تشنگی رات بھر کی ہو یا ذات بھر کی ہمہ وقت بے چین و بے قرار رکھتی ہے اور یوگی بابا کے بقول ایک نسلی سیاح کو جب تک کوئی گھاٹی، کوئی کوہستانی قریہ اپنی قربت سے نہ نواز دے، اپنی آغوش مین نہ لے لے یہ تشنگی کا پارہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اپنی ذات کی تشنگی کے پارے کو حد میں لانے کے لئے قراقرم کی چھلت گھاٹی کا بلاوا آ گیا جو وادیِ نگر میں ہے اور بلاوا آتا بھی چیری کے موسم میں۔
چھلت قراقرم ہائی وے پر گلگت شہر سے کوئی پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یاد رہے آج کی نگر گھاٹی سن ۱۹۷۴ تک ایک ریاست کا درجہ رکھتی تھی جس کا اپنا راجا ہوا کرتا تھا، اپنا نظام اور فوج تھی اور اکثر یہ ریاست اپنی ہم سایہ ہنزہ (اصل تلفظ ہونزا) ریاست سے برسرپیکار رہا کرتی تھی۔ یہ چھلت گاؤں اگر گلگت کی طرف سے آئیں تو نگر کا پہلا قریہ ہے جو ہنزہ نگر دریا کنارے آباد ہے۔
اگر قریے کے مشرقی یا مغربی پہاڑی کنگرے سے قریے کا نظارہ کیا جائے تو سنگی سرمئی و خاکی چادر میں آپ کو سبزے ہی سبزے کی کشیدہ کاری ملے گی کہ نگر کا یہ زرخیز ترین قریہ ہے جس میں علاقے کے تقریباً سارے پھل دار درخت ملتے ہیں جن میں چیری، اخروٹ، شہتوت، انگور، سیب، خوبانی، انجیر وغیرہ شامل ہیں۔
چھلت ارضیاتی عجائب میں سے بھی ایک ہے کہ کوئی پچپن ملین برس قبل انڈین و یوریشین ارضیاتی پرتوں (ٹیکٹونک پلیٹس) کا تصادم ہوا جو ہنوز جاری ہے اور اس تصادم سے قراقرم و ہمالیہ و ہندوکش کے عظیم سلاسل ہائے کوہ وجود میں آئے۔ یہاں چھلت گھاٹی کے دھانے پر قراقرم ہائی وے پر ایک معلوماتی کتبہ بتاتا ہے کہ تصادم والی لکیر یہاں سے ہی ہو کر گزرتی ہے۔ یہ معلومات خوش کُن بھی ہے سیاح کے لیے کہ وہ مقامِ تصادم پر کھڑا ہے جس کی بدولت کروڑوں برس قبل محبوب پہاڑوں کے اجسام وجود میں آئے اور ساتھ میں ریڑھ کی ہڈی میں زلزلوں کا سوچ کر ایک سرد سی لہر بھی محوِسفر ہوجاتی ہے۔
قراقرم ہائی وے پر اتر کر جیسے ہی آپ ہنزہ نگر دریا پر معلق پل کو پار کر کے چھلت میں داخل ہوتے ہیں تو مانو کہ یہ ایک مختصر سی ارضی بہشت ہے جہاں پر ہریالی ہے، قریے کی گلیوں میں چشموں کا برفیلا پانی ہے، آسمان میں اور شجروں پر پرندوں کا بسیرا ہے، ان کے نغمے ہیں، قریہ سے باہر مغرب کی طرف ایک عدد گلیشیئر ہے، دو آبشاریں ہیں اور چاروں طرف سرمئی اور سفید برف پوش پہاڑ ہیں۔
چھلت میں سیاحت جینے کے لیے بہت کچھ ہیں، آپ معلق پل پر پہروں کھڑے رہیں اور ہنزہ نگر کی چوٹیوں کو تکتے رہیں، ہوا آپ کو بوسے دیتی رہے، آپ اپنے اندرون کو تازہ و مہین ہوا سے بھرتے رہیں، آپ چھلت کے معلق پل سے طلوع آفتاب و غروبِ آفتاب کے کائناتی لمحات اپنی زندگی میں جوڑتے رہیں، تھوڑا تھک گئے ہیں تو پل کے شمال مغرب میں موجود چراگاہ و درختوں کے ذخیرے میں سستا لیں، گر کسی پھل کا موسم ہے تو اجازت بہت پیار سے مل جاتی ہے، خود پھل توڑ کر کھانے کی۔ اگر ایک دو روز کا قیام ہے تو اس چراگاہ میں بکریاں چراتے چرواہے سے داستانیں سنیں یا وہاں خود کچھ پکا کھا لیں، ان لمحات کو مستقبل کی بیاض کا حصہ بنا لیں کہ جو آج آپ کا ہے، جی بھر کی جی لیں۔
چھلت قریہ میں دو آبشاریں ہیں ایک دریا کنارے اور ایک کھیت کھلیانوں کے بیچوں بیچ سے ہو کر پہاڑ کی گودی کے اندر۔ جیسے ہی آپ قریہ کے مغرب کو چہل قدمی کو نکلتے ہیں تو آپ خود کو سرسبز کھیتوں اور چھوٹی چھوٹی چراگاہوں میں پاتے ہیں جہاں درختوں میں پکھیرو آپ کے لیے سُر چھیڑتے ہیں اور ہوائیں پتوں کی سرسراہٹ ساتھ تال دیتی ہے، آپ تھوڑا تھوڑا بلندی کو حاصل کرتے کرتے گاؤں کی قُل (واٹر چینل جو اوپر برف زار سے گاؤں کے کھیت سیراب کرنے کا پانی لاتی ہے) کے ساتھ چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
