Express News:
2025-07-29@05:16:03 GMT

’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

ماضی کے جھروکوں سے جھانکوں تو خوش گوار یادوں کی ٹھنڈی ہوائیں میرے ذہن و دل کو معطر کر دیتی ہیں۔ گھروں کے درمیان  دیواریں بھی مشترکہ ہوا کرتی تھیں،دلوںمیں محبتوں کا اٹوٹ بندھن تھا۔

نہ فون، نہ موبائل، نہ ہی جدید ذرائع آمدورفت، مگر پھر بھی سب کی خبر گیری ہوا کرتی تھی۔ گھر میں جو پکتا پڑوس میں بھیجا جاتا۔ شام کے وقت خواتین بچوں کے ہمراہ پاس پڑوس، محلے میں یا رشتے داروں سے ملنے جاتیں۔ شام کی چائے ساتھ پی جاتی۔ عمر رسیدہ یا بیمار خواتین تو خاص انتظار کرتیں کہ ابھی فلاں آئے گی۔

سادگی کا دور تھا۔ بنا بتائے کسی کے گھر چلے جائیں تو وہ خوشی سے استقبال کرتے۔ گھر میں جو طعام میسر ہوتا اس سے مہمان کی خاطر کی جاتی۔ انواع و اقسام کے پکوان نہیں ہوتے تھے، سادہ سا کھانا ہوتا، لیکن بہت محبت و خلوص سے دسترخوان بچھادیا جاتا تھا اور مہمان بھی خوش ہوتے۔ کتنی ہی دیر ایک دوسرے سے دل کا حال بیان کیا جاتا۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہوتا تو سبھی اس کے حل کے لیے کوشاں رہتے۔ کوئی بیوہ یا تنہا خاتون بزرگ ہوتی تو رشتے دار اپنے گھر لے آتے۔ ان کی خدمت کرتے۔ گھر کے بچوں کو خاص تاکید کی جاتی کہ یہ گھر کی بڑی بزرگ ہیں.

 ان سے باتیں کرو۔ ان کا خیال رکھو، ان کی خدمت کرو۔ اس طرح وہ تنہائی یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتیں۔ جو خواتین تنہا رہتیں، محلے دار بھی ان کی خبر گیری رکھتے۔ آتے جاتے محلے کی خواتین حال پوچھتی رہتیں۔ ’’خالہ جی طبیعت کیسی ہے ؟ کچھ منگوانا ہے، تو بتا دیجیے، میں سودا لینے جارہی ہوں، آپ کی دوا بھی لے آؤں گی۔ آج میں نے آپ کے لیے یخنی بنائی ہے اور آپ کی پسند کا کسٹرڈ بھی بنایا ہے۔ ابھی لاتی ہوں‘ یہ احساس اور بے لوث خلوص کے انداز دل کو محبت سے سرشار کر دیا کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی مصروف ہوتی چلی گئی۔ رابطے کم ہونے لگے اور فاصلے بڑھنے لگے۔  نئے دور کے جدید اندازِ روابط آگئے۔

دن بہ دن زندگی مصروف ہوتی چلی گئی اور فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ ان فاصلوں نے تنہائی کو جنم دیا۔ جہاں تنہائی کا شکار منتظر نگاہیں دروازے کی سمت دیکھتی ہیں کہ کب دستک ہو۔ کبھی میرے اپنے میرے پیارے، میرے عزیز کوئی حال چال پوچھنے آجائے۔ بہنوں جیسی پڑوسن کوئی تو آئے کہ کچھ دیر بیٹھ کر دل کی بات کروں۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہوگی، لیکن بیماری نے کہیں آنے جانے کی سکت ختم کر دی ہوگی۔ فون کرو، تو ہر ایک مصروف۔۔۔۔ ’’میں مصروف ہوں کچھ دیر میں آپ کو کال کرتی ہوں‘‘  اور پھر سماعتیں فون کی منتظر ہی رہ جاتی ہیں۔ اپنے گردوپیش کے سکوت اور سناٹے سے تنگ آکر جانے کیا کیا جتن کرتی ہوں گی۔ یہی کیفیت کچھ وقت میں ڈپریشن کو جنم دیتی ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، تو کئی ایسی خواتین نظر آئیں گی۔ جو ہماری توجہ اور ہمارے وقت کی منتظر ہیں۔ کئی مائیں بھی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بیٹی کو بیاہ دیا ہو، اولاد بیرون ملک مقیم ہوں وغیرہ۔ گو کہ ماؤں کو جدید موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ کے تحفے دے دیے کہ ’’امی فکر کیوں کرتی ہیں۔ میں آپ کو روز ’میسیج‘ کر دیا کروں گا‘‘ مائیں یہ سوچتی رہ جاتی ہیں۔ کہ ان جدید روابط کے آلات نے بظاہر رابطوں کو آسان بنادیا ہے، لیکن ان برقی پیغامات سے احساس و خلوص کے جذبات اور محبت کی مہک نہیں آتی۔

