Express News:
2025-09-17@23:32:53 GMT

ملک کی خوشحالی کے پیمانے

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نون کی حکومتوں کے دور میں ہمارے یہاں بہت سے ترقیاتی کام ہوتے رہے ہیں جن میں سب سے قابل ذکر موٹروے، بڑی بڑی شاہراہیں، نیو کلیئر ٹیسٹ اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر عمل درآمد مگر دیکھا جائے تو معیشت کو بہتر بنانے اور وطن عزیز کو ایک خود مختار اور خود انحصار ملک بنانے میں ابھی تک کوئی بڑا کا م دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

حکومت اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار کو ملک کی ترقی کا پیمانہ سمجھتی رہی ہے، جب کہ اسٹاک مارکیٹ کے بڑے بڑے ریکارڈوں سے عام آدمی کو نہ روزگار ملا کرتا ہے اور نہ غریب کا پیٹ بھرتا ہے، یہ چند بڑے مالداروں کا مشغلہ ہے جو جب چاہتے ہیں اسے بلندی پر لے جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں، مندی دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ غریب آدمی تو بیوقوف بن کر اپنا بچا کچا سرمایہ بھی اس میں لگا کر کنگال ہو جاتا ہے۔

موجودہ حکومت کو تقریباً ڈیڑھ برس ہونے کو آیا ہے مگر عام آدمی کو باعزت روزگار فراہم کرنے کی سمت میں ابھی تک کوئی قابل قدر کام دکھائی نہیں دے رہا، جس زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو حکومت اپنی کارکردگی سمجھ رہی ہے وہ بھی مستعار لیے گئے کچھ دوست ممالک کے ڈالروں کی وجہ سے ہے، وہ اگر واپس کرنے پڑجائیں تو اس کامیابی کا سارا بھرم کھل جائے گا، خزانے میں صرف گیارہ ارب ڈالرز ہی رہ جائیں گے۔ اس کے برعکس ہم اگر اپنے پڑوسی ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن اس وقت 600 ار ب ڈالرز کے فارن ایکس چینج کا مالک بنا ہوا ہے، بنگلا دیش کو ہی لے لیجیے جس نے 1972 میں ہم اسے الگ ہوکر ایک علیحدہ مملکت بنالی تھی اورآج ہم سے بہت بہتر پوزیشن میں کھڑا ہے۔

اس کے بھی زرمبادلہ کے ذخائر چالیس ارب ڈالرز سے زیادہ ہی ہیں۔ افغانستان ہی کو لے لیجیے جس کے بہت قیمتی پچاس سال خانہ جنگی اور غیر ملکی مداخلت کی نذر ہوگئے مگر وہ اب خاموشی سے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے مراحل طے کررہا ہے، وہ ایک خود دار مملکت کے طور پر زندگی گزار رہا ہے اور چند ارب ڈالروں کے لیے کسی کے آگے منت و سماجت بھی نہیں کر رہا ہے۔ اُس پر کسی غیر ملک کا قرضہ بھی واجب الادا نہیں ہے، لہٰذا اسے ڈیفالٹ ہوجانے کا کسی خطرے کا سامنا بھی نہیں ہے۔

اس کے یہاں، بجلی اور توانائی کا کوئی بحران بھی نہیں ہے اور نہ اس کے عوام بھوک و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں بجلی اور گیس کی کوئی لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہے ، وہ اپنے شہروں کو آج اگر روشن کیے ہوئے ہیں تو اپنے وسائل اور کوششوں سے۔ آس پاس کے قریبی ممالک سے وہ اگر بجلی خرید رہے ہیں تو اس کی قیمت بھی ڈالروں میں ادا کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی وہاں بجلی ہمارے یہاں کے مقابلے میں بہت سستی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں حکومتی وزراء کے حالات عام آدمیوں جیسے ہیں۔ وہاں اشرافیہ جیسے کسی طبقے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جس طرز زندگی کو ہم قدامت پسند سمجھتے رہے، اسی قدامت پسند ملک کی کرکٹ ٹیم چند سالوں میں بڑے بڑے ملکوں کی ٹیموں کو شکست دے رہی ہے۔

صحت کے شعبے میں بھی اسے کسی غیرملکی امداد کی حاجت نہیں ہے ۔ عام آدمیوں کو صحت کی تمام سہولتیں اپنے ملک میں ہی دستیاب ہیں۔ وہاں کے ڈاکٹر ز بھی اب پوسٹ گریجویٹ کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کررہے ہیں۔ اس کا روپیہ ہمارے روپے کی نسبت بہت مستحکم ہے۔ وہاں پٹرول نہیں نکلتا لیکن درآمد کیا جانے والا پٹرول بھی اپنے لوگوں کو سستے داموں دستیاب ہے۔ انھوں نے پٹرول پر لیوی لگاکر اسے حکومتی آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا ہے۔

