Express News:
2025-07-29@04:45:50 GMT

غزہ کا انسانی المیہ اور اقوام عالم کی بے حسی

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

عالمی سطح پر شدید دباؤ، تنقید اور قحط سے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی کے تین علاقوں غزہ سٹی، دیر البلاح اور المواسی میں روزانہ دس گھنٹے کے لیے حملے روکنے کا اعلان کیا ہے۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کے قریب ہیں۔ آسان حل یہ ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے تو جنگ ختم ہوجائے گی، جب کہ برطانیہ کی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 221 اراکین پارلیمنٹ نے وزیر ِاعظم کیئر اسٹارمر کو ایک مشترکہ خط لکھا ہے، جس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا ہے۔

غزہ ایک بار پھر تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔ قحط، غذائی قلت، ادویات کی عدم دستیابی اور لگا تار بمباریوں نے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے۔ بیماروں کے پاس دوا نہیں، بچوں کے پاس خوراک نہیں اور معصوم شہریوں کے پاس تحفظ نہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی یا عسکری تنازع نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، ایسا المیہ جس پر اقوام عالم کا ضمیر اب تک بیدار نہ ہو سکا۔ اقوام متحدہ کے ادارے، عالمی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے محافظ مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال ایک ناقابلِ تصور المیے کی شکل اختیار کر لے گی۔ ہزاروں بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہیں، جب کہ مریض اور بزرگ موت کے دہانے پرکھڑے ہیں۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا صرف بیانات اور علامتی اعلانات پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔

حالیہ عالمی دباؤ اور تنقید کے باعث اسرائیل نے غزہ سٹی، دیر البلح اور المواسی میں روزانہ دس گھنٹے کے لیے فوجی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا ہے۔ بظاہر یہ ایک رعایت لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ قحط سے مرتے ہوئے انسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ دس گھنٹے کے ’’ وقفے‘‘ میں نہ زندگی کی رونقیں واپس آ سکتی ہیں، نہ ملبے سے انسانوں کو نکالا جا سکتا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے درست نشاندہی کی کہ اسرائیلی اعلان ’’ بہت کم اور بہت دیر سے‘‘ ہے۔ یہ اقدام نہ صرف ناکافی ہے بلکہ غزہ کے عوام کی اذیت ناک حالت کا مذاق بھی معلوم ہوتا ہے۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف جولائی کے مہینے میں غذائی قلت سے 63 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر بچے تھے۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسیف بار بار خبردار کر چکے ہیں کہ امدادی سامان کی ترسیل میں رکاوٹیں، مقامی پیداوار کی تباہی اور غیر محفوظ حالات کی وجہ سے غزہ کے باسی قحط کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک انسان ساختہ آفت ہے، جو محض خوراک کی قلت نہیں بلکہ منظم محاصرے، سیاسی ہٹ دھرمی اور عالمی بے حسی کا نتیجہ ہے۔

 غزہ کی زمین جو پہلے ہی محدود اور محصور تھی، اب اس پر نہ کوئی محفوظ جگہ بچی ہے، نہ کوئی چھت۔ اسکولوں پر بمباری ہوئی، اسپتالوں پر میزائل داغے گئے، مساجد بھی محفوظ نہ رہیں حتیٰ کہ جنازے تک نشانہ بنائے گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 16 لاکھ سے زائد افراد اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ انسانی راہداریوں پر حملے کر کے اسرائیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس جنگ کا مقصد محض عسکری کامیابی نہیں، بلکہ پورے فلسطینی وجود کو مٹانا ہے۔

 عالمی ادارہ خوراک کے مطابق 95 فیصد خاندان فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ صاف پانی نہ ہونے کے باعث ہیضہ، اسہال، گردوں کی بیماریاں، جلدی انفیکشن اور دیگر وبائیں عام ہو چکی ہیں۔ انسانوں کو دفن کرنے کے لیے زمین کم پڑ گئی ہے۔ اجتماعی قبریں کھودی جا رہی ہیں جن میں بچوں، عورتوں اور مردوں کو ایک ساتھ دفن کیا جا رہا ہے۔ میتوں کی شناخت تک ممکن نہیں رہی۔

 فلسطین کا المیہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن اس بار کی شدت اور ہولناکی ایسی ہے کہ ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ سب نے زبانی مذمت ضرور کی، لیکن کوئی بھی ملک عملی اقدام کی طرف نہیں آیا۔ اسرائیل کے ساتھ تجارت بند نہیں ہوئی، سفیروں کو واپس نہیں بلایا گیا، چند اجلاس ہوئے، کچھ قراردادیں آئیں، لیکن فلسطینی عوام کی حالت پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا کردار بھی اس بحران میں مکمل ناکام نظر آتا ہے۔

اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کے اسکولوں کو نشانہ بنایا، میڈیا کے نمایندوں کو قتل کیا، اور حتیٰ کہ امدادی قافلوں پر حملے کیے۔ ورلڈ سینٹرل کچن، عالمی ادارہ صحت، ریڈ کراس سب کے کارکن شہید ہو چکے ہیں، لیکن کسی بھی بڑے عالمی فورم نے اسرائیل پر پابندی عائد نہیں کی، نہ اسے کسی تحقیقاتی کمیشن کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکا کی حمایت اسرائیل کے لیے آکسیجن بن چکی ہے۔ 14 ارب ڈالر کی نئی فوجی امداد، سلامتی کونسل میں ہر قرارداد کا ویٹو، اور اسرائیل کے ’’دفاعی حق‘‘ کی مسلسل گردان، یہ سب اس قتل عام کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہیں۔ امریکی صدر، وزیر خارجہ اور کانگریس سب ایک ہی بیانیے پر متفق ہیں کہ اسرائیل کو حق حاصل ہے، لیکن فلسطینیوں کا کوئی حق نظر نہیں آتا۔

 غزہ میں ہونے والی انسانی نسل کشی کا ذمے دار صرف اسرائیل اور اس کا وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو ہے تو غلط ہوگا۔ وہ تو اس پوری وحشی کارروائی کا ماسٹر مائنڈ ہے ہی، دنیا کے ممالک بھی اس کے شریک کار ہیں۔ اس نسل کشی کا مرکزی کردار نیتن یاہو ہے اور دنیا کے ممالک سپورٹنگ کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس کہانی میں کوئی ہیرو نہیں سب ویلن ہی ویلن ہیں، اگر کوئی ہیرو ہے تو وہ غزہ کے معصوم اور بے گناہ شہری ہیں جو تاریخ کا بدترین ظلم سہنے کے باوجود اپنی سرزمین کو خیرباد کہنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے غزہ خالی کر دیا تو اس پر اسرائیل قابض ہو جائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے بے وطن ہو جائیں گے۔

دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غزہ کے لوگ صرف امداد نہیں چاہتے، وہ عزت، خود مختاری اور ایک آزاد ریاست کا حق چاہتے ہیں۔ جب تک انھیں یہ حق نہیں دیا جائے گا، تب تک نہ کوئی جنگ بندی دیرپا ہوگی، نہ کوئی معاہدہ موثر۔یہ وقت ہے جب امریکا، قطر، مصر، اور دیگر ثالث ممالک کو اپنے کردار کو سنجیدگی سے ادا کرنا ہوگا۔ اسرائیل کو اپنی جارحیت بند کرنی ہوگی، حماس کو بھی سیاسی حکمت عملی اپنانی ہوگی اور دنیا کو فلسطینیوں کو صرف ایک مظلوم قوم کے طور پر نہیں بلکہ ایک باوقار قوم کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔آخر میں سوال وہی ہے جو دنیا کا ہر حساس انسان اپنے آپ سے کر رہا ہے: کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ کیا ہم واقعی ظلم کے خلاف ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر ہمیں صرف خاموش تماشائی بننے کے بجائے، اس نسل کشی کو رکوانے کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوگا۔

برطانوی پارلیمان کے 221 اراکین نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ پیش رفت اہم ضرور ہے، لیکن جب تک اس مطالبے کو عملی اقدام میں نہ بدلا جائے، تب تک یہ محض کاغذی باتوں کی حد تک محدود رہے گا۔ فرانس اور ناروے جیسے ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں، مگر برطانیہ سمیت کئی ممالک اب بھی دوغلے مؤقف کے ساتھ صرف سفارتی چالاکی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم اسٹارمر کا یہ کہنا کہ ’ابھی وقت نہیں آیا‘ دراصل وقت گزارنے کی حکمتِ عملی ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان غزہ کے بے قصور شہریوں کو ہو رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے حالیہ انٹرویو میں جنگ بندی کی امید دلائی، لیکن ساتھ ہی حماس کی مکمل ہتھیار ڈالنے کی شرط رکھ دی۔ یہ مؤقف، بظاہر امن کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت میں یکطرفہ شرائط پر مبنی ہے، جو زمینی حقائق کو نظرانداز کرتا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب فریقین کو سنجیدہ بات چیت کے لیے سازگار ماحول اور یکساں مواقعے میسر آئیں۔ جنگ بندی محض ایک جنگی حکمتِ عملی کے بجائے، ایک انسانی تقاضا بن چکی ہے۔