 یہ تنہائی اور یہ صورت حال دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ تنہا بزرگوں/ خواتین کا خیال رکھنا من حیث القوم، ہم سب کی ذمے داری ہے۔   اپنے روزمرہ کے مصروف معمولات میں سے سماجی روابط کی ویب سائٹس کو دیے جانے والا کچھ وقت آج سے اپنوں کے نام کر دیں۔ پڑوسی، والدین، بہن بھائی، عزیز اقربا، سہیلیاں۔ سب کی خبرگیری کرتی رہیں۔ سب سے رابطے میں رہیں۔ ہم اکثر ایک بات سنتے رہتے ہیں کہ فلاں نے مجھے کال نہیں کی تو میں کیوں کروں؟ وہ مجھ سے ملنے نہیں آئی، تو میں کیوں ملنے جاؤں؟

ان گِلے شکوؤں کو چھوڑ دیجیے۔ زندگی بہت مختصر ہے، اِسے محبتوں کے ساتھ بسر کیجیے۔ کیا خبر کسی کے خبر گیری کے لمحات اس کی زندگی کے آخری لمحات ہوں۔ شاید کوئی آپ کے کچھ دیر بات کرنے سے اپنے درد کو غم کو بھلا کر خوش باش ہوجائے اور اس کے دل سے آپ کے لیے دعا نکلے، جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔

اکثر اوقات تنہائی یا بڑھاپے کا شکار افراد چڑچڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا کبھی کسی کی کوئی بات بری لگے، تو اِسے دل میں لے کر نہ بیٹھا کیجیے، بلکہ درگزر کیا کیجیے۔  یہ سوچیے کہ ہوسکتا ہے وہ پریشان یا بیمار ہوں ، اپنی ذات میں کوئی جنگ لڑرہی ہوں۔ اس لیے ایسا کیا ہوگا۔ یہ اچھا گُمان اور مثبت سوچ آپ کی شخصیت میں بھی نکھار پیدا کردے گی۔

اسی طرح اکثر بزرگوں سے ملنے یا بات کرنے سے لوگ گھبراتے ہیں کہ بھئی یہ بڑی عمر کے افراد بہت باتیں کرتے ہیں۔ کئی بار سنائے ہوئے ماضی کے قصے بھی دوبارہ سنانے لگتے ہیں۔ ان کا حال چال پوچھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی خبر گیری کا آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ان کو پہلے سے مطلع کردیں۔ آنٹی مجھے سات بجے روٹیاں پکانی ہیں۔ لہٰذا تب تک میں اور آپ گپ شپ کرتے ہیں۔

گپ شپ کے دوران ان کے کھانے پینے دوا وغیرہ کا ضرور معلوم کرلیں۔ ان کے لیے کچھ کھانے کے لیے لے جائیں۔ کوئی خاص پکوان پکائیں تو تھوڑا ان کو بھی دینے چلی جائیں ۔ اس طرح بھی ان کی خیریت پتا چلتی رہے گی۔ اسی طرح کبھی اپنے گھر مدعو کرلیں۔ آتے جاتے گھر کی گھنٹی بجا کر پوچھتی رہیں۔ ’’آپ کیسی ہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں!‘‘

ایسے تمام رشتے جن سے روزانہ ملاقات ممکن نہیں، مگر ان کی سماعتیں و بصارتیں آپ کی منتظر رہتی ہیں۔ ان سے روزانہ کم از کم ویڈیو کال پر ضرور بات کریں۔ فاصلے کیسے بھی ہوں۔ ویڈیو کال لمحوں میں فاصلوں کو مٹا دیتی ہے۔ احساسات و جذبات، محبت و خلوص نگاہوں کے ذریعے دل میں اترتا ہوا محسوس ہوگا۔ زندگی کی مصروف معمولات کبھی ختم نہیں ہوں گے، لیکن ’مہلتِ حیات‘ مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسلتی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس وقت میں سے ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے لیے وقت کشید کرنا پڑے گا۔ کسی کی دل جوئی، خدمت، خبر گیری کے بدلے دعاؤں کا سرمایہ جمع کرنا ہوگا کہ روز محشر سرخرو ہوسکیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خبر گیری کا شکار کی خبر

پڑھیں:

شہر قائد میں آئندہ ایک ہفتے تک تیز بارش کا کوئی امکان نہیں

محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ شہر قائد میں آئندہ ایک ہفتے تک تیز بارش کا کوئی امکان نہیں ہے۔محکمہ موسمیات نے بتایا کہ کراچی میں بادلوں کا بسیرا ہے اور سمندری ہوائیں 18 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں لیکن آئندہ ایک ہفتے تک تیز بارش کا کوئی امکان نہیں۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں صبح اور رات کے اوقات میں بوندا باندی کا امکان ہے، آئندہ چند روز مطلع ابر آلود رہنے کے ساتھ موسم مرطوب رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کی خوشحالی کے پیمانے
  • غزہ کا انسانی المیہ اور اقوام عالم کی بے حسی
  • سوال مت پوچھیے!
  • یہ عامل اور جادوگر
  • شہر قائد میں آئندہ ایک ہفتے تک تیز بارش کا کوئی امکان نہیں
  • چُن چُن کر سزائیں دی جا رہی ہیں، کوئی تو ہے جو خوفزدہ ہے، علیمہ خان
  • سینئر اداکار عاصم بخاری کو دل کا دورہ پڑگیا، اب حالت کیسی ہے؟ 
  • بانی پی ٹی آئی چندے کے لیے میرے پاس آتے تھے، اسحاق ڈار
  • کیا جنرل فیض نو مئی کے ٹرائل کا سامنا کرینگے؟