راہ میں لکڑہارے اور چرواہوں سے ملاقات بھی ہوجاتی ہیں، بچوں سے بھی جو کسی درخت پر چڑھ کر موسمی پھل کو جسم و جاں کا حصہ بناتے نظر آتے ہیں۔ جب آپ قُل کے ساتھ ساتھ پہاڑ کی گودی والی آبشار کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ خود کو ایک باریک سی پگڈنڈی پر پاتے ہیں، اس وقت احتیاط لازم ہے کہ آپ کے ایک طرف گہری ڈھلوان ہے جو یقیناً دوست نہیں ہے۔ میں نے جون کی دوپہر میں اس آبشار کی قربت میں سردی کی لہر کو محسوس کیا اور پانی واقعی ٹھنڈا یخ تھا۔
پاس ہی ایک گلیشیئر بھی ہے جہاں آپ بچپن اپنا ساتھ لانا چاہیں تو کوئی بھی شربت ساتھ اٹھا لائیں، پھر قدرتی برف کا گولا آپ کا ہوا۔ دوسری آبشار کے لیے قریہ کے مغرب میں معلق پل کے پاس سے دریا ساتھ کوئی ایک دو کلومیٹر سفر کرنا پڑے گا۔ اس سمت جدھر کو دریا جاتا ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ اس آبشار تک کا ٹریک بہت آرام دہ ہے اور اگر تھوڑا تھک بھی گئے ہیں تو آبشار کا پانی آپ کو تازہ دم کر دے گا۔
ذرا ٹھہریں! ابھی چھلت میں دیکھنے کو کچھ منفرد بھی ہے، یہاں دریا سے سونا بھی نکالا جاتا ہے۔ بات یوں ہے کہ شاید ہزاروں برسوں سے شمال کے دریاؤں سے سونا چھان چھان کر نکالا جاتا رہا ہے۔
صرف چھلت ہی کیا چلاس، داسو، کومیلا، گلگت، بگروٹ، نگر اور ہنزہ کے دریاؤں کے کناروں سے سونیوال (ان کو مروح اور موہان بھی کہا جاتا ہے) خانہ بدوش طلا کش سارا سال خصوصاً سرما میں جب دریا کے کناروں سے پانی اتر جاتا ہے اور دریا ریت کے ذرات اگل جاتا ہے تو ان ریت کے ذرات کو چھان چھان کر سونے کے ذرات اکھٹے کرتے ہیں، سارا ٹبر ہی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہا ہوتا ہے کیا بچے، کیا جوان اور کیا عورتیں۔ ہیروڈوٹس جو یونانی تاریخ دان و جغرافیہ دان تھا اور آج سے کوئی پچیس سو برس قبل اس دنیا میں آتا ہے اور نسبتاً منظم تاریخ لکھنے کی وجہ سے بابائے تاریخ کا لقب پاتا ہے وہ بھی شمال کے سونے کا ذکر کرتا ہے اگرچہ کسی اور انداز سے کہ وہ لکھتا ہے (سن سنا کر کہ اس نے خود دردستان یا شمالی علاقہ جات کا دورہ نہیں کیا تھا) درد دیس میں سونا کھودنے والی بڑی چیونٹیاں پائی جاتی ہیں جن کا جسم لومڑی کے جتنا مگر کتے سے چھوٹا ہوتا ہے۔
اصل میں ہیروڈوٹس دو کہانیوں کو گڈ مڈ کر دیتا ہے کہ جن بڑی چیونٹیوں کی بابت وہ بات کرتا ہے وہ ہمالیہ و قراقرم و ہندوکش میں پائے جانے والے سنہری مارموٹ ہیں جو بھورے رنگ کا خرگوش سے کافی بڑا مگر گلہری کے جیسا جانور ہے، جو زمین کھود کر بِل بنا کر رہتا ہے۔ دوسرا وہ سونے کے حصول کے لیے تلاش کو سنہری مارموٹ سے جوڑ دیتا ہے۔ میں چھلت میں سونیوال یا مروح خاندان سے ملا جو دریا کنارے جھونپڑی لگائے سب مل کر ریت چھان رہے تھے کہ کچھ ذرات نصیب میں آئیں، اب تو دریاؤں کے کناروں کا ٹھیکا بھی دیا جاتا ہے۔
تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لیے بھی چھلت اپنی زنبیل سے کچھ نہ کچھ نکال ہی لائے گا، ابھی جس قراقرم ہائی وے پر ہم سفر کرتے ہیں وہ ہنزہ نگر دریا کے بائیں طرف ہے اور یہ عوام کے لیے ۱۹۸۶ میں کھولی گئی تھی جب کے اس سے قبل والی شاہراہ دریا کے دائیں طرف تھی جس کو شاہراہِ ریشم کہا جاتا ہے، اب بھی چھلت گاؤں میں اس شاہراہ کے اثرات موجود ہیں، وہاں تک رسائی کرکے آپ نہ صرف ماضی میں جی سکتے ہیں بلکہ وہاں سے آپ کو چھلت گاؤں ایسے نظر آئے گا جیسے کسی نے طشتری میں ڈال کر سامنے رکھ دیا ہو، اور ہاں ہوائیں بھی آپ کے گال یہاں تھوڑا زور سے تھپتھپاتی ہیں۔