 غزہ کی موجودہ صورتحال بین الاقوامی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ اور یورپی یونین جیسے ادارے محض بیانات اور ہمدردی کے پیغامات تک محدود ہیں۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں غزہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ عالمی شرمندگی کی ایک سیاہ مثال کے طور پر تاریخ میں لکھا جائے گا۔

دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا، کیا وہ قحط سے مرتے بچوں، بے گھر عورتوں اور بیمار بزرگوں کی تکلیف محسوس کرے گی یا خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ اس سوال کا جواب صرف عالمی ضمیر ہی دے سکتا ہے ، اگر وہ واقعی زندہ ہو۔اقوام متحدہ کی نیویارک کانفرنس ایک اہم موقع ہے جس میں فلسطین کے مسئلے کو ایک منصفانہ اور دیرپا حل کی طرف لے جایا جا سکتا ہے، اگر دنیا اب بھی خاموش رہی تو غزہ کی سسکتی روحیں عالمی ضمیر پر ایک ایسا سوالیہ نشان چھوڑ جائیں گی جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ اسرائیل نے سکتا ہے چکے ہیں نہ کوئی رہا ہے ہیں کہ غزہ کے نہیں ا کے لیے

پڑھیں:

دنیا میں لینڈ لاک ممالک کتنے، ایسے ترقی پذیر ملکوں کے لیے اقوام متحدہ کیا کر رہی ہے؟

اقوام متحدہ اگلے ماہ ترکمانستان کے ساحلی شہر آوازا میں ایک تاریخی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے جس کا مقصد خشکی میں گھرے 32 ترقی پذیر ممالک (Landlocked Developing Countries – LDC3) کے گہرے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا اور ان کے لیے عالمی نظام کو زیادہ مؤثر بنانا ہے۔

یہ ممالک، جو سمندر تک براہ راست رسائی سے محروم ہیں، عالمی تجارت اور ترقی کے اہم مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں جس سے ان کے 57 کروڑ باشندوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خشکی میں گھرے ممالک کتنے ہیں؟

خشکی میں گھرے (لینڈ لاک) ممالک (یعنی وہ ملک جن کے پاس سمندر نہیں ہوتا) میں سے وہ ممالک جنہیں عالمی ادارے ترقی پذیر ممالک کے طور پر شناخت کرتے ہیں اور جو خاص طور پر اپنی معیشتی اور انفراسٹرکچر کی مشکلات کی وجہ سے اقوام متحدہ کے پروگراموں کا حصہ بنتے ہیں ان کی تعداد 32 ہے۔

ان ممالک میں افغانستان، آرمینیا، آزربائیجان، بولیویا، بوتسوانا، برونڈی، چاد، مرکزی افریقی جمہوریہ، چیک ریپبلک، ایتھوپیا، ہونڈوراس، ہنگری، کازاخستان، کرغزستان، لاوس، لیسوتھو، مالاوی، مالی، مولدووا، نیپال، نائجر، پیراگوئے، روانڈا، سربیا، سلوواکیہ، سوازی لینڈ (اب ایسواتینی)، تاجکستان، جنوبی سوڈان، سوڈان، یوگانڈا، زیمبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔

باقی کچھ ممالک ایسے ہیں جو تو خشکی میں گھرے تو ہیں مگر اقوام متحدہ کی ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک کی کیٹیگری میں شامل نہیں۔ ان لینڈ لاک ممالک میں زیادہ تر یورپی ممالک شامل ہیں جن کی معیشت نسبتاً زیادہ مستحکم اور ترقی یافتہ ہے۔

ان لینڈ لاک ممالک میں آسٹریا، بیلاروس، لکسمبرگ، مالٹا، مونٹی نیگرو، سویٹزرلینڈ، اور ویتیکن سٹی شامل ہیں۔ یہ ممالک اپنے انفراسٹرکچر، اقتصادی صورتحال، اور عالمی تجارتی روابط کی وجہ سے ترقی پذیر ایل ایل ڈی سی کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ اسی طرح کچھ وسطی ایشیائی ممالک جیسے کہ ترکمانستان اور آذربائیجان کو بھی اکثر لینڈ لاک ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ بحر خزر کے ساحل پر واقع ہیں اور ان کی ساحلی رسائی ہے۔

یوں ترقی پذیر اور غیر ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک کو ملا کر دنیا میں کل تقریباً 44 ایسے ممالک ہیں جو خشکی میں گھرے ہوئے ہیں اور سمندر تک براہ راست رسائی نہیں رکھتے۔

ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک

خشکی میں گھرے 32 ممالک کا عالمی تجارت میں حصہ صرف 2.1 فیصد ہے جبکہ سمندری ممالک کا حصہ کہیں زیادہ ہے۔

ان ممالک کے تجارتی اخراجات عالمی اوسط سے تقریباً 74 فیصد زیادہ ہیں جس کی وجہ ان کے محدود تجارتی راستے اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔

سرحد پار تجارتی نقل و حمل میں خشکی میں گھرے ممالک کو دوگنا وقت لگتا ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

ان مسائل کی وجہ سے یہ ممالک عالمی معیشت کی تبدیلیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔

آوازا کانفرنس کے اہم مقاصد

کانفرنس میں عالمی رہنما، ریاستی سربراہان، وزرا، سرمایہ کار، سول سوسائٹی، خواتین اور نوجوان رہنما شامل ہوں گے تاکہ آزادانہ تجارتی نقل و حمل کو فروغ دیا جائے، بہتر تجارتی راہداریوں کا قیام ممکن بنایا جائے، معاشی استحکام اور مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے، ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کیا جائے، مقامی اور علاقائی انضمام کو تقویت دی جائے۔

آوازا پروگرام آف ایکشن (2024–2034)

یہ پروگرام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2023 میں منظور کیا اور اس میں 5 ترجیحی شعبے ہیں جن میں خشکی میں گھرے ممالک میں عالمی سرمایہ کاری کو فروغ دے کر بنیادی سہولیات کی بہتری، علاقائی زرعی تحقیقاتی مراکز کا قیام تاکہ خوراک کی پیداوار اور استحکام بڑھانا، ایک اعلیٰ سطحی اقوام متحدہ پینل کی تشکیل جو سرحد پار نقل و حمل کو آسان بناسکے، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا اور عالمی تجارتی تنظیم (WTO) میں خشکی میں گھرے ممالک کے لیے مخصوص پروگرام کا آغاز شامل ہیں۔

عالمی تعاون کی اہمیت اور ترکمانستان کا کردار

ترکمانستان کے لیے اس کانفرنس کی میزبانی ایک سفارتی سنگ میل ہے جس سے وہ ان ممالک کے مسائل کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے کا موقع پا رہا ہے۔

ترکمانستان کی مستقل سفیر آکسولتان آتائیوا نے کہا ہے کہ یہ کانفرنس عالمی یکجہتی کا مظہر ہوگی اور خشکی میں گھرے ممالک کو بین الاقوامی تعاون کے مرکز میں لے آئے گی۔

عالمی تناظر اور توقعات

خشکی میں گھرے ممالک شدید ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے خشک سالی، سیلاب اور زمین کے زوال کا شکار ہیں جو ان کی معیشت اور زندگیوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اگر ان ممالک کو مناسب مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے تو ان کی معاشی شرح نمو میں سالانہ 2 سے 3 فیصد اضافہ ممکن ہے۔

بہتر تجارتی راستے اور انفراسٹرکچر سے لاکھوں بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی مل سکتی ہے جبکہ کسانوں اور چھوٹے تاجروں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

بولیویا کے سفیر اور ایل ایل ڈی سی 3 گروپ کے سربراہ ڈیاگو پاچیکو نے کہا ہے کہ ان ممالک کی ترقی انسانیت کی تقدیر سے جڑی ہے۔ عالمی شراکت داری کے ذریعے ہم ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں جو پوری دنیا کے لیے خوشحالی کا سبب بنے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان اقوام متحدہ آوازا کانفرنس ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک ترکمانستان لینڈ لاک ممالک

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کو مکمل رکنیت دی جائے، اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس میں پاکستان کا دوٹوک مطالبہ
  • بنگلہ دیش: یو این انسانی حقوق کمیشن کے تین سالہ مشن کے قیام پر اتفاق
  • دنیا میں لینڈ لاک ممالک کتنے، ایسے ترقی پذیر ملکوں کے لیے اقوام متحدہ کیا کر رہی ہے؟
  • اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر تین روزہ اہم کانفرنس آج سے شروع
  • پاکستان نے فلسطینی ریاست کے قیام کی عالمی کوشش میں شمولیت اختیار کر لی
  • اقوام متحدہ میں عالمی کانفرنس، سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم
  • اسرائیل کا غزہ کے 3 علاقوں میں روزانہ 10 گھنٹے حملے روکنے کا اعلان
  • عالمی دباؤ کارگر، اسرائیل کا غزہ کے 3 علاقوں میں حملے روکنے کا اعلان، امداد کی فراہمی کا دعویٰ
  • آمریت کے مقابلے میں انسانی حقوق کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری، یو این چیف