تشنگی رات بھر کی ہو یا ذات بھر کی ہمہ وقت بے چین و بے قرار رکھتی ہے اور یوگی بابا کے بقول ایک نسلی سیاح کو جب تک کوئی گھاٹی، کوئی کوہستانی قریہ اپنی قربت سے نہ نواز دے، اپنی آغوش مین نہ لے لے یہ تشنگی کا پارہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اپنی ذات کی تشنگی کے پارے کو حد میں لانے کے لئے قراقرم کی چھلت گھاٹی کا بلاوا آ گیا جو وادیِ نگر میں ہے اور بلاوا آتا بھی چیری کے موسم میں۔
چھلت قراقرم ہائی وے پر گلگت شہر سے کوئی پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یاد رہے آج کی نگر گھاٹی سن ۱۹۷۴ تک ایک ریاست کا درجہ رکھتی تھی جس کا اپنا راجا ہوا کرتا تھا، اپنا نظام اور فوج تھی اور اکثر یہ ریاست اپنی ہم سایہ ہنزہ (اصل تلفظ ہونزا) ریاست سے برسرپیکار رہا کرتی تھی۔ یہ چھلت گاؤں اگر گلگت کی طرف سے آئیں تو نگر کا پہلا قریہ ہے جو ہنزہ نگر دریا کنارے آباد ہے۔
اگر قریے کے مشرقی یا مغربی پہاڑی کنگرے سے قریے کا نظارہ کیا جائے تو سنگی سرمئی و خاکی چادر میں آپ کو سبزے ہی سبزے کی کشیدہ کاری ملے گی کہ نگر کا یہ زرخیز ترین قریہ ہے جس میں علاقے کے تقریباً سارے پھل دار درخت ملتے ہیں جن میں چیری، اخروٹ، شہتوت، انگور، سیب، خوبانی، انجیر وغیرہ شامل ہیں۔
چھلت ارضیاتی عجائب میں سے بھی ایک ہے کہ کوئی پچپن ملین برس قبل انڈین و یوریشین ارضیاتی پرتوں (ٹیکٹونک پلیٹس) کا تصادم ہوا جو ہنوز جاری ہے اور اس تصادم سے قراقرم و ہمالیہ و ہندوکش کے عظیم سلاسل ہائے کوہ وجود میں آئے۔ یہاں چھلت گھاٹی کے دھانے پر قراقرم ہائی وے پر ایک معلوماتی کتبہ بتاتا ہے کہ تصادم والی لکیر یہاں سے ہی ہو کر گزرتی ہے۔ یہ معلومات خوش کُن بھی ہے سیاح کے لیے کہ وہ مقامِ تصادم پر کھڑا ہے جس کی بدولت کروڑوں برس قبل محبوب پہاڑوں کے اجسام وجود میں آئے اور ساتھ میں ریڑھ کی ہڈی میں زلزلوں کا سوچ کر ایک سرد سی لہر بھی محوِسفر ہوجاتی ہے۔
قراقرم ہائی وے پر اتر کر جیسے ہی آپ ہنزہ نگر دریا پر معلق پل کو پار کر کے چھلت میں داخل ہوتے ہیں تو مانو کہ یہ ایک مختصر سی ارضی بہشت ہے جہاں پر ہریالی ہے، قریے کی گلیوں میں چشموں کا برفیلا پانی ہے، آسمان میں اور شجروں پر پرندوں کا بسیرا ہے، ان کے نغمے ہیں، قریہ سے باہر مغرب کی طرف ایک عدد گلیشیئر ہے، دو آبشاریں ہیں اور چاروں طرف سرمئی اور سفید برف پوش پہاڑ ہیں۔
