قید تنہائی کیاہے، عمران خان کو جیل میں کوئی ساتھی دیدیں جو ان کے ساتھ سیل میں رہے؟ خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیر دفاع خواجہ آصف کی ایک ویڈیو شل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ عمران خان کی جانب قید تنہائی میں رکھنے کے الزام پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ قید تنہائی کیا ہوتی ہے ، ان کو کوئی ساتھی دیدیں جو ان کے ساتھ سیل میں رہے ؟۔
تفصیلات کے مطابق خواجہ آصف کا کہناتھا کہ جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں ان کی فرسٹریشن اور بڑھے گی ، جو عمران خان زبان استعمال کرتے ہیں وہ کبھی کسی نے نہیں کی ، جو انہوں نے اپنے دور حکومت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا ہے وہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے ، قید تنہائی کیا ہوتی ہے ، ان کو کوئی ساتھی دیں جو ان کے ساتھ سیل میں رہے ؟جیل میں تو بندہ نتہا ہی ہوتا ہے ، میں نے بھی چھ مہینے جیل میں گزارے ہیں ، میں بھی اکیلا تھا، آپ کے ساتھ مشقتی ہوتاہے سارا دن ، صبح آپ کو فجر کے وقت کھولتے ہیں اور شام کو مغرب کے وقت بند کر دیتے ہیں ، ایسی شخصیات کو عام قیدیوں کے ساتھ بات نہیں کرنے دیتے ، عام طور پر اکیلے ہی ہوتے ہیں، مجھے اٹک فورٹ میں رکھا گیا تھا ، مجھے چھ بائی چار سیل کے اندر رکھا گیا تھا ،وہ قید تنہائی بھگتیں تو پھر ان کو پتا لگے گا کہ قید تنہائی ہوتی کیا ہے، انہیں ساری سہولیات ملی ہوئی ہیں ،وہ خود بتا دیں کہ ان کی قید تنہائی کا کیا علاج کیا جائے ۔
سعودی عرب کا فلسطینی ریاست بننے تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کرنے کا اعلان
عمران خان کو ساری سہولیات ملی ہوئی ہیں،اب ہم ان کی تنہائی کا کیا علاج کریں؟وزیردفاع خواجہ آصف????????????
قیدتنہائی کیا؟ان کوکوئی ساتھی دیں جو ان کےساتھ سیل میں رہے؟جیل میں توبندہ اپنے سیل میں تنہاہی ہوتا ہے،مجھے اٹک قلعہ میں چھ بائی چار کےسیل میں رکھاگیاتھا،خواجہ آصف@KhawajaMAsif pic.
مزید :
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ساتھ سیل میں رہے قید تنہائی تنہائی کیا جو ان کے جیل میں کے ساتھ
پڑھیں:
اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
بیت المقدس(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے اور اسے آنے والے سالوں میں مزید خود انحصار بننا پڑے گا” ٹائمز آف اسرائیل“ کے مطابق بیت المقدس میں اسرائیلی وزارت خزانہ کے اکاﺅنٹنٹ جنرل کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نتن یاہو نے تسلیم کیا کہ اسرائیل ایک طرح سے تنہائی کا شکار ہے.(جاری ہے)
نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ پر حملوں کے بعد سے اسرائیل کو دو نئے خطرات کا سامنا ہے جن میں مسلم اکثریتی ممالک سے ہجرت کے نتیجے میں یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اسرائیل کے مخالفین کا اثر و رسوخ میں اضافہ شامل ہیں ان کے خیال میں یہ چیلنجز طویل عرصے سے کار فرما تھے، لیکن سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملوں سے شروع ہونے والی جاری جنگ کے دوران سامنے آئے. نتن یاہو نے یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لامحدود ہجرت کے نتیجے میں مسلمان ایک اہم اقلیت اورپر اثر آواز رکھنے والے بہت زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے والے بن گئے ہیں. انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ممالک کے مسلمان شہری یورپی حکومتوں پر اسرائیل مخالف پالیسیاں اپنانے کے لیے دباﺅ ڈال رہے ہیں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ مسلمانوں کا مرکز غزہ نہیں بلکہ یہ عام طور پر صہیونیت کی مخالفت کر رہے ہیں اور بعض اوقات ایک اسلام پسند ایجنڈا ہے جو ان ریاستوں کو چیلنج کرتا ہے . ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل پر پابندیاں اور ہر طرح کی پابندیاں پیدا کر رہا ہے یہ ہو رہا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو گذشتہ 30 سالوں سے کام کر رہا ہے اور خاص طور پر پچھلی دہائی میں اور اس سے اسرائیل کی بین الاقوامی صورتحال بدل رہی ہے. ‘نتن یاہو نے متنبہ کیا کہ صورت حال ہتھیاروں پر پابندیوں کا باعث بن سکتی ہے حالانکہ یہ ابھی کے لیے صرف خدشات ہیں، معاشی پابندیوں کا آغاز بھی ہو سکتا ہے نتن یاہو کے مطابق دوسرا چیلنج اسرائیل کے حریفوں، جن میں این جی اوز اور قطر اور چین جیسی ریاستوں کی سرمایہ کاری ہے انہوں نے کہا کہ بوٹس، مصنوعی ذہانت اور اشتہارات کا استعمال کرتے ہوئے مغربی میڈیا کو اسرائیل مخالف ایجنڈے سے متاثر کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں انہوں نے ٹک ٹاک کی مثال دی. یادرہے کہ سات ستمبر 2023 سے غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے دوران اسرائیل فلسطینی علاقے کے کئی حصوں پر فضائی اور زمینی حملے کر چکا ہے، جن میں 64 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے محاصرے کی وجہ سے وہاں جلد ہی قحط جیسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے بعض یورپی ممالک نے نہ صرف تل ابیب کے حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے.