناخت چھین کر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا۔ اس طرح انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کی منڈی میں زبردستی دھکیل دیا گیا اور حکومت کا دھندا کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ منڈی میں مال موجود ہے جو چاہے خریدے۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی خیبر پختون خوا میں وزارتِ علیہ کے اُمیدوار تھے اور اپنے بھائی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بیس ووٹ خرید کر دے دے تا کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ ان کے تعلقات ہمیشہ اُتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں لیکن آخری مرحلے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی جیتتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ہمیشہ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت اچھا موقع تھا وہ مولانا فضل الرحمن کو بیس ووٹ دے کر اپنا ممنونِ احسان بنا سکتی تھی۔ اگر پنجاب ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیس کیا سو پچاس ووٹ بھی حاصل کرنا دشوار نہ تھا لیکن خیبر پختون خوا کا معاملہ مختلف ہے یہاں جو ووٹ خریدتا اس کی جان کے لالے پڑجاتے اس لیے ووٹوں کی خریدو فروخت کی کوشش ناکام رہی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کثرت رائے سے پختون خوا کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ شکر ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔
اب سنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے الیکشن کمیشن بہت ڈھیٹ ہے ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست منظور کرلے اور سہیل آفریدی کو نااہل قرار دے دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی اکثریت برقرار ہے وہ نیا وزیراعلیٰ لے آئے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کرنا۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، فوج کے لیے سیاست شجر ممنوع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بڑے دبنگ فیصلے کررہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی درخواست دی تھی عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاسی معاملہ تھا اس لیے وزیراعلیٰ کی اپنے قائد سے ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ اسے ملاقات میں کوئی حرج نہ تھا جس کمرے میں ملاقات کرائی جاتی اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلات نصب ہیں پھر ڈر کس بات کا تھا۔ یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا مخالف سیاستدان سب اس کام میں بہت ماہر ہیں۔