WE News:
2025-07-29@23:58:22 GMT

صنفی بنیادوں پر خواتین کا قتل یا فیمی سائیڈ

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

صنفی بنیادوں پر خواتین کا قتل یا فیمی سائیڈ

پاکستان میں خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر تشدد کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ ایسے کئی واقعات، جیسے کہ 28 سالہ سمیعہ سرور کا کیس، جس نے 1999 میں طلاق لینے کی خواہش پر اس کے خاندان نے قتل کر دیا۔

پاکستانی میڈیا میں عموماً ایسے کیسز محض سرسری طور پر رپورٹ کیے جاتے ہیں اور جلد ہی پس منظر میں دھکیل دیے جاتے ہیں، کیونکہ کچھ میڈیا اداروں کے نزدیک ایسے واقعات ’پاکستان کی ساکھ خراب کرتے ہیں‘، یا پھر اس لیے کہ متاثرہ خواتین کو اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا کہ ان کے لیے آواز اٹھائی جائے۔

جب کبھی ایسے واقعات کو توجہ ملتی بھی ہے، تو ان کی حقیقت کو جلد ہی مسخ کر دیا جاتا ہے۔ ان پر ایک ایسا بیانیہ تھوپ دیا جاتا ہے جو صنفی تعصب پر مبنی ہوتا ہے اور جو خواتین کے خلاف منفی رویوں کو مزید تقویت دیتا ہے۔ اس طرح کی معلوماتی مہمات نہ صرف حقیقت سے توجہ ہٹاتی ہیں بلکہ خواتین کے لیے خطرات کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔

تاہم 20 جولائی 2021 کورپورٹ ہونے والا 27 سالہ نور مقدم کا کیس، جو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کے گھر سے مردہ حالت میں ملی، بین الاقوامی اور قومی میڈیا میں نمایاں طور پر رپورٹ ہوا۔ اس واقعے کی ہولناکی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

گزشتہ چند سال پاکستان میں خواتین کے لیے خاص طور پر صدمہ خیز ثابت ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے مزید کیسز عوامی توجہ حاصل کر رہے ہیں، مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے، اور خواتین کے تحفظ کے لیے پالیسیوں اور پروگراموں کے مطالبات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

تاہم ابھی تک پاکستان میں فیمی سائیڈ ایک سنگین مگر اکثر نظر انداز شدہ مسئلہ ہے۔ اگرچہ قانوناً قتل ایک جرم ہے، مگر جب یہ صنفی بنیاد پر ہو، تو اکثر معاشرتی خاموشی، پولیس کی بے حسی اور عدالتی کمزوری اسے ’غیرت‘ یا ’خاندانی مسئلہ‘ بنا کر ختم کر دیتی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمییشن کی  2022 کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں غیرت کے نام پر تقریباً 384 خواتین قتل ہوئیں، جبکہ بیشتر  کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

فیمی سائیڈ کیا ہے؟

فیمی سائیڈایک ایسا عمل ہے جو کسی خاتون کو اس کے صنفی وجود، یعنی صرف عورت ہونے کی بنیاد پر قتل کیے جانے کو بیان کرتا ہے۔ یہ محض قتل کا فعل نہیں، بلکہ اس کے پیچھے چھپی صنفی امتیاز، طاقت کے غیر مساوی تعلقات، مردانہ غلبے اور خواتین کے خلاف گہری جمی سماجی نفرت کی غمازی کرتا ہے۔

فیمی سائیڈ عمومی طور پر گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، زبردستی کی شادی، یا شادی سے انکار پر کیے جانے والے جرائم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ہزاروں خواتین اپنے قریبی مرد رشتہ داروں یا شوہروں کے ہاتھوں صرف اس لیے قتل ہو جاتی ہیں کہ انہوں نے ’روایتی‘ کردار سے ہٹنے کی جسارت کی۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً 50,000 خواتین  اپنے موجود یا سابقہ شریکِ حیات یا خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل کی جاتی ہیں۔