چھلت میں سیاحت جینے کے لیے بہت کچھ ہیں، آپ معلق پل پر پہروں کھڑے رہیں اور ہنزہ نگر کی چوٹیوں کو تکتے رہیں، ہوا آپ کو بوسے دیتی رہے، آپ اپنے اندرون کو تازہ و مہین ہوا سے بھرتے رہیں، آپ چھلت کے معلق پل سے طلوع آفتاب و غروبِ آفتاب کے کائناتی لمحات اپنی زندگی میں جوڑتے رہیں، تھوڑا تھک گئے ہیں تو پل کے شمال مغرب میں موجود چراگاہ و درختوں کے ذخیرے میں سستا لیں، گر کسی پھل کا موسم ہے تو اجازت بہت پیار سے مل جاتی ہے، خود پھل توڑ کر کھانے کی۔ اگر ایک دو روز کا قیام ہے تو اس چراگاہ میں بکریاں چراتے چرواہے سے داستانیں سنیں یا وہاں خود کچھ پکا کھا لیں، ان لمحات کو مستقبل کی بیاض کا حصہ بنا لیں کہ جو آج آپ کا ہے، جی بھر کی جی لیں۔
چھلت قریہ میں دو آبشاریں ہیں ایک دریا کنارے اور ایک کھیت کھلیانوں کے بیچوں بیچ سے ہو کر پہاڑ کی گودی کے اندر۔ جیسے ہی آپ قریہ کے مغرب کو چہل قدمی کو نکلتے ہیں تو آپ خود کو سرسبز کھیتوں اور چھوٹی چھوٹی چراگاہوں میں پاتے ہیں جہاں درختوں میں پکھیرو آپ کے لیے سُر چھیڑتے ہیں اور ہوائیں پتوں کی سرسراہٹ ساتھ تال دیتی ہے، آپ تھوڑا تھوڑا بلندی کو حاصل کرتے کرتے گاؤں کی قُل (واٹر چینل جو اوپر برف زار سے گاؤں کے کھیت سیراب کرنے کا پانی لاتی ہے) کے ساتھ چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
راہ میں لکڑہارے اور چرواہوں سے ملاقات بھی ہوجاتی ہیں، بچوں سے بھی جو کسی درخت پر چڑھ کر موسمی پھل کو جسم و جاں کا حصہ بناتے نظر آتے ہیں۔ جب آپ قُل کے ساتھ ساتھ پہاڑ کی گودی والی آبشار کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ خود کو ایک باریک سی پگڈنڈی پر پاتے ہیں، اس وقت احتیاط لازم ہے کہ آپ کے ایک طرف گہری ڈھلوان ہے جو یقیناً دوست نہیں ہے۔ میں نے جون کی دوپہر میں اس آبشار کی قربت میں سردی کی لہر کو محسوس کیا اور پانی واقعی ٹھنڈا یخ تھا۔
پاس ہی ایک گلیشیئر بھی ہے جہاں آپ بچپن اپنا ساتھ لانا چاہیں تو کوئی بھی شربت ساتھ اٹھا لائیں، پھر قدرتی برف کا گولا آپ کا ہوا۔ دوسری آبشار کے لیے قریہ کے مغرب میں معلق پل کے پاس سے دریا ساتھ کوئی ایک دو کلومیٹر سفر کرنا پڑے گا۔ اس سمت جدھر کو دریا جاتا ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ اس آبشار تک کا ٹریک بہت آرام دہ ہے اور اگر تھوڑا تھک بھی گئے ہیں تو آبشار کا پانی آپ کو تازہ دم کر دے گا۔
ذرا ٹھہریں! ابھی چھلت میں دیکھنے کو کچھ منفرد بھی ہے، یہاں دریا سے سونا بھی نکالا جاتا ہے۔ بات یوں ہے کہ شاید ہزاروں برسوں سے شمال کے دریاؤں سے سونا چھان چھان کر نکالا جاتا رہا ہے۔
صرف چھلت ہی کیا چلاس، داسو، کومیلا، گلگت، بگروٹ، نگر اور ہنزہ کے دریاؤں کے کناروں سے سونیوال (ان کو مروح اور موہان بھی کہا جاتا ہے) خانہ بدوش طلا کش سارا سال خصوصاً سرما میں جب دریا کے کناروں سے پانی اتر جاتا ہے اور دریا ریت کے ذرات اگل جاتا ہے تو ان ریت کے ذرات کو چھان چھان کر سونے کے ذرات اکھٹے کرتے ہیں، سارا ٹبر ہی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہا ہوتا ہے کیا بچے، کیا جوان اور کیا عورتیں۔ ہیروڈوٹس جو یونانی تاریخ دان و جغرافیہ دان تھا اور آج سے کوئی پچیس سو برس قبل اس دنیا میں آتا ہے اور نسبتاً منظم تاریخ لکھنے کی وجہ سے بابائے تاریخ کا لقب پاتا ہے وہ بھی شمال کے سونے کا ذکر کرتا ہے اگرچہ کسی اور انداز سے کہ وہ لکھتا ہے (سن سنا کر کہ اس نے خود دردستان یا شمالی علاقہ جات کا دورہ نہیں کیا تھا) درد دیس میں سونا کھودنے والی بڑی چیونٹیاں پائی جاتی ہیں جن کا جسم لومڑی کے جتنا مگر کتے سے چھوٹا ہوتا ہے۔
اصل میں ہیروڈوٹس دو کہانیوں کو گڈ مڈ کر دیتا ہے کہ جن بڑی چیونٹیوں کی بابت وہ بات کرتا ہے وہ ہمالیہ و قراقرم و ہندوکش میں پائے جانے والے سنہری مارموٹ ہیں جو بھورے رنگ کا خرگوش سے کافی بڑا مگر گلہری کے جیسا جانور ہے، جو زمین کھود کر بِل بنا کر رہتا ہے۔ دوسرا وہ سونے کے حصول کے لیے تلاش کو سنہری مارموٹ سے جوڑ دیتا ہے۔ میں چھلت میں سونیوال یا مروح خاندان سے ملا جو دریا کنارے جھونپڑی لگائے سب مل کر ریت چھان رہے تھے کہ کچھ ذرات نصیب میں آئیں، اب تو دریاؤں کے کناروں کا ٹھیکا بھی دیا جاتا ہے۔
تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لیے بھی چھلت اپنی زنبیل سے کچھ نہ کچھ نکال ہی لائے گا، ابھی جس قراقرم ہائی وے پر ہم سفر کرتے ہیں وہ ہنزہ نگر دریا کے بائیں طرف ہے اور یہ عوام کے لیے ۱۹۸۶ میں کھولی گئی تھی جب کے اس سے قبل والی شاہراہ دریا کے دائیں طرف تھی جس کو شاہراہِ ریشم کہا جاتا ہے، اب بھی چھلت گاؤں میں اس شاہراہ کے اثرات موجود ہیں، وہاں تک رسائی کرکے آپ نہ صرف ماضی میں جی سکتے ہیں بلکہ وہاں سے آپ کو چھلت گاؤں ایسے نظر آئے گا جیسے کسی نے طشتری میں ڈال کر سامنے رکھ دیا ہو، اور ہاں ہوائیں بھی آپ کے گال یہاں تھوڑا زور سے تھپتھپاتی ہیں۔
ابھی بھی آپ کو قریہ کے بزرگ شاہراہِ ریشم کی داستانیں سنا سکتے ہیں جیسے مہربان صاحب نے، جو ماشااللّہ ستر سال سے زاید عمر کے ہیں، بتایا کہ وہ اس شاہراہ پر ایوب دور تک جیپ چلاتے رہے ہیں اور ایسے لگتا تھا جیسے موت کے منہ میں جیپ چلا رہے ہوں۔ مزید بتایا کہ اس روڈ کو ایوب دور کے بعد متروک کردیا گیا تھا اور پھر پہاڑ سے تھوڑا نیچے دریا کے کنارے پاس نیا روڈ بنا تھا اور اس کے بعد پھر دریا کے بائیں کنارے قراقرم ہائی وے بنایا گیا تھا۔ دونوں پرانی شاہ راہوں کے نشانات و اثرات چھلت قریہ کے باہر دیکھے جا سکتے ہیں۔
قدیم سلک روٹ کی تصاویر جی ڈبلیو لئیٹنر اور کرنل لوریمر کی کتب میں مل جاتی ہیں۔ لئیٹنر نے انیسویں صدی کے آخری نصف اور لوریمر نے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ان علاقوں کو دیکھا اور اپنی تحقیق دنیا سامنے پیش کی تھی۔ تاریخ پسندوں کے لیے چھلت گاؤں کا جنوبی گوشہ اہمیت کا حامل ہے جہاں ڈیڑھ دو سو برس قدیم سنگ و چوب کے بنے مکانات پہاڑی کنگرے کے اوپر موجود ہیں جن کو مقامی طور پر کوٹ کہا جاتا ہے۔ ان میں اکثر مکانات کو اب مویشی خانوں میں بدل دیا گیا ہے اور قریب ہی نئے گھر بنالیے گئے ہیں۔ کوٹ قلعہ یا قلعہ بند آبادی کو کہا جاتا ہے، زمانہ قدیم میں حملہ آوروں کے ڈر کی وجہ سے آبادی کاری کوٹ کے اندر ہی کی جاتی تھی۔
چلیں اب تاریخ کے دوراہے سے چھلت کی سیاحت نگری کو چلتے ہیں کہ مئی و وسط جون تک چھلت چیری سے لدا رہتا ہے، ہر ہر گھر اور صحن میں آپ کو چیری کی بہار ملے گی۔ اس کے علاوہ دو تین بڑے باغ بھی ہیں چیری کے؛ ایک باغ تو بلکل معلق پل کے پاس قریہ سے باہر اور دوسرا چھلت پائیں کے بالکل وسط میں۔ وسطی باغ میں تین قسم کی چیری کے درخت لگے ہوئے ہیں؛ دیسی چیری، فرانسیسی لال چیری اور فرانسیسی سفیدی مائل چیری جو جوس کے لیے اگائی جاتی ہے۔ چیری کے باغ میں گزرے لمحات زندگی کے حاصل لمحات میں سے چند ایک ہوسکتے ہیں، صرف آپ، چیری، پکھیرو اور ہوائیں۔ لال لال چیری درختوں ساتھ ایسے لٹک رہی ہوتی ہے جیسی محبوب ہستی کے گالوں تک آتے آویزے لہرا رہے ہوں۔
ٹریکنگ و ہائیکنگ کے لیے بھی چھلت نے اپنا سینہ کشادہ رکھا ہے۔ آپ چھلت سے گَشو مَلِنگ و پارائی ڈوکری تک کا سفر کر سکتے ہیں۔ چھلت پائین کے بازار سے شمال مغرب کو جو راستہ چھپروٹ ندی کے ساتھ والا ہے اس سے یاری لگائیں اور چل پڑیں۔ یہاں سے پارائی ڈوکری تک لگ بھگ چھ سات کلومیٹر کا ٹریک ہے جو آغاز میں خشکی لیے ہوئے ہیں مگر آگے جا کر ہریالی سے آپ کو تازہ دم کرتا ہے۔
چھلت چھپروٹ ندی ٹریک آغاز سے ٹریک اختتام تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی، ہمہ وقت جاتے ہوئے آپ کے دائیں ہاتھ یعنی شمال میں رہتی ہی اور گنگناہٹ سے نوازتی رہتی ہے۔ بازار سے آگے جب آپ ایک ڈیڑھ کلومیٹر کی مسافت طے کرچکے ہوتے ہیں تو قدرے بلندی سے آپ اپنے دائیں ہاتھ ندی کے پار دیکھتے ہیں تو وہاں ایک کوہستانی قصبہ رابٹ اپنی ہریالی سے آپ کی آنکھوں کو تازگی بخشتا ہے۔ تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں تو دائیں ہاتھ پر آپ کو دو پتھر راہ کنارے پڑے ملتے ہیں۔ دونوں پتھر تقریباً ایک ہی حجم کے ہیں، ہاں ایک پر چھوٹے چھوٹے کافی پتھر اوپر تلے لگائے سجائے ہوئے ہیں جب کہ دوسرے پتھر کی سطح پر ایک گھوڑے کی شبیہہ قدرتی طور پر بنی ہوئی ہے۔
پوچھنے پر بتایا گیا کہ پرانے وقتوں سے یہ روایت رہی ہے کہ جب کوئی راہ گزر، چرواہا، لکڑہارا یا شکاری چھلت سے پارائی ڈوکری یا اس سے پار جاتا تو ایک چھوٹا پتھر بڑے پتھر پر اپنی کوئی من کی مراد پوری ہونے کی نیت سے رکھ دیتا جب کہ دوسرے پتھر پر گھوڑے کی شبیہہ سے اپنے گھٹنے اور سر کو اس نیت سے مَس کرتا کہ اسے راستے کی تھکاوٹ نہ ہو اور آج بھی لوگ اس روایت سے جڑے ہوئے ہیں گو کہ ان کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
جہاں یہ دو پتھر موجود ہیں وہ جگہ بھی اس روایت کے زوال کی داستان سناتی ہے کہ سن دو ہزار بارہ کے گرما میں جب میں یہ ٹریک کیا تو وہاں پر روایت سے جڑے دو پتھروں کے گرد بڑے بڑے کوئی چالیس پچاس پتھروں سے دیوار بنا کر وہاں ہزار سے زاید کی تعداد میں مَنتی پتھر رکھے ہوئے تھے جب کہ سن دو ہزار چوبیس کے گرما میں دونوں پتھروں کی چار دیواری مفقود تھی اور مَنتی پتھروں کی تعداد سو سے بھی کم۔
چھلت بازار سے جب آپ دو اڑھائی کلومیٹر کا ٹریک کر لیتے ہیں تو ہریالی آپ کا دامن تھام لیتی ہے۔ اب آپ کے دونوں طرف سبزہ ہے، کھیت ہیں، گھاس کے قطعے ہیں اور پھل دار اور غیر پھل دار درخت ہیں جن پر پرندوں کا بسیرا ہے۔ پرندوں کی گائیکی آپ کو سرور بخشتی ہے، کشپی (میگ پائی) پرندہ اپنے خوب صورت رنگوں سے آپ کو لبھاتا ہے اور آپ سفر ایسے جاری رکھتے ہیں کہ دائیں ہاتھ پر مگر تھوڑا دور گہرائی میں چھلت چھپروٹ ندی اور بائیں ہاتھ قُل ہے، ندی اوپر پارائی ڈوکری اور اس سے پرے برف زاروں سے ٹھنڈا یخ پانی نیچے چھلت کے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے لاتی ہے اور آپ آگے اور اوپر کو بڑھتے جاتے ہیں وہ بھی ایسے کہ راہ میں آپ کو چرواہے، لکڑہارے اور قُل کو چالو حالت میں رکھنے والے رکھوالے یا کھیتوں کو پانی دیتے کوہستانی دہقان ملتے رہتے ہیں۔
بازار سے پارائی ڈوکری کا ٹریک ایک سوا گھنٹے کا ہے جو میں اڑھائی گھنٹے میں کیا کہ میرے پاس پورا دن تھا وہاں جانے کا، خود کو خود سے ملوانے کا اور تازہ ہوا کو اندر تک سمونے کا۔ جب آپ ٹریک کرتے ہیں تو آپ کی پشت پر رَاکا پوشی (۲۵۵۵۰ فٹ) اور دِیران چوٹی (۲۳۸۳۹ فیٹ) کے پہاڑ دور تک آپ کو پیچھے سے تکتے رہتے ہیں اور جب آپ پارائی ڈوکری پہنچ جاتے ہیں، تو آپ اپنے سامنے چھلت چھپروٹ ندی، اس کے پرے برف زار اور ان سے اوپر سربفلک برف پوش چوٹیاں دیکھتے ہیں، بلندی ترین چاری کھانڈ چوٹی (۱۹۳۰۰ فیٹ) آپ کی نظروں کو اچک لیتی ہے، اِدھر اُدھر ہلنے نہیں دیتی اور اس چوٹی اور اس کے گردا گرد پہاڑوں کے پرے نلتر کی خوب صورت وادی پڑتی ہے مگر آپ کو تو یہاں سے ہی واپس آنا ہے تو بہتر ہے ایک دو گھنٹے یہاں رک جائیں، سمے کو روک لیں، خود کو جی لیں، کچھ ساتھ لائیں ہیں توپکا لیں یا پھر کھانے والا لائے ہیں تو کھالیں۔
قُل کا پانی دیکھنے میں گدلا ہے مگر پینے والا ہے، دل نہیں مانتا تو پارائی ڈوکری سے مزید ایک کلومیٹر سفر کرکے آگے جائیں تو چشمہ کا پانی بھی دست یاب ہے، مجھے تو گدلا بھی چل گیا تھا۔ ٹریک کوئی مشکل نہیں ہے، تین گھنٹے آنے جانے کے اور ایک گھنٹہ وہاں قیام بھی کافی ہے اگر آپ کے پاس اس ٹریک کے لیے آدھا دن ہے، میرے پاس تو پورا دین تھا۔
کھانا یا ہلکا پھلکا کھانے کا آسرا ساتھ لے کر جائیں وہاں کچھ دست یاب نہیں۔ پانی وافر موجود ہے، خطرہ کوئی نہیں نہ انسان کا نہ جانور کا (سردیوں کا پتا نہیں کہ کسی جانور کا خدشہ ہوتا کہ نہیں)، لوگ نرم خو اور مہمان نواز ہے۔ چوںکہ سیاح نہیں جاتے تو سارا راستہ اور علاقہ آلودگی سے پاک ہے تو جب آپ بھی جائیں تو وہاں آلودگی سے گریز کریں کہ یہ فطری ماحول اگلی نسل تک بھی پہنچنا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قراقرم ہائی وے پر کہا جاتا ہے دائیں ہاتھ ہوئے ہیں سکتے ہیں ا ہے اور ہے اور ا ہیں تو ا ہیں اور چیری کے معلق پل کا ٹریک کے ساتھ دریا کے کا پانی قریہ کے اور اس کے لیے ہیں جن ایک دو خود کو
پڑھیں:
دریائے سندھ کا بڑا سیلابی ریلا ڈی جی خان کی حدود میں داخل
دریا سندھ کا بڑا سیلابی ریلا تونسہ سے ڈی جی خان کی حدود میں داخل ہوگیا، ضلعی انتظامیہ نے الرٹ جاری کردیا۔
جھنگ میں دریائے چناب میں طغیانی سے دس سے زائد دیہات زیر آب آگئے۔
وسیع رقبے پر کھڑی فصلوں اور آبادیوں میں پانی داخل ہوگیا، رابطہ سڑکیں زیر آب آگئیں، جبکہ راجن پور میں فصلوں کو نقصا ن پہنچا۔
دوسری جانب حافظ آباد میں دریائے چناب کے گرد کٹاؤ میں اضافہ ہوگیا، متعدد دیہات کی سیکڑوں ایکڑ زرعی اراضی دریا برد ہوچکی ہے۔