اس کے باوجود وہ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور حکومتی اخراجات بھی پورے کر رہے ہیں، وہ بڑی خاموشی سے ترقی کے منازل طے کررہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہ ترقی کرکے ہمارے مقابل کھڑے ہو جائیں گے ۔ انھوں نے اسٹاک مارکیٹ کو اپنی ترقی کا پیمانہ نہیں بنایا ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ وہاں اسٹاک مارکیٹ جیسے کسی کاروبار کا نام و نشان ہی نہیں ہے تو شاید غلط اور بے جا نہ ہوگا۔اس کے برعکس ہم ہر سال بارشوں اور سیلابوں کی تباہی سے دوچار ہوتے ہیں لیکن اس کے تدارک اور بچاؤ کے لیے کوئی کام نہیں کرتے۔ بلکہ اسے موقعہ غنیمت جان کر ساری دنیا میں امداد کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ CLIMATE CHANGE کے اثرات کا رونا روتے ہوئے کاسہ گدائی لے کر چالیس ارب ڈالرز کی ڈیمانڈ کرنے لگتے ہیں جیسے یہ سب انھی کا کیا دھرا ہے۔

دنیا ہمیں کب تک امداد دیتی رہے گی۔ ہم کب اپنے وسائل سے اِن قدرتی آفات سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو پائیں گے۔ دوسال قبل بھی سیلابی پانی نے ہمارے یہاں تباہی پھیلادی تھی مگر ہم نے اس سے نمٹنے کے لیے اِن دوسالوں میں کیا تدابیر اختیارکیں، اس کا جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس ابھی بھی نہیں ہے۔

بس پرانے مکانوں کے بدلے نئے مکانات بنا تو دیے ہیں لیکن اِنہیں سیلابوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہمارے یہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی مؤثر پلاننگ ہی نہیں ہے۔ اس بار پھر پنجاب اور گلگت بلتستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی ہے جس نے ہماری نام نہاد ترقی کا پول کھول کررکھ دیا ہے۔ ہم سارا سال اپنی فصلوں کے لیے پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں لیکن جب قدرت ہمیں یہ پانی بارشوں کی ذریعے فراہم کرتی ہے تو ہم اسے ذخیرہ بھی نہیں کرپاتے اور اسے ضایع کردیتے ہیں۔ ذرا سوچا جائے کہ اس دوران اگر بھارت بھی اپنا پانی ہماری جانب کھول دے تو پھرکیا حال ہوگا۔

ڈیموں کی مخالفت کرنے والوں کو اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ ہم نے اگر دیر کردی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیاں روک دیں تو پھر قحط اور خشک سالی سے ہمیں کوئی بچا نہیں پائے گا۔ہم نے اپنی ترقی اورخوشحالی کے پرفریب پیمانے بنا رکھے ہیں۔ دوسال سے حکومت اپنی اس ترقی کامیابی کے لیے اسٹاک مارکیٹ کا حوالہ دیتی ہے جب کہ اسے بھی معلوم ہے کہ یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیںہے۔ اِن کی اپنی پائیداری ہر وقت متزلزل اور غیر مستحکم رہتی ہے۔ اس پر بھروسہ کرکے ہم بڑے بڑے پروجیکٹ شروع نہیں کرسکتے ۔ اِن اعداد و شمار کی مدد سے توہم اپنے عوام کو روزگار بھی فراہم نہیں کرسکتے ۔

 وزیراعظم صاحب نے اپنے اس دور اقتدار میں بے شمار غیرملکی دورے کیے اورہر دورے میں کئی کئی ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کے MOUسائن بھی کیے مگر ہمیں ابھی تک اِن MOU کی عملی شکل دکھائی نہیں دی۔ یہ سب کاغذوں پر ہی ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے۔ ہمارے یہاں نئے کارخانے تو کیا بنتے پہلے سے موجود فیکٹریاں اورکارخانے بھی بند ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی قدم بھی نہیں اُٹھایا ہے۔

فارن ایکس چینج بڑھانے کے لیے صرف تارکین وطن کی ترسیلات زر پر قناعت اور اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ ترقی کی نشاندہی کے لیے ہم صرف اسٹاک مارکیٹ اور ترسیلات زر دکھا کرخوش ہوجاتے ہیں، جب کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہے ۔ بھارت کی ایکسپورٹ ساری دنیا میں جگہ بنا چکی ہے جب کہ ہم اپنے برادر اسلامی ممالک میں بھی کوئی جگہ بنا نہیں پائے ہیں۔ وہاں کی منڈیوں میں بھی بھارت ہی چھایا ہوا ہے۔ خدارا، اپنی ترجیحات بدل کرحقیقی خوشحالی کے پیمانے سیٹ کریں، وگرنہ دیرکردی تو۔

 تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسٹاک مارکیٹ بھی نہیں ہے ہمارے یہاں ارب ڈالرز ہیں اور نہیں کر رہے ہیں ترقی کا کے لیے بھی نہ ا نہیں

پڑھیں:

بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن

DUBAI:

’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘

جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز  ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔ 

تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور  ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔ 

بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔ 

چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو  انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔ 

اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔ 

اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔ 

پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔ 

پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔ 

شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟

کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔ 

ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ 

جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے  سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔ 

ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم  ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔ 

اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟

ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟

آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔ 

فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔

بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔

یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت  نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • گوگل نے 200 ملازمین کو فارغ کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی وجہ کیا بنی؟
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • پنجاب میں گرانفروشی کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن، 12 ہزار سے زائد دکانداروں کو جرمانے
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
  • یہ وہ لاہور نہیں