فیمی سائیڈ محض ایک مجرمانہ رویہ نہیں بلکہ ایک خواتین کے خلاف ایک سوچا سمجھا ظلم ہے، جو خواتین کی آزادی، خودمختاری اور زندگی کے حق کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

جب ریاست، پولیس، عدلیہ اور معاشرہ خاموش رہتے ہیں، تو یہ قتل محض ایک واقعہ نہیں بلکہ عورتوں کے خلاف اجتماعی سزا بن جاتا ہے۔

پاکستان میں فیمی سائیڈ کو قانونی اصطلاح کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، نہ ہی اعدادوشمار میں اسے الگ سے درج کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی عورتوں کی موت کو کبھی بھی اس بنیاد پر نہیں دیکھا جاتا کہ وہ عورت تھیں، بلکہ انہیں روایتی جرائم کی فہرست میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین میں ترامیم اور قانونی سقوم

2004 میں حکومت نے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کو قتل عمد قرار دے کر اس کی سزا موت یا عمر قید مقرر کر دی تھی۔ اس سے پہلے ایسے واقعات کو عام قتل میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس ایکٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ قاتل ولی کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔

تاہم یہ قانون عملی طور پر بے اثر رہا، چونکہ ایسے واقعات میں قاتل عموماً قریبی رشتہ دار ہی ہوتا تھا، اس لیے مقتول کے ورثا دیت کے قانون کے تحت اسے معاف کر دیتے تھے اور اس طرح قاتلوں کو گویا کھلی چھوٹ حاصل تھی۔

ڈسٹرکٹ کورٹ میانوالی میں وکالت کرنے والے عرفان الحسن کہتے ہیں کہ اس قانون سازی کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو باقاعدہ جرم تو قرار دے دیا گیا لیکن اس قانون میں اس قدر سقم تھے کہ قاتل صاف بچ نکلتا تھا۔

دیت کے قانون کی موجودگی میں ورثا قاتل کو معاف کر دیتے تھے اور وہ چند ہی ماہ میں رہا ہو جاتا تھا۔ چنانچہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کوئی کمی نہ آئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2004 سے 2016 کے درمیان ایسے 15 ہزار 222 واقعات رپورٹ ہوئے۔

2016میں قندیل بلوچ کے قتل کے بعد اس قانون میں مزید ترمیم کی گئی جس کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو فساد فی الارض میں شمار کیا گیا اور اب ولی قاتل کو معاف نہیں کر سکتا۔

اس میں دوسری اہم بات یہ تھی کہ ولی قصاص کے تحت سزائے موت کو معاف کر سکتا ہے لیکن تعزیر کے تحت عمر قید کی سزا معاف نہیں کر سکتا۔

اس میں تیسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں تعزیر کی سزا عمر قید ہو گی۔

اس ترمیم کے بعد اب پولیس نے ایسے مقدمات تعزیرات پاکستان کے سیکشن 302 اور 311 کے تحت درج کرنا شروع کر دیے۔ تا ہم اس قانون کی منظوری کے بعد اکتوبر 2016 سے جون 2017 تک 9 مہینوں میں غیرت کے نام پر قتل کے 280 واقعات رپورٹ ہوئے۔

عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں صرف 7 افراد کو سزا ہوئی۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 ترمیم کے بعد بھی مؤثر ثابت نہیں ہو سکی۔ مقتول عورت کا خون اکثر معاف کر دیا جاتا ہے کیونکہ قاتل بھی اکثر شوہر، باپ یا بھائی ہی ہوتا ہے۔

جب قاتل اور مدعی ایک ہی خاندان کے ہوں، تو کیس عدالت سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔ پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر میں عورتوں کے قتل کو اکثر حادثہ، خودکشی یا چولہے کی آگ کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔

پولیس کی تفتیش کا ناقص ہونا، شواہد محفوظ نہ رکھنا اور ایف آئی آر میں غلط دفعات کا اطلاق، سب مل کر قاتل کو فائدہ دیتے ہیں۔

نتیجہ

فیمی سائیڈ جیسے سنگین مسئلے کے باوجود پاکستان میں اسے ایک علیحدہ اور سنجیدہ جرم کے طور پر نہ تسلیم کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی جامع ریاستی پالیسی موجود ہے۔

یہ ریاستی بے حسی اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے جب متاثرہ خواتین کے لیے نہ تو انصاف کی ضمانت دی جاتی ہے، نہ قانونی معاونت فراہم کی جاتی ہے، اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو تحفظ ملتا ہے۔

ہر وہ کیس جس میں عورت کو اس کی مرضی، خودمختاری یا انکار کی سزا دی گئی ہو، درحقیقت ایک فیمی سائیڈ ہے، چاہے وہ ’غیرت‘ کے نام پر ہو یا گھریلو تشدد کے نتیجے میں۔

جب تک پاکستان میں فیمی سائیڈ کو ایک مخصوص، قابلِ شناخت اور ناقابلِ معافی جرم کے طور پر قانونی اور سماجی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا، تب تک خواتین کے قتل کے یہ واقعات محض اعداد و شمار کی صورت میں رپورٹوں کا حصہ بنتے رہیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی اجتماعی طور پر اس مسئلے کو تسلیم کریں اور خواتین کے حقِ زندگی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔

بصورت دیگر نور، سمیعہ اور قندیل جیسے نام صرف خبروں میں گم ہو جائیں گے، اور ان کی قبریں خاموشی سے اس معاشرتی بے حسی کی گواہی دیتی رہیں گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہ پارا ذوالقدر

اقوام متحدہ پاکستان خواتین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ پاکستان خواتین غیرت کے نام پر قتل کے خواتین کے خلاف ایسے واقعات پاکستان میں دیا جاتا ہے فیمی سائیڈ کے مطابق کی رپورٹ کر سکتا معاف کر کے بعد کر دیا کے لیے کے تحت کی سزا قتل کو

پڑھیں:

سیالکوٹ : تمام کلیدی عہدوں پر خواتین افسران تعینات

 قیصر کھو کھر:سیالکوٹ میں تمام کلیدی انتظامی عہدوں پر خواتین افسران کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے.

ڈی سی سیالکوٹ صبا اصغر علی تعینات ہیں،چاروں تحصیلوں میں خواتین اے سی تعینات ہیں،سعدیہ جعفر اے سی ڈسکہ ،سدرہ ستار اے سی پسرور ہیں۔

غلام فاطمہ اے سی سمڑیال ،انعم بابر اے سی سیالکوٹ تعینات ہیں،سیالکوٹ کی تمام انتظامی آسامیوں پر خواتین افسران تعینات ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جدید سیاست میں خواتین کی رول ماڈل
  • غزہ پٹی میں نئے اسرائیلی حملے، خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 30 ہلاکتیں
  • غیرت کے نام پر قتل پر اے پی سی ہونی چاہیے، ن لیگ اور پی ٹی آئی کا اتفاق
  • کیا راولپنڈی اسلام آباد کے ہوٹلوں پر گدھے کا گوشت سپلائی کیا جاتا رہا ہے؟
  • سیالکوٹ : تمام کلیدی عہدوں پر خواتین افسران تعینات
  • قدرتی ویاگرا کہلانے والی پاکستانی ’سلاجیت‘ کی دنیا میں طلب زیادہ کیوں؟
  • آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
  • پی ٹی آئی حکومت مزید 6 ماہ رہتی تو پاکستان دیوالیہ ہو جاتا: اسحاق ڈار
  • پاکستان یا امریکہ ہر ریاست کے قوانین کا احترام کیا جاتا ہے، عافیہ بھی عشروں سے قید ہیں: اسحاق ڈار