ابھی بھی آپ کو قریہ کے بزرگ شاہراہِ ریشم کی داستانیں سنا سکتے ہیں جیسے مہربان صاحب نے، جو ماشااللّہ ستر سال سے زاید عمر کے ہیں، بتایا کہ وہ اس شاہراہ پر ایوب دور تک جیپ چلاتے رہے ہیں اور ایسے لگتا تھا جیسے موت کے منہ میں جیپ چلا رہے ہوں۔ مزید بتایا کہ اس روڈ کو ایوب دور کے بعد متروک کردیا گیا تھا اور پھر پہاڑ سے تھوڑا نیچے دریا کے کنارے پاس نیا روڈ بنا تھا اور اس کے بعد پھر دریا کے بائیں کنارے قراقرم ہائی وے بنایا گیا تھا۔ دونوں پرانی شاہ راہوں کے نشانات و اثرات چھلت قریہ کے باہر دیکھے جا سکتے ہیں۔
قدیم سلک روٹ کی تصاویر جی ڈبلیو لئیٹنر اور کرنل لوریمر کی کتب میں مل جاتی ہیں۔ لئیٹنر نے انیسویں صدی کے آخری نصف اور لوریمر نے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ان علاقوں کو دیکھا اور اپنی تحقیق دنیا سامنے پیش کی تھی۔ تاریخ پسندوں کے لیے چھلت گاؤں کا جنوبی گوشہ اہمیت کا حامل ہے جہاں ڈیڑھ دو سو برس قدیم سنگ و چوب کے بنے مکانات پہاڑی کنگرے کے اوپر موجود ہیں جن کو مقامی طور پر کوٹ کہا جاتا ہے۔ ان میں اکثر مکانات کو اب مویشی خانوں میں بدل دیا گیا ہے اور قریب ہی نئے گھر بنالیے گئے ہیں۔ کوٹ قلعہ یا قلعہ بند آبادی کو کہا جاتا ہے، زمانہ قدیم میں حملہ آوروں کے ڈر کی وجہ سے آبادی کاری کوٹ کے اندر ہی کی جاتی تھی۔
چلیں اب تاریخ کے دوراہے سے چھلت کی سیاحت نگری کو چلتے ہیں کہ مئی و وسط جون تک چھلت چیری سے لدا رہتا ہے، ہر ہر گھر اور صحن میں آپ کو چیری کی بہار ملے گی۔ اس کے علاوہ دو تین بڑے باغ بھی ہیں چیری کے؛ ایک باغ تو بلکل معلق پل کے پاس قریہ سے باہر اور دوسرا چھلت پائیں کے بالکل وسط میں۔ وسطی باغ میں تین قسم کی چیری کے درخت لگے ہوئے ہیں؛ دیسی چیری، فرانسیسی لال چیری اور فرانسیسی سفیدی مائل چیری جو جوس کے لیے اگائی جاتی ہے۔ چیری کے باغ میں گزرے لمحات زندگی کے حاصل لمحات میں سے چند ایک ہوسکتے ہیں، صرف آپ، چیری، پکھیرو اور ہوائیں۔ لال لال چیری درختوں ساتھ ایسے لٹک رہی ہوتی ہے جیسی محبوب ہستی کے گالوں تک آتے آویزے لہرا رہے ہوں۔
ٹریکنگ و ہائیکنگ کے لیے بھی چھلت نے اپنا سینہ کشادہ رکھا ہے۔ آپ چھلت سے گَشو مَلِنگ و پارائی ڈوکری تک کا سفر کر سکتے ہیں۔ چھلت پائین کے بازار سے شمال مغرب کو جو راستہ چھپروٹ ندی کے ساتھ والا ہے اس سے یاری لگائیں اور چل پڑیں۔ یہاں سے پارائی ڈوکری تک لگ بھگ چھ سات کلومیٹر کا ٹریک ہے جو آغاز میں خشکی لیے ہوئے ہیں مگر آگے جا کر ہریالی سے آپ کو تازہ دم کرتا ہے۔
چھلت چھپروٹ ندی ٹریک آغاز سے ٹریک اختتام تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی، ہمہ وقت جاتے ہوئے آپ کے دائیں ہاتھ یعنی شمال میں رہتی ہی اور گنگناہٹ سے نوازتی رہتی ہے۔ بازار سے آگے جب آپ ایک ڈیڑھ کلومیٹر کی مسافت طے کرچکے ہوتے ہیں تو قدرے بلندی سے آپ اپنے دائیں ہاتھ ندی کے پار دیکھتے ہیں تو وہاں ایک کوہستانی قصبہ رابٹ اپنی ہریالی سے آپ کی آنکھوں کو تازگی بخشتا ہے۔ تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں تو دائیں ہاتھ پر آپ کو دو پتھر راہ کنارے پڑے ملتے ہیں۔ دونوں پتھر تقریباً ایک ہی حجم کے ہیں، ہاں ایک پر چھوٹے چھوٹے کافی پتھر اوپر تلے لگائے سجائے ہوئے ہیں جب کہ دوسرے پتھر کی سطح پر ایک گھوڑے کی شبیہہ قدرتی طور پر بنی ہوئی ہے۔
پوچھنے پر بتایا گیا کہ پرانے وقتوں سے یہ روایت رہی ہے کہ جب کوئی راہ گزر، چرواہا، لکڑہارا یا شکاری چھلت سے پارائی ڈوکری یا اس سے پار جاتا تو ایک چھوٹا پتھر بڑے پتھر پر اپنی کوئی من کی مراد پوری ہونے کی نیت سے رکھ دیتا جب کہ دوسرے پتھر پر گھوڑے کی شبیہہ سے اپنے گھٹنے اور سر کو اس نیت سے مَس کرتا کہ اسے راستے کی تھکاوٹ نہ ہو اور آج بھی لوگ اس روایت سے جڑے ہوئے ہیں گو کہ ان کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
جہاں یہ دو پتھر موجود ہیں وہ جگہ بھی اس روایت کے زوال کی داستان سناتی ہے کہ سن دو ہزار بارہ کے گرما میں جب میں یہ ٹریک کیا تو وہاں پر روایت سے جڑے دو پتھروں کے گرد بڑے بڑے کوئی چالیس پچاس پتھروں سے دیوار بنا کر وہاں ہزار سے زاید کی تعداد میں مَنتی پتھر رکھے ہوئے تھے جب کہ سن دو ہزار چوبیس کے گرما میں دونوں پتھروں کی چار دیواری مفقود تھی اور مَنتی پتھروں کی تعداد سو سے بھی کم۔
چھلت بازار سے جب آپ دو اڑھائی کلومیٹر کا ٹریک کر لیتے ہیں تو ہریالی آپ کا دامن تھام لیتی ہے۔ اب آپ کے دونوں طرف سبزہ ہے، کھیت ہیں، گھاس کے قطعے ہیں اور پھل دار اور غیر پھل دار درخت ہیں جن پر پرندوں کا بسیرا ہے۔ پرندوں کی گائیکی آپ کو سرور بخشتی ہے، کشپی (میگ پائی) پرندہ اپنے خوب صورت رنگوں سے آپ کو لبھاتا ہے اور آپ سفر ایسے جاری رکھتے ہیں کہ دائیں ہاتھ پر مگر تھوڑا دور گہرائی میں چھلت چھپروٹ ندی اور بائیں ہاتھ قُل ہے، ندی اوپر پارائی ڈوکری اور اس سے پرے برف زاروں سے ٹھنڈا یخ پانی نیچے چھلت کے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے لاتی ہے اور آپ آگے اور اوپر کو بڑھتے جاتے ہیں وہ بھی ایسے کہ راہ میں آپ کو چرواہے، لکڑہارے اور قُل کو چالو حالت میں رکھنے والے رکھوالے یا کھیتوں کو پانی دیتے کوہستانی دہقان ملتے رہتے ہیں۔
بازار سے پارائی ڈوکری کا ٹریک ایک سوا گھنٹے کا ہے جو میں اڑھائی گھنٹے میں کیا کہ میرے پاس پورا دن تھا وہاں جانے کا، خود کو خود سے ملوانے کا اور تازہ ہوا کو اندر تک سمونے کا۔ جب آپ ٹریک کرتے ہیں تو آپ کی پشت پر رَاکا پوشی (۲۵۵۵۰ فٹ) اور دِیران چوٹی (۲۳۸۳۹ فیٹ) کے پہاڑ دور تک آپ کو پیچھے سے تکتے رہتے ہیں اور جب آپ پارائی ڈوکری پہنچ جاتے ہیں، تو آپ اپنے سامنے چھلت چھپروٹ ندی، اس کے پرے برف زار اور ان سے اوپر سربفلک برف پوش چوٹیاں دیکھتے ہیں، بلندی ترین چاری کھانڈ چوٹی (۱۹۳۰۰ فیٹ) آپ کی نظروں کو اچک لیتی ہے، اِدھر اُدھر ہلنے نہیں دیتی اور اس چوٹی اور اس کے گردا گرد پہاڑوں کے پرے نلتر کی خوب صورت وادی پڑتی ہے مگر آپ کو تو یہاں سے ہی واپس آنا ہے تو بہتر ہے ایک دو گھنٹے یہاں رک جائیں، سمے کو روک لیں، خود کو جی لیں، کچھ ساتھ لائیں ہیں توپکا لیں یا پھر کھانے والا لائے ہیں تو کھالیں۔
قُل کا پانی دیکھنے میں گدلا ہے مگر پینے والا ہے، دل نہیں مانتا تو پارائی ڈوکری سے مزید ایک کلومیٹر سفر کرکے آگے جائیں تو چشمہ کا پانی بھی دست یاب ہے، مجھے تو گدلا بھی چل گیا تھا۔ ٹریک کوئی مشکل نہیں ہے، تین گھنٹے آنے جانے کے اور ایک گھنٹہ وہاں قیام بھی کافی ہے اگر آپ کے پاس اس ٹریک کے لیے آدھا دن ہے، میرے پاس تو پورا دین تھا۔
کھانا یا ہلکا پھلکا کھانے کا آسرا ساتھ لے کر جائیں وہاں کچھ دست یاب نہیں۔ پانی وافر موجود ہے، خطرہ کوئی نہیں نہ انسان کا نہ جانور کا (سردیوں کا پتا نہیں کہ کسی جانور کا خدشہ ہوتا کہ نہیں)، لوگ نرم خو اور مہمان نواز ہے۔ چوںکہ سیاح نہیں جاتے تو سارا راستہ اور علاقہ آلودگی سے پاک ہے تو جب آپ بھی جائیں تو وہاں آلودگی سے گریز کریں کہ یہ فطری ماحول اگلی نسل تک بھی پہنچنا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قراقرم ہائی وے پر کہا جاتا ہے دائیں ہاتھ ہوئے ہیں سکتے ہیں ا ہے اور ہے اور ا ہیں تو ا ہیں اور چیری کے معلق پل کا ٹریک کے ساتھ دریا کے کا پانی قریہ کے اور اس کے لیے ہیں جن ایک دو خود کو
پڑھیں:
بُک شیلف
درخشاں حیات کا جامع احوال
’جامع السیر‘ کا موضوع نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ یہ کتاب مولانا یوسف متالا صاحب کے مجموعہ ارشادات پر مشتمل ہے۔ مولانا یوسف کے تکمیل قرآن مجید، و بخاری شریف اور رمضان المبارک میں ریڈیو پر نشر ہونے والے دروس کی جب کتابی تشکیل کی گئی، تو اس کے نتیجے میں سیرت نبویﷺ کے حوالے سے کچھ مفصل مجموعے منظرعام پر آئے۔ ’جامع السیر‘ انھی کتب کا گویا ایک جامع خلاصہ ہے۔
اس کتاب میں بہت مہارت اور جامعیت سے حیات طیبہ ﷺ کا احاطہ کرنے کی ایک قابل قدر کوشش کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی مبارک کے مختلف واقعات، معجزات، غزوات اور معاہدوں سے لے کر روز مرہ زندگی کے معمولات اور آپ ﷺ کی نشست وبرخاست تک کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ازواج مطہرات۔ دیگر قریبی رشتے دار، صحابہ کرام ؓاور رسول اکرم ﷺ کی ذاتی زندگی کے بہت سے خوب صورت اور حیات افروز پہلو بھی ان اوراق میں جگ مگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والے ہر شخص کی کم از کم یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے محبوب نبی کی سیرت پاک سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرسکے، تاکہ نہ صرف کچھ ہدایت حاصل ہو، بلکہ حُب رسول ﷺ کے چشمے سے بساط بھر فیض حاصل کرے، تاکہ زندگی کے جہل کو مٹانے کے ساتھ ساتھ اپنی اُخروی زندگی کے واسطے بھی کوئی کرن پا سکے۔ اس کتاب میں بعثت نبوی اور ہجرت مدینہ کے سال بہ سال تذکرے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آپ ﷺ کے استعمال میں رہنے والی چیزوں کے بیان اور آپ کے ذریعے مختلف ذمہ داریوں کی سعادت اور خدمت کا مرتبہ پانے والوں کا ذکر حُب رسول رکھنے والوں کے دلوں پر براہ راست دستک دیتا ہے۔
سچ پوچھیے تو موضوع کے چناؤ نے کتاب کو کسی تعارف کا محتاج نہیں رکھا، لیکن اس کی سعادت پانے والوں کی سعی کو نہ سراہنا بھی زیادتی ہوگی۔ کتاب کے مندرجات کو چھوٹے چھوٹے زُمروں میں بانٹنے سے کتاب کی خواندگی اور متعلقہ موضوع تک رسائی میں کافی سہولت رہتی ہے۔ کتاب کی طباعت سفید بَِڑھیا کاغذ پر کی گئی ہے، ساتھ ہی مختلف رنگین نقشوں سے بھی راہ نمائی کی گئی ہے۔ یہ کتاب زم زم پبلشرز (03351111326, 03008204770) اردو بازار، کراچی نے شائع کی ہے۔
٭٭٭
کہاوتوں سے بُنی گئی کہانیاں
ایک کہاوت ایک کہانی (4) اطہراقبال صاحب کی اردو کی 101 کہاوتوں پر مشتمل ایسی کتاب ہے، جس میں ہر کہاوت کے حوالے سے باقاعدہ ایک کہانی شامل کی گئی ہے۔ یہی خوبی اس کتاب کو منفرد اور ممتاز بناتی ہے۔ یوں بھی کوئی کہاوت کسی نہ کسی کہانی اور تجربے سے ہی زندگی پاتی ہے، اور اس کتاب میں اس کہاوت کو دوبارہ سے ایک کہانی سے منسلک کردیا گیا ہے۔
بچوں کے لیے ترتیب دی گئی اس دل چسپ کتاب میں مصنف نے اردو املے کی درستی اور اصلاح کا نہ صرف خیال رکھا ہے، بلکہ اس کی وضاحت بھی کی ہے، تاکہ سیکھنے والے بچے کسی بھی قسم کی الجھن اور ابہام کا شکار نہ ہوں۔ بہت سی کہاوتیں ایسے بھی ہیں، جو آج کل ہمارے گھرانوں میں لفظوں کے ہیر پھیر کا شکار ہوگئیں، جیسے ہم نے ’دن بھر پیسا، چٹنی بھر نہ اٹھایا‘ سُن رکھا تھا، لیکن اس کتاب میں یہ کہاوت ’رات بھر پیسا، چَپنی بھر نہ اٹھایا‘ کے عنوان سے دکھائی دیا۔ ایسے ہی ہم نے ’کھائیں نانا، نانی کے روٹ، کہلائیں دادا، دادی کے پوت!‘ سنا جو اس کتاب میں ’’نانا کے ٹکڑے کھاوے، دادا کا پوتا کہلاوے‘‘ لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو کہ یقیناً مستند اور درست ہوگا۔
اسی طرح ایسی بہت سی کہاوتیں اور بہت سے ضرب المثل ہیں، جو کسی نہ کسی طور ہماری عام گفتگو میں شامل رہتے ہیں اور ہمارے مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے میں نہایت ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں، وہ ہمیں اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے مل جاتے ہیں اور عام پڑھنے والے کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
اس موقعے پر زیادتی ہوگی کہ اگر ہم ہر کہانی کے ساتھ بنایا جانے والے خاکوں کا ذکر نہ کریں، جو خالق خان پاکی کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ حرف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیے گئے اس محاوروں کی کتاب کی ضخامت 320 صفحات اور قیمت 1200 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ کتاب کراچی کے معروف ناشر، فرید پبلشر (03452360378,03132800052) نے شائع کی گئی ہے۔ اس سے پہلے اس حوالے سے اطہر اقبال کی ’ایک کہاوت ایک کہانی‘ ’ایک محاورہ ایک کہانی‘ اور ’فرار سے گرفتاری تک‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی ہیں۔
درد میں پنہاں ’کالم‘
دفتر کھلا (جلد دوم) ڈاکٹر یونس حسنی کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی ایک ادیب اور نقاد ہونے کے باوجود جب اخبار کے لیے کالم لکھتے ہیں، تو لکھتے ہوئے حالیہ واقعات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، جس میں وہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی خبروں کے ساتھ ساتھ اپنا کوئی تازہ مشاہدہ، تجربہ یا واقعہ بھی شامل کر لیتے ہیں، کبھی کوئی اشتہار، کوئی نئی مہم، کوئی تنازع یا حالات حاضرہ کا کوئی ایسا قدم جو کسی نہ کسی حوالے سے جھول کھا رہا ہو، وہ ان کے قلم سے چُوک نہیں پاتا۔
دوسری جو چیز انھیں لکھنے پر مجبور کرتی ہے، وہ اس واقعے کے حوالے سے ذہن میں آنے والے سوالات، تنقید، طنز ومزاح، نصیحت یا ان کا دردمندانہ تبصرہ ہوتا ہے۔ دردر اور احساس تو ہمیں ان کے کالموں میں جابہ جا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنی فکر کے مطابق مختلف موضوعات پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں اور اس سلیقے سے قارئین تک اپنا پیغام اور مافی الضمیر پہنچا بھی دیتے ہیں کہ اگر وہ اس کا قائل نہ بھی ہو تو اس پر قطعی گراں بھی نہیں گزرتا۔
یوں تو کتاب ان کے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالموں کا دوسرا مجموعہ ہے، لیکن اس کتاب کی ابتدا میں 19 کالم روزنامہ ایکسپریس سے پہلے کے بھی ہیں۔ کتاب کے فلیپ پر اس کتاب کے ’ناشر‘ ڈاکٹر یونس حسنی صاحب کے کالموں کی تیسری جلد شائع کرنے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں، دوسری طرف ڈاکٹر یونس حسنی جیسی گراں قدر ہستی کے تعارف میں سَن کی ایک غلطی اس خوب صورت کتاب کے لطف میں فرق ڈالنے لگتی ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر یونس حسنی کا شعبۂ اردو جامعہ کراچی میں مستقل تقرر یکم مارچ 1978ء کو ہوا اور 31-3-1977 کو بہ حیثیت پروفیسر سبک دوش ہوگئے۔
اصل افسوس ناک یہ غفلت ہے کہ یہی سہو کالموں کی پچھلی جلد میں بھی موجود تھا۔ یہی نہیں کتاب کے پہلے صفحے پر ڈاکٹر یونس حسنی کے ’تشکرات ‘ کی چند سطروں میں بھی روزنامہ ایکسپریس کے نام میں بھی پروف کی غلطی موجود ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی اس وقت اردو زبان وبیان اور لسانیات کے چند نمایاں ترین ہستیوں میں شامل ہے، ان کی کتب شائع کرنا یقیناً کسی بھی ناشر کے لیے ایک بڑا اعزاز ہو سکتا ہے، لیکن مذکورہ بالا سہو ڈاکٹر صاحب کے بلند مرتبے کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔ بہرحال، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، جسے ہم لکھنے سے رُک نہ سکے۔ 320 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر یونس حسنی کے تقریباً 100 کالموں کا احاطہ کرتی ہے اور ہر کالم میں کوئی پیغام یا نصیحت پنہاں ہے۔ اس مجلد مجموعے کی قیمت 1200روپے ہے۔ اس کی اشاعت ’رنگ ادب پبلی کیشنز‘ (0336-2085325, 0300-2054154) اردو بازار، کراچی کے تحت کی گئی ہے۔
کُوچے ’شہرِقائد‘ کے!
یوں تو اس ملک کے پہلے دارلحکومت اور معاشی مرکز کراچی پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، لیکن جتنا وسیع یہ شہر ہے اتنی پھیلی ہوئی اس کی تاریخ اور اس کے مختلف پہلو بھی ہیں۔ اس لیے ہر کتاب ہی میں کوئی نہ کوئی نئی تحقیق اور انکشاف سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی نئی کتاب ’کراچی کے گوشے‘ بھی ہے۔ ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ میرٹوریس پروفیسر اور سابق رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم، سابق ڈائریکٹر ویمنز اسٹڈی سینٹر ہیں۔ ان کی اس کتاب میں کراچی شہر کے مختلف مقامات اور علاقوں کے حوالے سے مختصر مختصر، لیکن دل چسپ اور اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس لیے کراچی کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والا ایک عام قاری اس کے اوراق میں کھوتا ہی چلا جاتا ہے۔
یہ کتاب چوں کہ ایک تحقیقی مقالہ ہے، سو اس میں موضوع کے تعارف، لٹریچر کا جائزہ، مقصدِ تحقیق، تحقیقی طریقۂ کار وغیرہ جیسے عام لوازمات بھی موجود ہیں، یوں اس کتاب کے185 میں سے 72 صفحات مقالے کی تحقیقی ضرورت کو پورا کرنے والے مواد پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد ہمیں بہت اختصار کے ساتھ کراچی کے 100 سے زائد چھوٹے چھوٹے علاقوں کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ بالخصوص ان علاقوں کی وجۂ تسمیہ کے حوالے سے معلومات ایسی ہیں، کہ ہر شخص سوچتا تو ضرور ہے کہ اس جگہ کا یہ نام کیوں پڑا، لیکن اس کتاب میں اس کا جواب پتا چل جاتا ہے۔
اس اعتبار سے یہ مختصر سی کتاب ایک خاصے کی چیز ہے کہ آپ بہت آسانی سے چند سطروں میں کراچی کے کسی بھی علاقے کا پس منظر، اس کی اہمیت، خصوصیات اور اس کے تاریخی پس منظر کے بارے میں آگاہی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس میں کچھ نام بٹوارے کے بعد کے ہیںِ، تو کچھ اس سے قبل کی تاریخ سے منسلک، تو کچھ کا تعلق مذہبی ہے، تو کچھ کے نام واقعات، تو کچھ مختلف روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس کتاب کے آخر میں خلاصہ، تحقیق کے نتائج اور سفارشات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ساتھ ساتھ ’کتابیات‘ اور حوالہ جات کا بھی پورا اہتمام ہے۔ یہ کتاب ’انجمن ترقی نسواں، کراچی اسٹدیز سوسائٹی، ایسو سی ایشن آف سوشل ورک پروفیشنلز اور شوبہ سماجی بہبود، جامعہ کراچی نے شائع کی ہے۔ قیمت 700 روپے ہے
چوکھٹا
لفظِ ’پاکستان‘ کے خالق پر ایک دستاویز
’’چوہدری رحمت علی، اعتراضات کا جائزہ‘‘ زید بن عمر کی ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں چوہدری رحمت علی کی تحریک پاکستان میں کاوشوں اور ان کے منفرد خیالات اور ذرا مختلف نقطۂ نظر کا الگ الگ زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے، اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ ان کے موقف مختلف ہونے کی بنا پر انھیں بہت سے حوالوں سے بہت سے حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں ان کی شخصیت اور ان کے کام کے حوالے سے بھی بہت سے ابہام پیدا ہوگئے یا کردیے گئے۔
ان سب کی حقیقت کیا ہے؟ اس کتاب میں ایسے بہت سے سوالات کے جواب ملتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں ایک نہایت متحرک طالب علم راہ نما کے طور پر جانے جانے والے چوہدری رحمت علی کی ’پاکستان اسکیم‘ اور ہندوستان کے اقلیتی مسلمانوں کے واسطے علاحدگی کا کیا منصوبہ تھا اور وہ برصغیر کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو عام مسلم لیگی اکابرین سے کس طرح مختلف طریقے سے دیکھ رہے تھے؟ قیام پاکستان کے بعد ان سے ہمارے رویے کی بازگشت بھی ان صفحات میں سنائی دیتی ہے اور یہاں تک کہ کس طرح 1951ء میں وہ دیارِغیر میں کسما پُرسی میں انتقال کر گئے۔
بعد میں بھی سرکاری اور غیرسرکاری طور پر بھی ان کے کردار کو باقاعدہ نظرانداز کرنے کا چلن بھی پایا جاتا ہے، لیکن ’اب یا کبھی نہیں‘ نامی تاریخی پمفلٹ کے ذریعے انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی اس تحریک میں اپنا ایک مقام اور لفظ ’پاکستان‘ کے خالق ہونے کے ناتے گویا اس تاریخ میں اپنی اہمیت منوائی ہے۔ اس کتاب میں چوہدری رحمت علی کی فکر اور علامہ اقبال کے خطبہ ٔ الہ آباد کے موازنے کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کیا چوہدری رحمت علی کا مشہورِ زمانہ پمفلٹ ’اب یا کبھی نہیں‘ علامہ اقبال نے لکھوایا تھا؟ یہی نہیں چوہدری رحمت علی اور ’سوشل اِزم‘ کے تعلق کا سوال بھی اس کتاب کا ایک دل چسپ اور اہم باب ہے۔
یعنی یہ تصنیف چوہدری رحمت علی کے سیاسی نظریات و افکار اور ان کی جدوجہد اور کاوشوں کا احاطہ کرتی ہے، جس میں ایک باب قیام پاکستان کے بعد اس ریاست کے عمائدین کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی سے اختلاف کا بھی دکھائی دیتا ہے کہ جب پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے مسلمانوں کے معاملے کو باقاعدہ طور پر ہندوستان کا داخلی معاملہ قرار دے دیا گیا۔
اس کتاب کے محقق زید بن عمر اس کتاب سے قبل چوہدری رحمت علی پر پانچ کتابوں پر نظر ثانی کا فریضہ بھی انجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب کے لیے مختلف محققین کے مقالہ جات، مضامین، دستاویزات اور بیانات کو بھی باقاعدہ شامل کیا ہے۔ مکمل حوالہ جات اور ’کتابیات‘ سے مزین، 398 صفحات کی اس وقیع کتاب میں تقریباً سو صفحات میں آٹھ عدد ’ضمیمہ جات‘ بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس تاریخی دستاویز کی قیمت 1500 روپے ہے، جب کہ اس کی اشاعت مکتبہ جمال (03008834610) لاہور سے ہوئی ہے۔